عہد فاروقی کی فتوحات

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عہد فاروقی کی فتوحات:

حضرت ابو بکر صدیق نے تریسٹھ برس کی عمر میں اواخر جمادی الثانی دو شنبہ کے روز وفات پائی اور حضرت عمر مسند آرائے خلافت ہوئے۔ خلیفہ سابق کے عہد میں مدعیان نبوت، مرتدین عرب اور منکرین زکوۃ کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا، یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ اس طرح 13 ہجری میں شام پر حملہ ہوا اور اسلامی فاجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت کا انتقال ہوا اور خلافت حضرت عمر کے ہاتھ میں آ گئی تو ان کا سب سے اہم فرض انہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔

مہم عراق:

حضرت عمر نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو سب سے پہلے مہم عراق کی طرف متوجہ ہوئے۔ بیعت خلافت کے لیے اطراف و دیار سے بے شمار آدمی آئے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا۔ حضرت عمر نے کئی دن تک وعظ کہا لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن ایسی پر جوش تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے۔ آپ نے کہا:

''مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیں ہیں ہم نے عراق کے بڑے بڑے اضلاع فتح کر لیے ہیں اور عجمی اب ہمارا لوہامان گئے ہیں''۔​

اس طرح قبیلہ ثقیف کے سردار ابو عبید ثقفی نے جوش میں آ کر کہا۔ انا لھذا یعنی میں اس کے لیے میں ہوں۔ ابو عبید کی بیعت نے تمام حاضرین کو گرما دیا اور ہر طرف غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر نے مدینہ اور اس کے مضافات سے ایک ہزار اور دوسری روایت کے مطابق پانچ ہزار آدمی منتخب کیے اور ابو عبید کو سپہ سالار مقرر کر کے روانہ کیا۔

حضرت ابو بکر کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایرانیوں کو بیدار کر دیا تھا، چنانچہ پوران دخت نے جو صغیر السن یزد گرد شاہ ایران کی نائب تھی فرخ زاد گورنر خراسان کے بیٹے رستم کو جو نہایت شجاع اور مدبر تھا دربار میں طلب کر کے وزیر جنگ بنایا اور تمام اہل فارس کو اتحاد و اتفاق پر آمادہ کیا، نیز مذہبی حمیت کا جوش دلا کر نئی روح پیدا کردی۔ اس طرح دولت کیانی نے پھر وہی قوت پیدا کر لی جو ہرمزو پرویز کے زمانہ میں اس کو حاصل تھی۔

رستم نے ابو عبید کے پہنچنے سے پہلے ہی اضلاع فرت میں غدر کرا دیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے وہ ان کے قبضہ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے ایک اور زبردست فوج رستم کی اعانت کے لیے تیار کی اور نرسی و جابان کو سپہ سالار مقرر کیا، یہ دونوں راستوں سے روانہ ہوئے۔ جابان کی فوج تمارق پہنچ کر ابو عبید کی فوج سے برسر پیکار ہوئی اور بری طرح شکست کھا کر بھاگی۔ ایرانی فوج کے مشہور افسر جوشن شاہ اور مردان شاہ مارے گئے۔ جابان گرفتار ہوا مگر حیلے سے بچ گیا۔

ابو عبید سے جابان کو شکست دینے کے بعد سقاطیہ میں نرسی کی فوج گراں سے مقابلہ کیا اور شکست دی اور اس کا اثر یہ ہوا کہ قرب و جوار کے تمام رؤسا خود بخود مطیع ہو گئے، نرسی و جابان کی ہزیمیت سن کر رستم نے مردان شاہ کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبید کے مقابلہ میں روانہ کیا، ابو عبید نے باوجود افسران فوج کے شدید اختلاف کے فرات سے پار اتر کر نبرد آزمائی کی۔ چونکہ پار کا میدان تنگ اور ہموار تھا۔ نیز عربی دلاوروں کے لیے ایران کے کوہ پیکر ہاتھیوں سے یہ پہلا مقابلہ تھا اس لے مسلمانوں کو سخت ہزیمت ہوئی اور نو ہزار فاج میں سے صرف تین ہزار باقی بچے۔

حضرت عمر کو اس شکست نے نہایت برا فروختہ کیا انہوں نے اپنے پر جوش خطبوں سے تمام قبائل عرب میں آگ لگا دی۔ عام جوش کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ نمر و تغلب کے سرداروں نے جو مذہبا عیسائی تھے اپنے قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ شرکت کی اور کہا کہ آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے۔ اس قوی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں۔ غرض حضرت عمر نے ایک فوج گراں کے ساتھ حضرت جریر بجلی کو میدان رزم ک طرف روانہ کیا۔ یہاں مثنی نے عجمی سرحد کے عربی قبائل کو جوش دلا کر ایک زبردست فوج تیار کر لی۔

پوران دخت ان تیاریوں کا حال سن کر فوج خاص میں سے بارہ ہزار جنگ آزما بہادر منتخب کر کے مہران ابن مہرویہ کے ساتھ مجاہدین کے مقابلہ کے لیے روانہ کیے حیرہ کے قریب دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ ایک شدید جنگ کے بعد عجمیوں میں بھاگڑ پڑ گئی مہران بنی تغلب کے ایک نوجوان کے ہاتھ سے مارا گیا، مثنی نے پل کا راستہ روک دیا اور اس قدر آدمیوں کو تہ تیغ کیا کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اس فتح کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقوں میں پھیل گئے۔

پایہ تخۃ ایران میں یہ خبریں پہنچیں تو ایرانی قوم میں ایک زبردست انقلاب کا خیال پیدا ہو گیا۔ پوران دخت معزول کی گئی، یزد گرد جو سولہ سال کا نوجوان اور خاندان کیانی کا تنہا وارث تھا تخت سلطنت پر بٹھا دیا گیا۔ اعیان و اکابر ملک نے بالم متفق اور متحد ہو کر کام کرنے کا ارادہ کیا۔ تمام قلعے اور فوجی چھاؤنیاں مستحکم کر دی گئیں۔ اسی کے ساتھ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات میں بغاوت پھیلائی جائے، ان انتظامات سے سلطنت ایران میں نئی جان پیدا ہوگئی وار تمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔

مثنی مجبور ہو کر عرب کی سرحد میں ہٹ آئے اور ربیعہ و مضر کے قبائل کو جو اطراف عراق میں پھیلے ہوئے تھے ایک تاریخ معین تک علم اسلامی کے نیچے جمع ہونے کے لیے طلب کیا۔ نیز دربار خلافت کو اہل فارس کی تیاریوں سے مفصل طور پر مطلع کیا۔

حضرت عمر نے ایرانیوں کی تیاری کا حال سن کر حضرت سعد بن وقاص کو بیس ہزار مجاہدین کے ساتھ مہم عراق کی تکمیل پر مامور کیا۔ حضرت سعد بن وقاص نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مقام ذی قار میں اس عظیم الشان کمک کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن اسی اثنا میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس لیے ان کے بھائی شراف آکر سعد بن وقاص سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے ان سے بیان کیے۔

حضرت عمر نے سعد بن وقاص کو خاص طور پر ہدایت کر دی تھی کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے مفصل حالات لکھ کر آئیں۔ سعد بن وقاص نے اس مقام کا نقشہ، لشکر کا پھیلاؤ، فروگاہ کی حالت اور رسد کی کیفیت سے ان کو اطلاع دی۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے ایک مفصل فرمان آیا جس میں فوج کی نقل و حرکت، حملہ کا بندوبست، لشکر کی ترتیب اور فوج کی تقسیم کے متعلق مفصل ہدایتیں درج تھیں۔ اسی کے ساتھ حکم دیا گيا کہ شراف سے بڑ ھ کر قادسیہ کو میدان کارزار قرار دیں۔ اور اس طرح مورچے جمائیں کہ فارس کی زمین سامنے ہو اور عرب کا پہاڑ محافظت کا کام دے۔ سعد بن وقاص نے دربار خلافت کی ہدایت کے مطابق شرف سے بڑ ھ کر قادسیہ میں اپنا مورچہ جمایا اور نعمان بن مقرن کے ساتھ چودہ نامور اشخاص کو منتخب کر کے دربار ایران میں سفیر بنا کر بھیجا کہ شاہ ایران اور اس کے رفقا کو اسلام کی ترغیب دیں لیکن جو لوگ دولت و حکومت کے نشہ میں مخمورتھے وہ خانہ بدوش عرب اور ان کے مذہب کو کب خاطر میں لاتے تھے۔ سفارت گئی اور ناکام واپس آئی۔

اس واقعہ کے بعد کئی ماہ تک دونوں طرف سے سکوت رہا۔ رستم ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ ساباط میں پڑا تھا اور یزد گرد کی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چرا رہا تھا، مجبور ہو کر رستم کو مقابلہ کے لیے بڑھنا پڑا اور ایرانی فوجیں ساباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ زن ہوئیں۔

رستم قادسیہ پہنچ کر بھی جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔ اور اس نے مدتوں سفراء کی آمد و رفت اور نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رکھا لیکن مسلمانوں کا آخری اور قطعی جواب یہ ہوتا تھا کہ اگر اسلام یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہو گا۔ رستم جب مصالحت کی تمام تدبیروں سے مایوس ہو گيا تو سخت برہم ہوا اور اس نے قسم کھا کر کہا کہ اب تمام عرب کو ویران کر دوں گا۔

جنگ قادسیہ:

رستم نے فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور خود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا، صبح کے وقت کا قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں کی کثرت سے جنگل کا سماں پیش کر رہا تھا۔ جس کے پیچھے ہاتھیوں کے کالے پہاڑ عجیب خوفناک منظر پیدا کررہے تھے۔ دوسری طرف مجاہدین اسلام کا لشکر جرار صف بستہ کھڑا تھا، اللہ اکبر کے نعروں میں جنگ شروع ہوئی، دن بھر ہنگامہ برپا رہا شام کو جب بالکل تاریکی چھا گئی تو دونوں حریف اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔

قادسیہ میں دوسرے دن کی جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے شام کی چھ ہزار فوج عین معرکہ کے وقت پہنچی۔ حضرت عمر کے قاصد بھی جن کے ساتھ بیش قیمت تحائف تھے عین جنگ کے وقت پہنچے اور پکار کر کہا امیر المومنین نے یہ انعام ان لوگوں کے لیے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں اس نے مسلمانوں کے جوش و خروش کو اوربھی بھڑکا دیا تمام دن جنگ ہوتی رہی مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول و مجروح ہوئے لیکن فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔

تیسرا معر کہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے، اس میں مسلمانوں نے سب سے پہلے کوہ پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ ایرانیوں کے مقابلہ میں مجاہدین اسلام کو ہمیشہ اس کالی آندھی سے زیادہ نقصان پہنچتا تھا، اگرچہ قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا جواب ایجاد کرلیا تھا تا ہم یہ کالے دیوجس طرف جھک پڑتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی، آخر کار مسلمانوں نے ہاتھیوں کی سونڈوں کو بے کار کر دیا جس سے وہ بھاگ گئے۔

اب بہادروں کوحوصلہ آزمائی کا موقع ملا، دن بھر میدان کارزار گرم رہا، رات کے وقت بھی اس کا سلسلہ جاری رہا، اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل جاتی تھی، اسی مناسبت سے اس رات کولیلة الہریر کہتے ہیں، رستم پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا، لیکن جب زخموں سے چور چور ہو گیا تو بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے۔ ہلال نامی ایک سپاہی نے تعاقب کیا اور ٹانگیں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ لایا، پھر تلوار سے کام تمام کر دیا رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، مسلمانوں نے دور تک تعاقب کر کے ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔

قادسیہ کے معرکوں نے خاندان کسری کی قسمت کا آخری فیصلہ کر دیا مسلمانوں نے قادسیہ سے بڑ ھ کر آسانی کے ساتھ بابل، کوثی، بہرہ شیر اور خود نوشیروانی دارالحکومت مدائن پر قبضہ کر لیا، ایرانیوں نے مدائن سے نکل کر جلولاء کو اپنا فوجی مرکز قرار دیا اور رستم کے بھائی حرزاد نے اپنے حسن تدبیر سے ایک بڑی زبردست فوج جمع کر لی، سعد نے ہاشم بن عتبہ کوجلولاء کی تسخیر پر مامور کیا جلولاء چونکہ نہایت مستحکم مقام تھا، اس لیے مہینوں کے محاصرے کے بعد فتح ہوا۔

تسخیر عراق کے بعد حضرت عمر کی دلی خواہش تھی کہ جنگ کا سلسلہ منقطع ہو جائے چنانچہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش ہمارے اور فارس کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے نہ ہم ان پر چڑ ھ کر جا سکتے، لیکن ایرانیوں کو عراق سے نکل جانے کے بعد کسی طرح چین نہیں آتا تھا، چنانچہ یزدگرد نے معرکہ جلولاء کے بعد مرو میں اقامت اختیار کر کے نئے سرے سے حکومت کے ٹاٹھ لگائے اور تمام ملک میں فرامین ونقیب بھیج کر لوگوں کو عربوں کی مقاومت پر آمادہ کیا۔

حضرت عمر نے نعمان بن مقرن کو تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس ایرانی طوفان کو آگے بڑ ھ کر روکنے کا حکم دیا، نہاوند کے قریب دونوں فوجیں برسر پیکار ہوئیں اور اس زور کا رن پڑا کہ قادسیه کہ بعد ایسی خونریز جنگ کوئی نہیں ہوئی تھی، یہاں تک کہ اس جنگ میں خود اسلامی سپہ سالار نعمان شھید ہو گئے، ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے علم ہاتھ میں لے کر بدستور جنگ کو جاری رکھا، رات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا۔ اس لڑائی میں تقریبا تیس ہزار بھی قتل ہوئے، نتائج کے لحاظ سے مسلمانوں نے اس کا نام فتح الفتوح رکھا۔

فتوحات شام:

ممالک شام میں سے اجنادین، بصری اور دوسرے چھوٹے چھوٹے مقامات عہد صدیقی میں فتح ہو چکے تھے۔ حضرت عمر مسند آرائے خلافت ہوئے تو دمشق محاصرہ کی حالت میں تھا، حضرت خالد سیف اللہ نے رجب 14 ہجری میں اپنے خاص حسن تدبیر سے اس کو مسخرکیا۔

رومی دمشق کی شکست سے سخت برہم ہوئے اور ہر طرف سے فوجیں جمع کر کے مقام جیان میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑاؤ ڈالا۔ عیسائیوں کی درخواست پر معاذ بن جبل سفیر بن کر گئے، لیکن مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلی، آخرکار ذوقعدہ 14 ہجری میں قتل کے میدان میں نہایت خوفناک معرکے پیش آئے خصوصا آخری معرکہ نہایت سخت تھا لیکن میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔

دمشق اور اردن مفتوح ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے حمص کارخ کیا، راہ میں بعلبک حماة، شیرز اور معرة النعمان فتح کرتے ہوئے حمص پہنچے اور اس کا محاصرہ کر لیا حمص والوں نے ایک مدت تک مدافعت کرنے کے بعد مصالحت کر لی، ابو عبیدہ سپہ سالار اعظم نے عبادہ بن صامت کو وہاں متعین کر کے لاذقیہ کا رخ کیا اور ایک خاص تدبیر سے اس کے حکم قلعوں پر قبضہ کرلیا۔

حمص کی فتح کے بعد اسلامی فوجوں نے خاص ہرقل کے پایتخت انطاکیہ کا رخ کیا لیکن بارگاہ خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے، اس لیے فوجیں واپس آ گئیں۔

میدان یرموک:

دمشق، حمص، اور لاذقیہ کی پیہم اور متواتر ہزیمتوں نے قیصر کو سخت برہم کیا اور وہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی شہنشاہی کا پورا زور صرف کرنے پر آمادہ ہوا، چنانچہ اس کی کوشش سے انطاکیہ میں فوجوں کا ایک طوفان امنڈ آیا۔

حضرت ابوعبیدہ نے اس طوفان کوروکنے کے لیے افسروں سے مشورہ لے کر تمام ممالک مفتوحہ کو خالی کر کے دمشق میں اپنی قوت مجتمع کی اور ذمیوں سے جو کچھ جزیہ وصول کیا گیا تھا سب واپس کر دیا گیا کیونکہ اب مسلمان ان کی حفاظت سے مجبور تھے، اس واقعہ کا عیسائیوں اور یہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے تھے کہ خدا تم کوجلد واپس لائے۔

حضرت عمر کو مسلمانوں کے مفتوحہ مقامات سے ہٹ کر چلے آنے کی خبر ملی تو پہلے بہت رنجیدہ ہوئے لیکن جب معلوم ہوا کہ تمام افسروں کی یہی رائے تھی تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا کی اس میں مصلحت ہوگی، سعید بن عامر کو ایک ہزار کی جمیعت کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا۔ اردن کے حدود میں یرموک کا میدان ضروریات جنگ کے لحاظ سے نہایت با موقع تھا، اس لیے اس عظیم الشان کارزار کے لیے اسی میدان کا انتخاب کیا گیا۔ رومیوں کی تعداد دو لاکھ تھی اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزارتھی لیکن سب کے سب یگانہ روزگار تھے، اس فوج کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تقریبا ایک ہزار بزرگ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا اور سو وہ تھے جوغزوہ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہ چکے تھے، اسی طرح دوسرے مجاہدین بھی ایسے قبائل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنی شجاعت اور سپہ گری میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔

یرموک کا پہلا معرکہ بے نتیجہ رہا، پانچویں رجب 15 ہجری کو دوسرا معرکہ پیش آیا، رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کے تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لی تھیں کہ بھاگنے کا خیال تک نہ آئے، ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے آگے تھے اور حضرت عیسی کا نام لے کو جوش دلاتے تھے، غرض رومیوں نے بڑے جوش سے حملہ کا، لیکن انجام کار مسلمانوں ک ثابت قدمی اور پامردی کے آگے ان کے پاؤں اکھڑ گئے، تقریبا ایک لاکھ عیسائی قتل ہوئے مسلمانوں کی طرف تین ہزار کا نقصان ہوا، قیصر کو اس ہزیمیت کی خبر ملی تو حسرت و افسوس کے ساتھ شام کو الوداع کہہ کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گيا۔ حضرت عمر نے مثردہ فتح سنا تو اسی وقت سجدہ میں گر کر خدا کا شکر ادا کیا۔

فتح یرموک کے بعد اسلامی فوجیں تمام اطراف ملک میں پھیل گئیں اور چھوٹے چھوٹے مقامات نہایت آسانی کے ساتھ فتح ہوگئے۔

بیت المقدس:

فلسطین کی مہم پر حضرت عمرو بن العاص مامور ہوئے تھے انھوں نے نابلس، لد، عمواس، بیت جرین وغیرہ جیسے بڑے شہروں پر قبضہ کر کے ان میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا، اس اثناء میں حضرت ابوعبیدہ بھی اپنے مہمات سے فارغ ہو کر شریک ہوگئے، عیسائیوں نے کچھ دنوں کی مدافعت کے بعد مصالحت پر آمادگی ظاہر کی اور مزید اطمینان کے لیے خواہش ظاہر کی کہ خود امیر المومنین یہاں آئیں اور اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں لیکن حضرت عمر کوخبر دی گئی تو انھوں نے اکابر صحابہ سے مشورہ کر کے حضرت علی کونائب مقرر کیا اور رجب 16 ہجری میں مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ حضرت عمر نہایت سادگی کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو کر جابیہ پہنچے، یہاں افسروں نے استقبال کیا اور دیر تک قیام کر کے بیت المقدس کا معاہدہ سے ترتیب دیا، پھر وہاں سے روانہ ہو کر بیت المقدس میں داخل ہوئے، پہلے مسجد تشریف لے گئے، پھر عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی۔ نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجا میں نماز پڑھنے کی اجازت دی لیکن حضرت عمر نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قرار دے کر مسیحی معبد میں دست اندازی نہ کریں باہر نکل کر نماز پڑھی۔ بیت المقدس سے واپسی کے وقت حضرت عمر نے تمام ملک کا دورہ کیا، سرحدوں کا معائنہ کر کے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اور بخیر و خوبی مدینہ تشریف لائے۔

فتوحات مصر:

حضرت عمرو بن العاص نے اصرار کے ساتھ حضرت عمر سے اجازت لے کر چار ہزارفوج کے ساتھ مصر پر حملہ کیا، اور فرما، بلبیس،ام دنین وغیرہ کو فتح کرتے ہوئے فسطاط کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور حضرت عمر کوامدادی فوج کے لیے لکھا، انھوں نے دس ہزار فوج اور چارافسر بھیجے، جن کے نام زبیر بن العوام، عبادہ بن صامت، مقداد بن عمر، مسلمہ بن مخلد تھے۔ حضرت عمرو بن عاص نے حضرت زبیر کو ان کے رتبہ کے لحاظ سے افسر بنایا، سات مہینے کے بعد حضرت زبیر کی غیر معمولی شجاعت سے قلعه فتح ہوا، وہاں سے فوجیں اسکندریہ کی طرف بڑھیں، مقام کربون میں ایک سخت جنگ ہوئی۔ یہاں بھی عیسائیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اسکندریہ پہنچ کر کے دم لیا اور ایک عرصہ کے محاصرہ کے بعد اس کو بھی فتح کر لیا۔ فتح اسکندریہ کے بعد تمام مصر پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اور بہت سے قبطی برضا و رغبت حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
 
Top