اسلام میں فرقوں کی حیثیت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اسلام میں فرقوں کی حیثیت​

قرآن میں فرقوں میں بٹنے سے منع کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے،

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ

اور تم سب مل کر اﷲ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ (آل عمران،3 :103)

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا

اور(روز قیامت) رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (سورة الفرقان25:30)

هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ

اﷲ نے پہلے بھی تمہارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ (سورة الحج22:78)

رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ

اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم مسلمان ہوں (سورة الأعراف 1:26 7)

وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں (سورۃ حم سجدۃ آیت نمبر :33)

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے (سورة المائدة 5:3)

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اﷲ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے (سورة الأنعام 159)​


اسی طرح احادیث نبوی سے بھی فرقوں میں بٹ جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حضرت محمد خاتم الرسل و خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی مسلم امہ کے تہتر فرقوں میں بٹ جانے والی حدیث سے لوگ یہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ میری امت ان فرقوں میں بٹے گی اور ان کو بٹ جانا چاہیے۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ تم لوگوں کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ جائیں گے کہ تم لوگ اپنا اپنا گروہ بنا لو گے۔ مگر آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آخری حج کے دوران فرمایا تھا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھے گو گمراہ نہیں ہو سکتے ایک قرآن اور دوسری میری سنت۔ اب قرآن اور سنت کو چھوڑ کر ان فرقوں میں بٹنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
 
Top