مطالعہ سیرت کی اہمیت و افادیت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
لفظ سیرت کا مفہوم:

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے سے پہلے لفظ سیرت کی وضاحت ضروری ہے۔ اردو دائرہ معرف اسلامیہ میں لکھا ہے کہ لفظ سیرت سار، یسیر اور سیرا کا اسم ہے اس کے معنی راستہ طریقہ وغیرہ کے ہیں۔

لفظ سیرت ساریسیر باب ضرب یضرب سے سیرا و مسیرا سے مشتق ہے۔ س ی ر اس کے اصل حروف ہیں۔ اس کے معانی جانا، لے جانا، چلنا، چلانا وغیرہ کے ہیں۔

سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے مراد آپ کی پاکیزہ تعلیم سوانح عمری اور طرز زندگی ہے۔ جنہیں رب العالمین سے رحمت اللعالمین کا لقب ملا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِـيْهِـمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ۝

البتہ تمہارے لیے ان میں ایک نیک نمونہ ہے اس کے لیے جو اﷲ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو، اور جو کوئی منہ موڑے تو بے شک اﷲ بھی بے پروا خوبیوں والا ہے۔ (سورۃ الممتحنۃ: 6)

لَّـقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَـرَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا۝


البتہ تمہارے لیے رسول اﷲ میں اچھا نمونہ ہے جو اﷲ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کو بہت یاد کرتا ہے۔ (سورۃ الاحزاب:21)

خوش قسمتی سے دنیا کا سب سے بڑا مفکر اور حکیم دنیا کا سب سے بڑا عامل بھی ہے۔ اسی حسن عمل کی بنا پر اس صاحب خلق عظیم کا لقب عطا ہوا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ۝

اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں۔ (سورۃ القلم:4)

آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ بے شمار فضا‏‏ئل و محاسن کی جامع ہے۔ اس کا مطالعہ نہ صرف تاریخی، عقلی اور روحانی فوائد کا حامل ہے بلکہ دیان الی الحق قانون دانوں اور اجتماعی فلاح و بہبود کا کام کرنے والے مصلحین کے لیے بھی نہایت ضروری ہے کہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ذریعے مسائل شریعت کے تبلیغ بطریق احسن انجام دے سکیں۔ چنانچہ عالم اسلام کے مشہور سکالر اور محقق ڈاکٹر حمید اﷲ فرماتے ہیں کہ سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی اہمیت درج ذیل پہلوؤں سے ہے۔

1) مطالعہ سیرت کی دینی و مذہبی اہمیت:

دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہونے کے لیے دینی و مذہبی اعتبار سے سیرت نبوی کا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّـٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِـيْهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۚ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ۝

اﷲ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جو ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا (وہ) ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور دانش سکھاتا ہے، اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔ (سورۃ آل عمران:164)

اگر ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کریں تو اﷲ کی اطاعت اور خوشنودی خود بخود حاصل ہو جاتی ہے۔ سورہ ال عمران میں اﷲ پاک کا ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ۝

کہہ دو اگر تم اﷲ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو تاکہ تم سے اﷲ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے، اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ ال عمران: 31)

یعنی جب تک رسول کی اطاعت نہ کی اس وقت تک خدا کا محبوب نہیں بنا جا سکتا۔ اسی طرح قرآن میں ایک اور ارشاد ہے:

مَّنْ يُّطِــعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّـٰهَ ۖ وَمَنْ تَوَلّـٰى فَمَآ اَرْسَلْنَاكَ عَلَيْـهِـمْ حَفِيْظًا۝

جس نے رسول کا حکم مانا اس نے اﷲ کا حکم مانا، اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تجھے ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ (سورۃ النساء:80)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی نہ کرنا اعمال کے غارت ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ محمد میں ارشاد ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوٓا اَعْمَالَكُمْ ۝

اے ایمان والو! اﷲ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ (سورۃ محمد:33)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے تمام احکامات بمنزلہ اﷲ کے احکام کے ہیں۔ رسول اﷲ جو بھی فرمائیں اس کو پکڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

مَّآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلٰى رَسُوْلِـهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّـٰـهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِـذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙكَىْ لَا يَكُـوْنَ دُوْلَـةً بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝

جو مال اﷲ نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے مفت دلایا سو وہ اﷲ اور رسول اور قرابت والوں اور یتمیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں میں نہ پھرتا رہے، اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے۔ (سورۃ الحشر: 7)

2) مطالعہ سیرت کی تشریحی اہمیت:

اﷲ تعالی نے ہماری اصلاح اور کامیابی کے لیے نبی اکرم پر قرآن پاک نازل کیا۔ قرآن پاک میں بہت سارے احکامات ایسے ہیں جن کی تشریح ہمیں قرآن سے نہیں ملتی جیسے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم ہے مگر اس کو ادا کرنے کے بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ یہ ہمیں سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے مطالعہ سے ہی نماز کی ادائیگی کا صحیح طریقہ پتہ چل سکتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے۔

اصلی کما رائیتمنی

اسی طرح مناسک حج کی ادائیگی کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:

خذوا عنی مناسککم

3) مطالعہ سیرت کی اخلاقی اہمیت:

ہمیں نہ صرف مسلمان بلکہ بحیثیت انسان معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے جن اصول و ضوابط کی ضرورت ہے وہ ہمارے اخلاق ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اخلاق کاملہ کی اس بلندی پر فائز ہیں کہ اﷲ نے خود ارشاد فرمایا ہے:

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ۝

اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں۔ (سورۃ القلم:4)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی اخلاق عالیہ کی تکمیل ہے آپ کا خود ارشاد مبارکہ ہے:

انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق

بعثت نبوی سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اخلاق حسنہ کی مثال تھے۔ جب حجر اسود کی تنصیب کا مسئلہ در پیش آیا اور قریش لڑائی جھگڑا تک پہنچ گئے اور آخر فیصلہ ہوا کہ مسجد حرام کے دروازے سے جو شخص پہلے داخل ہوا اسے اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں۔ لوگوں نے تجویز منظور کر لی۔ اﷲ کے حکم سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے پہلے تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے

ھذا الامین رضیناہ ھذا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم

ھذا الامین قد رضینا بما قضی بیننا

ھذا الامین قد رضینا بہ

ھذا الامین رضینا ھذا محمد

ھذا الامین قد رضینا بہ فحکموہ


ان سب میں جس چیز کا ذکر ہے وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر طبقے کے انسان کے لیے مکمل اخلاقی نمونہ ہیں۔ اخلاقی تکمیل کے لیے سیرت نبوی کا مطالعہ ضروری ہے۔

4) مطالعہ سیرت کی علمی اہمیت:

اسلام میں علم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نبی اکرم خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ علم ہی کے متعلق تھی۔

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ ۝ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۝ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ ۝ اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۝

اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔ انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔ (سورۃ العلق:1،5)



قرآن پاک میں اور سنت نبوی میں علم کی فضیلت و اہمیت کا بکثرت تذکرہ ملتا ہے۔ اﷲ تعالی نے تمام انبیاء کرام کو معلمین بنا کر ہی تو بھیجا۔ سورۃ بقرہ میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيَاتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُـوْنُـوْا تَعْلَمُوْنَ۝

جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ (سورۃ البقرۃ:151)

اسلام ایک انسان کی تمام زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ اسے اپنی انفرادی اور سماجی زندگی کس طرح گزارنی ہے اس کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ علم کا تمام محور قرآن مجید ہے اور اس کی تفسیر سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔

دنیا کا کوئی اور مذہب علم پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اسلام دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں مذہبی تعلیم صرف ایک خاص طبقہ کے لیے مخصوص تھی۔ عیسائی فکری آزادی پر لوگوں کو سخت سزائیں دیتے۔ ہندو دھرم کی رو سے شودروں کا ویدوں کا اشوک سننا بھی جائز نہیں تھا اس کی سزا یہ تھی کہ ان کے کانوں میں سیسیہ پگھلا کر ڈالا جاتا تھا۔

اسلام دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم پر بھی زور دیتا ہے۔ قرآن پاک کی ہر 6 میں سے ایک آیت ہمیں سائنس اور جدید علوم کی طرف دعوت دیتی ہے۔ اسلام اور دین کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ علم کے بغیر ہم دینی احکام کو نہیں سمجھ سکتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نہ صرف علم کے حصول کے لیے کوشاں رہنے کی بلکہ علم کے حصول کے لیے اﷲ تعالی کے سامنے دعا گو رہنے کی بھی تلقین کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم علم میں اضاف کی اکثر دعا کرتے تھے۔

نبی اکرم خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے قبل انسانیت جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ہی ہمیں انسانیت کا درس دیا اور ہمارے ہادی، معلم اور رہنما بنے۔

5) مطالعہ سیرت کی بین الاقوامی اہمیت:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِـيْهِـمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ ۝

البتہ تمہارے لیے ان میں ایک نیک نمونہ ہے اس کے لیے جو اﷲ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو، اور جو کوئی منہ موڑے تو بے شک اﷲ بھی بے پروا خوبیوں والا ہے۔ (سورۃ الممتحنۃ: 6)

اس آیت کی رو سے نبی اکرم خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا اسوۃ حسنہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔

انسان کی عادت ہے کہ وہ اپنے سامنے کو ئی نہ کوئی رول ماڈل رکھتا ہے تا کہ اپنے تمام کاموں کو احسن طریقے سے انجام دے سکے اور دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکے۔

آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی تمام حیات طیبہ ساری انسانیت کے لیے تا قیامت ایک رول ماڈل ہے۔ معلم، شاگرد، مظلوم، اسیر، فاتح، سیاستدان غرض دنیا کو کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت قابل عمل نہ ہو۔

6) دین اسلام کو آسان کرنے کے لیے سیرت نبوی کی اہمیت:

آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم جو دین لے کر آئے وہ دین ابراہیمی ہے۔ جو کہ بہت آسان دین ہے۔ اس سے پہلے جتنے بھی دین گزرے ہیں وہ انسان کی تمام زندگی کا احاطہ کرنے سے قاصر رہے۔ ان ادیان نے انسان کی مذہبی اور سماجی زندگی کو الگ الگ رکھا اور انہیں اتنا مشکل بنا دیا کہ یہ عام آدمی کی سمجھ سے اوپر چلے گئے۔ نبی اکرم خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نہیں دین تو آسانی کا نام ہے۔ اگر ہم خلاصے کے طور پر دیکھنا چاہیں کہ مذہب اسلام میں کیا ہے تو اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اٰمِنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَالْكِتَابِ الَّـذِىْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِـهٖ وَالْكِتَابِ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَنْ يَّكْـفُرْ بِاللّـٰهِ وَمَلَآئِكَـتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِـهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيْدًا۝

اے ایمان والو! اﷲ اور اس کے رسول پر یقین لاؤ اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور اس کتاب پر جو پہلے نازل کی تھی، اور جو کوئی انکار کرے اﷲ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا تو پس وہ شخص بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (سورۃ النساء:136)

یہ تو دینی پہلو تھا۔ صرف مذہب اسلام ہی کی یہ خوبصورتی ہے کہ وہ انسان کی دینی اور دنیاوی زندگی کی بیک وقت بھلائی چاہتا ہے۔ ایسی مخلوق جس میں اﷲ تعالی کی معصیت کا اختیار نہ ہو تو وہ نہ تو ثواب کا حقدار ہوتا ہے اور نہ ہی عذاب کا۔ ایسی مخلوق جس میں خیرو شر ایک ساتھ موجود ہوں اور وہ اپنی قوت ارادی سے صرف خیر پر عمل کرے تو وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ یہی چیزیں سیرت نبوی کے مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ اور یہی چیزیں ہمیں سیرت پاک کے مطالعے کی دعوت دیتی ہیں۔
 
Top