عربی گرائمر: منصوبات کا بیان

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
وہ اسم جس میں نصب کی علامت پائی جائے۔

یہ کل بارہ ہیں:

  • مفعول بہ
  • مفعول مطلق
  • مفعول لہ
  • مفعول فیہ
  • مفعول معہ
  • حال
  • تمییز
  • مستثنی
  • افعال ناقصہ کی خبر
  • ماولا المشبھتان بلیس کی خبر
  • حروف مشبہ بالفعل کااسم
  • لائے نفی جنس کا اسم ۔
مفاعیل:

مفعول کی جمع ہے۔ مفعول وہ ہوتا ہے جس پر فعل واقع ہوتا ہے۔ اس کی پانچ اقسام ہیں جنہیں مفاعیل خمسہ کہتے ہیں۔

  • مفعول بہ
  • مفعول مطلق
  • مفعول لہ
  • مفعول فیہ
  • مفعول معہ
1) مفعول بہ:

اس اسم کو کہتے ہیں جس پر فاعل کا فعل واقع ہو جیسے ضربتُ زیدًا میں زید مفعول بہ ہے۔

مفعول بہ کی چند صورتیں:

مفعول بہ عام ہے کبھی اسم ظاہر، کبھی ضمیر، کبھی متصل، کبھی منفصل، کبھی مذکر، مؤنث اور تثنیہ وجمع، کبھی مصدر مؤول، تو کبھی جملہ بھی ہوتا ہے جیسے قالَ اِنّی عَبدُاللہِ میں پورا جملہ مفعول بہ ہے۔

جب مفعول بہ ضمیر متصل اور فاعل غیر متصل ہو تو مفعول بہ کا فاعل پر مقدم ہونا واجب ہوتا ہے۔ جیسے ما اَکرَمَنِی اِلَّا زیدٌ۔

اس کے فعل کا حذف جائز ہے لیکن چند مقامات پر حذف واجب ہوتا ہے:

1) تحذیر جیسے الاَسدَ الاَسدَ دراصل اِحذَرِ الاَسدَ

2) منادیٰ جیسے یا عَبدَاللہِ ای ادعو عبدَاللہ

3) ما اُضمِرَعامِلُہٗ علی شریطَۃِ التَّفسِیرِ جیسے زیدًا ضَربتُہٗ۔

اس سے فعل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا جیسے یُکرِمُ زیدٌاُمَّہٗ وَ اَبَاہُ وَاَخَوَیہِ وَعَمَّاتِہٖ وَالاَ قرَبِینَ۔

2) مفعول مطلق:

اس مصدر کوکہتے ہیں جو اپنے فعل کے بعد آئے۔ اور اس کے پہچاننے کیلئے چار شرائط ہیں:

1) اسم ہو

2) مصدر ہو

3) فعل یا شبہ فعل کے بعد ہو

4) وہ مصدر اس فعل کے ہم معنیٰ ہو

عام ہے کہ دونوں کا باب اور مادہ بھی ایک ہو جیسے ضَرَبتُ ضربًا، مارامیں نے مارنا اور ضاربٌ ضربًا اس کو مفعول مطلق من لفظہ کہتے ہیں۔

یا دونوں کا باب ایک ہو اور مادہ جدا ہو جیسے قَعَدتُّ جُلوسًا، بیٹھا میں بیٹھنا

یا دونوں کا مادہ ایک ہو اور باب جدا ہوں جیسے اَنبَتَہُ اللہُ نَبَاتًا اگایا اس کو اللہ نے اگانا۔ آخری دو قسموں کو مفعول مطلق من غیر لفظہ کہتے ہیں۔

مفعول مطلق من غیر لفظہ:

اس مفعو ل مطلق کو کہتے ہیں کہ فعل اور اس مصدر کا معنی ایک ہو لیکن ظاہر میں الفاظ دوسرے ہوں۔ اور مفعول مطلق من لفظہ اس کو کہتے ہیں کہ فعل اور مصدر کے الفاظ بھی ایک جیسے ہوں جیسے ضَرَبتُ ضَربًا۔

مفعول مطلق اور مصدر میں فرق:


مصدر میں حدثی معنی کے ساتھ ساتھ اس سے فعل کا نکلنا شرط ہے جیسے الضّرب لیکن مفعول مطلق ایسا مصدر ہوتا ہے جس سے فعل کا نکلناشرط نہیں ہے یعنی ہر مصدر مفعول مطلق ہو سکتا ہے۔لیکن ہر مفعول مطلق مصدر نہیں ہو سکتا جیسے ویحۃً، ویلۃً یہ مفعول مطلق ہیں۔ مصدر نہیں ہیں کیونکہ ان سے کوئی فعل نہیں آتا۔

مفعول مطلق کی قسمیں:

مفعول مطلق کی تین قسمیں ہیں:

1) مفعول مطلق تاکیدی: اس مفعول کو کہتے ہیں کہ اس کا اور اس کے فعل کا مدلول (معنیٰ) ایک ہو جیسے ضربتُ ضربًا۔ میں نے اس کو بہت مارا۔

2) مفعول مطلق نوعی: اس مفعول کو کہتے ہیں جس کا مدلول فعل کے انواع میں سے کوئی نوع ہو جیسے ضربتُ ضربَ الاَمِیرِ۔ جلستُ جِلسۃَ القارِی بیٹھا میں قاری کے بیٹھنے کے طرح۔

3) مفعول مطلق عددی: اس مفعول کو کہتے ہیں جس کا مدلول عدد ہو جیسے ضربتُ ضربتَینِ۔ جلستُ جلستَینِ میں دو دفعہ بیٹھا۔ جلستُ جلسۃً میں بیٹھا ایک مرتبہ بیٹھنا۔

وہ کلمات جو مفعول مطلق بن کر استعمال ہوتے ہیں:

وہ کلمات جو مفعول مطلق بن کر استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کچھ کلمات یہ ہیں، جیسے سبحانَ اللہِ، معاذَ اللہِ، لَبَّیکَ وَ سَعدَیکَ، ان کلمات سے پہلے یہ فعل محذوف ہوتے ہیں اُسَبِّحُ۔ اَعُوذُ بِاللہِ۔ اُلَبِّیکَ تَلبِیَۃً بَعدَ تَلبِیَۃٍ۔ اُسعِدُکَ سَعَادۃً بعدَ سَعَادۃٍ۔

3) مفعول لہ:

اس اسم کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے فعل واقع ہو۔

اور اس کے لئے چار شرائط ہیں:

1) اسم ہو

2) مصدر ہو

3) فعل یا شبہ فعل کے بعد ہو

4) وہ اسم فعل مذکور کے لیے سبب ہو جیسے قمتُ اِکرامًا لِّزیدٍ میں زیدکی تعظیم اور اکرام کے لیے اٹھا۔ ضربتُہٗ تادیبًا میں نے اس کو مارا ادب سکھانے کیلئے۔

مفعول لہ کی اقسام باعتبار معنیٰ:

مفعول لہ کی اقسام باعتبار معنیٰ دو اقسام ہیں:

1) عدمی: عدمی وہ ہے جس کے تحصیل کے خاطر فعل کیا جاتا ہو جیسے ضربتُ زیدً اتادیبًا۔

2) وجودی: وجودی وہ ہے جس کی وجہ سے فعل خود بخود ہو جاتا ہو۔

مفعول لہ عدمی اور وجودی میں فرق:

مفعول لہ عدمی اور وجودی میں فرق یہ ہے کہ مفعول لہ عدمی تصوُّرًامقدم ہوتا ہے اور تحقُّقًا و جود فعل کے بعد ہوتا ہے۔ اور مفعول لہ وجودی تصورًا خواہ وجودًا فعل سے مقدم ہوتا ہے . اس لیے عدمی کو علت ذھنی اور وجودی کو علت خارجی کہتے ہیں۔

4) مفعول فیہ:

اس زمان ومکان کو کہتے ہیں جس میں فعل مذکورواقع /کیا گیا ہو۔

مفعول فیہ کی اقسام:

مفعول فیہ کی دو اقسام ہیں:

1) زمانی: جیسے صُمتُ یَومَ الجمعۃِ میں نے جمعہ کے دن روزہ رکھا۔

2) مکانی: جیسے جلستُ عندَکَ میں تیرے پاس بیٹھا۔

ظرف زمان و مکان کی اقسام:

1) ظرف زمان مبہم: اس میں فعل عمل کرتا ہے بلاواسطہ فی کے کیوں کہ یہ فعل کا جزء ہے اور فعل اپنے جزء میں بلاواسطہ عمل کرتا ہے۔ اور اس کومنصوب پڑھا جاتا ہے جیسے صمتُ دھرًا دراصل صمتُ فی دھرٍ۔

2) ظرف زمان محدود: اس میں بھی فعل عمل کرتا ہے بلاواسطہ فی کیوں کہ یہ فعل کا جزء نہیں لیکن جزء سے ذات میں شریک ہے جیسے سِرتُ یَوما

3) ظرف مکان مبہم: اس میں بھی فی مقدر ہوتا ہے کیوں کہ یہ نہ فعل کا جزء ہے نہ جزء سے ذات سے میں شریک ہے بلکہ جزء سے وصف (ابھام) میں شریک ہے۔ جیسے جَلَستُ قُدَّامَکَ دراصل فی قُدَّامَکَ۔

4) ظرف مکان محدود: البتہ اس میں فی کو مقدر کرنا جائز نہیں اس میں فی کا ذکر ضرور ی ہے کیوں کہ یہ نہ فعل کا جزء ہے نہ جزء سے ذات یا وصف میں شریک ہے۔ جیسے جلستُ فی الدارِ۔

5) مفعول معہ:

اس اسم کو کہتے ہیں جس میں تین شرائط پائے جائیں:

1) اسم ہو

2) واو بمعنیٰ مع کے بعد واقع ہو

3) اسم کی فعل کے معمول سے مصاحبت (تعلق) ہو، چاہے معمول فاعل ہو جیسے جاءَ البردُ وَالجُبَّاتِ آئی سردی جبوں کے ساتھ یا معمول مفعول ہو جیسے کفاکَ وَزیدًا دِرھمٌ کافی ہے تجھ کو مع زید کے ایک درہم اور اس مفعول کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فعل کے حکم میں شریک نہیں ہوتا جیسے سِرتُ وَالنَّھرَ میں ندی کے ساتھ چلا۔

مفعول معہ اپنے عامل سے مقدم ہو تا ہے۔

مفاعیل خمسہ کی مثالوں کا جدول:

مفاعیل خمسہ
تعریف
مثالیں
1مفعول بہجس پر فاعل کا فعل واقع ہوضَرَبْتُ زَیْداًأَکَلْتُ خُبْزاًأَعْطَیْتُ زَیْدًا قَلَمًاأَعْلَمَ زَیْدًا بَکْرًا فَاضِلًاأَکْرَمْتُ أَخَا زَیْدٍ
2مفعول مطلقاس مصدر کوکہتے ہیں جو اپنے فعل کے بعد آئےضَرَبْتُ ضَرْبًاقَعَدْتُ جُلُوْسًاجَلَسَ جِلْسَۃًأُکِلَ ثَلاثَ أَکْلَاتٍنُصِرَ نَصْرًا
3مفعول لہجس کی وجہ سے فعل واقع ہوقُمْتُ اِکْرَامًاسَئَلْتُ جَہْلًاقُمْتُ لِلْأُسْتَاذِوَقَفْتُ مِنَ الْمَطَرِأُخِذَتْ اِمْرأَۃٌ فِيْ ہِرَّۃٍ
4مفعول فیہاس زمان ومکان کو کہتے ہیں جس میں فعل مذکورواقع ہودَخَلْتُ فِي الْمَدِیْنَۃِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِأَذْھَبُ غَدًاصَلَّیْتُ خَلْفَ الْاِمَامِصُمْتُ شَھْرًاجَلَسْتُ أَمَامَ الْأَمِیْرِ
5مفعول معہواو بمعنیٰ مع کے بعد واقع ہوتا ہےجَاءَ الْبَرْدُ وَالْجُبَّۃَجَاءَ خَالِدٌ وَزَیْدًاأَکَلْتُ أَنَا وَزَیْدًاجَاءَ بَکْرٌ وَعَمْرًاآصَفُ ذَھَبَ وَزَاہِدًا
6) حال:

اس اسم کو کہتے ہیں جس میں چار شرائط پائے جائیں:

1) اسم ہو

2) نکرہ ہو

3) حالت بیان کرے فاعل کی یا مفعول کی یا دونوں کی جیسے جائَنِی زیدٌ راکبًا، آیا میرے پاس زید سوار ہونے کی حالت میں۔ ضَرَبتُ زَیدًا مَشدُودًا، مارامیں نے زید کو درآنحالیکہ سخت باندھ کر۔ لَقِیتُ زَیدًاراکِبَینِ ملاقات کی میں نے زید سے در آنحالیکہ ہم دونوں سوار تھے۔

7) تمیز:

تمیز کا لغوی معنیٰ ہے جدا کرنا اور اصطلاح میں اس اسم نکرہ کو کہتے ہیں جو ماقبل سے ابہام (پوشیدگی) کو ختم کرے اور تمیز میں بحیثیت یا لحاظ یا ازروئے کا معنیٰ کیا جاتا ہے جیسے طَابَ زَیدٌ نفسًا۔عِلمًا خوش ہوا زید ازروئے نفس کے یا از روئے علم کے۔ اِنِّـىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُـهُـمْ لِىْ سَاجِدِيْنَ( یوسف 4)

تمیز کی دو اقسام ہیں:

1) تمیز الذات جبکہ ا بھام کسی ذات میں ہو۔

2) تمیز النسبتہ جبکہ ابھام کسی نسبت میں ہو۔

8) مستثنی:

وہ اسم جو کلمات استثناء کے بعد آئے اور مستثنی منہ ( جس سے استثناء کیا گیا) الگ ہو جائے مثلا جاء الطلاب الا بکرا۔ قرات الکتاب ال صفحتین۔ الا کے علاوہ عتر ، حاشا، خلد اور کئی اور حروف استثناء ہیں۔

9) افعال ناقصہ کی خبر:

اَفعالِ ناقصہ جملہ اسمیہ پر داخل ہو کر مبتدا کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں ، مبتدا کو اِن کااسم اور خبر کواِن کی خبر کہتے ہیں : کَانَ النَبِيُّ رَحِیْمًا۔

10) ما ولا المشبھتان بلیس کی خبر:

ما اور لا جو معنی لیس کی مثل ہیں کا اسم لیس کی طرح مرفوع ہوتا ہے تو خبر منصوب مثلا ما زید عالما۔ لا رجل حاضرا۔ ما اللہ بغافل۔ وغیرہ

11) حروف مشبہ بالفعل کا اسم:

ان کا اسم منصوب ہوتا ہے۔ مثلا ان اللہ علیم، واللہ یشھد ان المنافقین لکذبون، کان زیدا اسد، لعل الساعۃ قریب۔

12) منادی:

منادی یعنی جن کو ندا دی جائے مضرب ہوتا ہے کہ ادعو کا قائم مقام ہے۔ مثلا یا عبداللہ۔
 
Top