عہد صدیقی میں فتنہ ارتداد کے خلاف اقدامات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عہد صدیقی میں اسلام دشمن عناصر کو عام طور سے تین طبقوں یا گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1) زکوۃ ادا نہ کرنے والے جن کو ''مانعین زکوۃ'' کہا جاتا ہے۔

2) جھوٹے نبی

3) مرتد افراد اور علاقے

یہ تینوں گروہ الگ تھلگ کام کرنے کے باوجود آخر کار ایک ہو گئے اور ان کا ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ اسلام کے خلاف رہا۔ صرف مرتدین کا ایک گروہ ایسا تھا جو اسلام چھوڑ کر پرانے مذہب پر لوٹ گیا تھا اور اس نے جھوٹے نبیوں کو نہیں مانا تھا۔

مانعین زکوۃ:

اسلامی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بدوی مسلمانوں میں سے کچھ لوگ زکوۃ اور صدقات کو جرمانہ سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ اور کچھ یہ سوچ کر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زکوۃ دینا ضروری نہیں اور اسلامی ریاست اتنی متحد نہیں رہی، ان قبیلوں نے اسلامی ریاست کو زکوۃ و صدقات دینے سے انکار کر دیا۔ ان میں عبس، ذبیان، کنانہ، غطفان اور خاص کر ان کے کچھ خاندان و طبقات نے مدینہ منورہ اپنے نمائندے بھیج کر خلیفہء اسلام سے درخواست کی کہ ان کو زکوۃ کی ادائیگی سے معاف کر دیا جائے۔ باقی اسلامی احکامات پر وہ عمل کرتے رہیں گے۔ مگر حضرت ابو بکر نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کوینکہ اسلام کے ایک رکن کا انکار پورے اسلام کا انکار ہے۔

جب آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو بعض نے عرض کیا وقت بہت نازک ہے جو لوگ صرف زکوۃ ادا کرنے سے ہی انکار کرتے ہیں ان کے ساتھ نرمی کی جائے۔ مگر حضرت ابو بکر نے کہا:

خدا کی قسم! اگر کوئی ایک بکری کا بچہ دینے سے بھی جو رسول اللہ کو دیا جاتا تھا انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔

جوں ہی حضرت اسامہ واپس آئے آپ سے مدینہ میں انہیں اپنا قائم مقام بنا کر عبس اور ذبیان کے قبیلوں کے مقابلہ کے نکل کھڑے ہوئے۔ ان قبائل نے شکست کھائی اور ان کی چراگاہیں مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے وقف کر دی گئیں۔

حضرت ابو بکر کے ان اقدامات نے مانعین زکوۃ کے حوصلے پست کر دئیے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے پھر زکوۃ ادا کر کے پورے اسلام کو مان لیا، ان سے سبق سیکھ کر دوسرے قبیلوں کے مانعین زکوۃ نے بھی توبہ کرلی۔

جھوٹے نبی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی کامیابی کے نتیجے میں جو سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی کامیابی ملی اس سے متاثر ہو کر بعض قبائل کے سرداروں نے سوچا وہ بھی نبوت کا دعوی کر کے اپنے لیے کامیابی حاصل کر لیں مگر ان کے یہ پر فریب دعوی چند دنوں سے زیادہ نہیں چل سکے۔ ایسے چار اشخاص تھے جن میں ایک عورت بھی تھی ان کے نام درج ذیل ہیں۔

اسود عنی: قبیلہ مذحج یمن کے علاقے میں حیات نبوی میں مدعی نبوت ہوا، کچھ قبیلوں نے اس کو اپنا سردار بنا لیا۔

مسیلمہ کذاب: قبیلہ بن حنفیہ، یمامہ کے علاقے میں اپنے قبیلے کے علاوہ بعض قریبی قبیلوں کا نبی بن بیٹھا۔

سجاح بنت الحرث: قبیلہ تمیم و تغلب، یمامہ کے علاقے میں تغلب، ربیعہ، نمر اور شیبان وغیرہ کی نبی بن گئی۔ وہ اصلا عیسائی تھی، بعد میں اس نے مسیلمہ کذاب سے شادی کرے کے دونوں کا اتحاد اسلام کے خلاف بنا لیا۔

طلیحہ اسدی: قبیلہ بنو اسد، بنو فزارہ، بنو طے اور غطفان کے خاندانوں کا نبی بن بیٹھا۔ اس کا علاقہ مدینہ کے شمال میں تھا۔

ارتداد کے خلاف صدیقی اقدامات:

ذوالقصہ کے باغیوں سے نبٹنے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے عام مرتدوں اور جھوٹے نبیوں کے مشترکہ خطرے کو ختم کرنے کے لیے کل اسلامی فوج کو گیارہ دستوں میں تقسیم کیا۔ ہر دستہ کا ایک الگ سردار مقرر کیا اور اسے ایک جھنڈا دیا۔ یہ گیارہ سردار اپنے دستوں کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں روانہ کئے گئے ان گیارہ سرداروں کے نام یہ ہیں۔

اسلامی قائد​
مہم کا مقام​
مرتد اور جھوٹے نبیوں کے قبیلے​
1خالد بن ولید مخزومیبزاخہ اور بطاحطلیحہ اسدی اور اس کے قبیلے
2عکرمہ بن ابی جہل مخزومییمامہمسیلمہ کذاب اور قبیلہ بنو حنیفہ
3شرحبیل بن حسنہ کندییمامہمسیلمہ کذاب اور قبیلہ بنو حنیفہ
4مہاجر بن ابی امیہ خزرجییمن و حضرموتاسود عنسی کے خلاف
5حذیفہ بن محصنعمانلقیط بن مالک ازدی اور مرتدین کے خلاف
6عرفجہ بن ہرثمہمہرہمہرہ کے مرتدین کے خلاف
7سوید بن المقرنیمن کے نشیبی علاقےیمن کے مرتدین کے خلاف
8علا بن الحضرمیبحرینبحرین کے مرتدین کے خلاف
9طریفہ بن حاجز سلمیمدینہ کے شمال اور جنوب میںبنو سلیم اور ہوازن
10عمرو بن عاص سہمیعرب کی شمالی سرحدقضاعہ، ودیعہ بلی وغیرہ کے خلاف
11خالت بن سعید امویحمقتانغسان اور عذرہ کے خلاف
مجاہدین کے ان دستوں کے روانگی سے پہلے حضرت ابو بکر نے مرتدین کے نام ایک عام پیغام بھیجا۔ اس پیغام میں انہیں فتنہ و فساد سے باز آنے اور اسلامی برادری میں دوبارہ داخل ہونے کی دعوت دی اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو اس سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ پھر فوج کے سپہ سالاروں کے نام حسب ذیل ہدایت نامہ جاری کیا:

''میں مجاہدین اسلام کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ہر حال میں خدا سے ڈریں حکم خداوندی کی تعمیل میں پوری کوشش کریں۔ جو لوگ حلقہ ء اسلام سے نکل کر شیطان کے جال میں پھنس گئے ہیں ان کے ساتھ جہاد کریں۔ لیکن تلوار اٹھانے سے پہلے انہیں اسلام کا پیغام پہنچائیں اور ان پر حجت پوری کر دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو فورا ہاتھ روک لیں لیکن اگر انکار کریں تو ان پر حملہ کر دیں یہاں تک کہ کفے سے باز آ جائیں۔ مرتدین جب دوبارہ داخل اسلام ہو جائیں تو اسلامی فوج کا سردار انہیں آگاہ کر دے کہ ان کے ذمہ اسلام کے کیا کیا فرائض ہیں۔ اور مسلمانوں پر ان کے کیا کیا حقوق ہیں۔ ان کے فرائض کو ان سے پورا کرایا جائے اور ان کے حقوق ادا کئے جائیں۔ امیر لشکر اپنے ساتھیوں کو جلد بازی اور فساد سے روکے۔ دشمنوں کی بستی میں اندھا دھند نہ گھس جائے، خوب دیکھ بھال کر داخل ہو، ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے۔ سردار فوج کوچ اور قیام کی حالت میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ میانہ روی اور نرمی کا برتاؤ کرے، ان کی دیکھ بھال رکھے۔ ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے اور گفتگو میں نرمی اختیار کرے''۔

اس کے بعد اسلامی فوج کے دستے اپنے تجربہ کار سرداروں کی رہنمائی میں حریفوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو گئے۔

طلیحہ اسدی کے خلاف مہم:

حضرت خالد بن ولید طلیحہ کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت عدی بن حاتم طائی جو قبیلہ بنی طے کے سرداروں میں شمار ہوتے تھے اس زمانہ میں مقیم تھے۔ انہوں نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے قبیلہ کو سمجھا بجھا کر اس فتنہ سے نکال لوں۔ حضرت ابو بکر نے اجازت دے دی اور حضرت عدی کی کوشش سے ان کے قبیلہ کے تمام آدمی طلیحہ سے علیحدہ ہو گئے اور پھر یہی کوشش انہوں نے قبیلہ جدیلہ میں بھی کی اور یہاں بھی انہیں کامیابی ہوئی۔

اب حضرت خالد اپنی فوج کو لے کے چشمہ بزاخہ پر پہنچے اور طلیحہ کے لشکر سے زبردست مقابلہ ہوا۔ جب طلیحہ کے لشکر میں شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے تو بنو غطفان کا سردار عینیہ بن حصن فزاری جو طلیحہ کا مددگار تھا اس کے پاس آیا طلیحہ اس وقت چادر میں لپٹا اس طرح بیٹھا تھا گویا اس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عینیہ نے پوچھا کہئے جبرائیل کوئی پیغام لائے، طلیحہ بولا ہاں اور پھر ایک مقفی عبارت سنائی جس کا مطلب یہ تھا کہ آخر میں جیت ہماری ہی ہو گی۔ عینیہ نے کہا اے فزارہ یہ شخص کذاب ہے اور پھر اپنے آدمیوں کو لے کر اس کے لشکر سے علیحدہ ہو گیا۔

جب طلیحہ نے دیکھا کہ شکست لازم ہے تو اپنی بیوی کو ساتھ لے کر شام کی طرف بھاگ گیا اور بعد میں کفر سے توبہ کر کے دوبارہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ حضرت عمر کے دور میں یہ مدینہ آیا بعد ازاں طلیحہ نے فتوحات عراق کے موقع پر بہت بہادری دکھائی اور اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔

مالک بن نویرہ کے خلاف مہم:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی تمیم میں پانچ امیر مقرر فرمائے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو ان میں سے بعض مرتد ہو گئے اور بعض اسلام پر قائم رہے۔ مرتد ہونے والوں میں مالک بن نویرہ بھی تھا اس نے زکوۃ روک لی اور قبیلہ کے مسلمانوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ بن تمیم میں بھی خانہ جنگی ہو ہی رہی تھی کہ بنی تغلب کی ایک عورت سجاح ادھر سے گزری۔ یہ عورت پہلے نصرانی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اس پر بھی نبوت کا جنون سوار ہوا اور بنو تغلب اور بنو ہذیل کے عیسائی عرب اس کے ساتھ ہو گئے۔ یہ اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ پرحملہ کے ارادہ سے نکلی تھی راستہ میں جب بنی تیم کی بستیوں پرگزر ہوا تو اس نے مالک بن نویرہ کے پاس پیغام دوستی بھیجا۔ مالک بن نویرہ نے اس پیام کوقبول کرلیا اور اسے مشورہ دیا کہ وہ مدینہ حملہ سے پہلے بن تمیم کے مسلمانوں پرحملہ کرے۔ مسلمان اس کے مقابلہ کی طاقت نہ رکھتے تھے بھاگ گئے۔ سجاح اپنی فوج کو لے کر مدینہ کی طرف بڑھنے لگی جب وہ مقام ''نباج'' میں پہنچی تو وہاں بنی تمیم ہی کی ایک اور جماعت سے اس کا مقابلہ ہوا۔ ان لوگوں نے اس کے کچھ آدمیوں کو قید کرلیا۔ آخر میں اس شرط پر صلح ہوئی کہ سجاح ان کے آدمیوں کو چھوڑ دے اور وہ اس کے آدمیوں کو اور دین کا ارادہ چھوڑ کر واپس چلی جائے۔ چنانچہ سجاح ناکام یمامہ کی طرف لوٹ گئی۔

اس دوران میں بنی تمیم کے مرتدین کو خدا نے ہدایت دی اور انہوں نے دوبارہ اسلام قبول کرلیا۔ مگر مالک بن نویرہ ابھی کوئی فیصلہ نہ کر سکا تھا اس نے اپنے ساتھیوں کو لے کر مقام بطاح میں پڑاؤ ڈال دیا۔ خالد بن ولید جب طلیحہ کے مقابلہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے مالک بن نویرہ کے مقابلے کا ارادہ کیا۔ مالک بن نویرہ نے اپنے ساتھیوں کو منتشر کر دیا۔ خالد بن ولید نے اپنے ساتھیوں کو بھیج کر مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ آپ نے مالک بن نویرہ کےقتل کا حکم دیا اور اس کی بیوی سے شادی کر لی۔

بعض مسلمانوں نے حضرت عمر سے کہا کہ مالک بن نویرہ نے گرفتاری سے پہلے اپنی بستی میں اذان دلوا دی تھی اس لیے خالد بن ولید نے اسے قتل کرا کر زیادتی کی ہے۔ خالد بن ولید سے مالک بن نویرہ کا قصاص لینا چاہئے۔ خالد بن ولید نے جواب دیا کہ مالک بن نویرہ نے قتل کے خوف سے اذان دلوائی تھی۔

حضرت ابو بکر نے فیصلہ کیا کہ خالد سے چونکہ واقعہ کی تاویل میں غلطی ہوئی ہے اس لیے ان سے قصاص نہیں لیا جاتا اور مالک بن نویرہ کا خون بہا اپنی طرف سے ادا کر دیا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ الله کی تلوار کو جسے اس نے کافروں پر چمکایا ہے میں روپوش کرنے والا کون ہوں۔

مسیلمہ کذاب کے خلاف مہم:

بنی تمیم سے مقابلہ کرنے کے بعد حضرت ابو بکر نے خالد بن ولید کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔

مسیلمہ کو جب حضرت خالد کے پہنچنے کی خبر ملی تو وہ اپنی عظیم الشان فوج کو جو چالیس ہزار جوانوں پرمشتمل تھی لے کر مقابلہ کے لیے نکلا۔ دونوں فوجوں میں سخت ہولناک لڑائی ہوئی۔ شروع میں مسلمانوں پر شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اور مسیلمہ کے آدمی خالد بن ولید کے خیمہ تک پہنچ گئے تھے لیکن حضرت خالد نے سنبھل کر حملہ کیا اور دور تک مسیلمہ کے آدمیوں کو دھکیلتے چلے گئے۔ حضرت خالد نے خود مسیلمہ کو مبارزت کے لیے للکارا۔ وہ آیا مگر مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگا۔ اس کی فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی اور بری طرح شکست کھائی۔ مسیلمہ اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر اپنے ایک باغ میں جس کا نام اس نے "حديقة الرحمن'' رکھا تھا چھپ گیا اور باغ کے دروازے بند کرا دیئے۔ ایک بہادر انصاری حضرت براء بن مالک نے کہا مجھے باغ کے اندر پھینک دو چنانچہ انہیں پھینک دیا گیا اور انہوں نے تن تنہا مسیلمہ کے پہرہ دار کو قتل کر کے دروازہ کھول دیا۔ اب مسلمان اندر گھس گئے اور مسیلمہ کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ خومسیلمہ بھی خدا کی تلوار سے نہ بچ سکا۔ مسیلمہ کے قتل کرنے والوں میں حضرت حمزه کے قاتل وحشی بھی شریک تھے۔ گویا اس طرح انہوں نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا۔

مسلیمہ کے قتل کے بعد اس کی قوم ''بنی حنیفہ'' نے مسلمانوں سے نرم شرائط پر صلح کرلی۔ صلح کی تکمیل ہو چکی تھی کہ حضرت ابو بکر کا حکم پہنچا کے بنی حنیفہ کے تمام سپاہی قتل کر دیے جائیں مگر حضرت خالد چونکہ ان سے عہد نامے کر چکے تھے لہذا اسی پر قائم رہے۔ پھر بعد میں بنی حنیفہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔

اسود عنسی کے خلاف مہم:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر یمن پہنچی تو قیس بن عبد یغوث مرتد ہو گیا اور اس نے اسود کے منتشر ساتھیوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع ہونے کی دعوت دی۔ یہ لوگ اس کے ساتھ ہو گئے اور ان کی مدد سے قیس نے صنعاء پر قبضہ کر لیا اور ''ابناء'' کے بال بچوں کو پکڑ کر انہیں جزیروں میں قید کر دیا۔ ابناء کے سردار فیروز کو جب یہ کیفیت معلوم ہوئی تو اس نے بنی عقیل اور بنو عک سے مدد طلب کی۔ ان قبیلوں نے مدد دی اور ابناء کے بچوں کو قیس کے آدمیوں کے پنجہ سے نکال لیا اور پھر فیروز کے ساتھ مل کر قیس کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے۔ اسی دوران میں مہاجر بن امیہ جنہیں حضرت ابو بکر نے اسود کے آدمیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا تھا اور عکرمہ بن ابی جہل جو عمان اور مہرہ کی مہم سے فارغ ہو گئے تھے اپنی اپنی فوجوں کو لے کر ابناء کی مدد کو آ پہنچے۔

اسلامی فوجوں نے صنعاء پر قبضہ کر لیا اور قیس اور عمرو بن معدی کرب زبیدی کو گرفتار کر کے مدینہ روانہ کر دیا۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے اپنے کرتوتوں پر ندامت ظاہر کی اور دوبارہ مسلمان ہوگئے حضرت ابو بکر نے بھی ان کی خطا معاف کر دی اور انہیں آزاد کر دیا۔

فتنہ بحرین اور اس کا انسداد:

بحرین میں ربیعہ کے بہت سے قبائل عبدالقیس اور بوبکر بن وائل وغیرہ آباد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اہل بحرین کا بھی ایک وفد حاضر ہوا تھا اور یہ اسلام لے آئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منذر بن ساوی کوان کامل مقررفرمایا تھا۔

جونہی حضورکی وفات ہوئی منذر بن ساوی کا بھی انتقال ہوگیا اور اہل بحرین مرتد ہو گئے۔ بوبکرتو ارتداد پر اڑے رہے مگرعبدالقیس اپنے سردار حضرت جارود بن معلی کی بدولت اس فتنہ سے نکل آئے۔ عبد القیس کے اس طرح دوبارہ مسلمان ہونے کی خبر بنو بکر کے سردارحطم بن صنبیعہ کوپہنچی تو وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کے مقابلہ کے لیے نکلا اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ حطم بن صنبیعہ کے ساتھ اور بھی بہت سے کفار اور مرتدین لگ لئے تھے۔ حضرت ابو بکر نے علاء بن حضرمی کو حطم کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ راستہ میں ثمامہ بن اثال اور قیس بن عاصم بھی بنی حنیفہ اور بنی تمیم کے آدمیوں کو لے کر ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ حطم کے ساتھیوں میں سے کچھ جزیرہ دارین میں جا چھپے۔ مسلمان سمندر میں گھس کر وہیں پہنچے اور انہیں قتل کیا، ان کے علاوہ عمان کے بعض قبائل اور قبیلہ کندہ کے لوگ بھی مردت ہو گئے تھے۔ حضرت ابو بکر کے بھیجے ہوئے سپہ سالاروں کی ان سے بھی لڑائياں ہوئی اور ہر جگہ مسلمان ہی فتح یاب ہوئے۔

فتنہ ارتداد کا خاتمہ:

یہ فتنہ ارتداد اور اس کے انسداد کی مختص روداد ہے۔ ان واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوتے ہی عرب میں ارتداد کی جو لہر اٹھی تھی اسے حضرت ابو بکر نے عزم راسخ سے دبا دیا۔ حضرت ابو بکر کے دور خلافت کے اس ابتدائی دور میں مسلمان چاروں طرف سے دشمنوں سے گھر گئے تھے۔ مگر حضرت ابو بکر کی ایمانی قوت نے دشمنوں کی طاقت کی پرواہ نہ کی اور ان کے سامنے فولادی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ اور اللہ تعالی نے آپ کو فتح اور نصرت عطا فرمائی۔
 
Top