مولوی و ترقی اور دوہرا معیار

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
لوگ کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ قومیں بے حد مہذب ہوتی ہیں۔
ساتھ ہی وہ الزام دھرتے ہیں کہ مولوی معاشرے کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس الزام کی کیا حقیقت ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں صبح جلد بیدار ہو جاتی ہیں۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر صرف اور صرف مولویوں کا طبقہ ایسا ہے جو نہ صرف خود صبح سویرے بیدار ہو جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بیدار کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں بے حد صاف ستھری ہوتی ہیں. ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولوی باقاعدگی سے روزانہ پانچ وقت نہ صرف خود اپنے اعضاء کو صاف ستھرا کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دے کر اس کا اہتمام کرتا ہے.۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں بہترین ادارے چلاتی ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی ملک بھر کی مساجد نہایت منظم طریقے سے چلاتا ہے، جہاں سارا دن بلا تفریق سبھی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں وقت کی پابند ہوتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی بالکل سو فیصد عین وقت پہ اذانیں بھی دیتا ہے اور نمازیں بھی پڑھاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں چھٹیاں نہیں کرتیں.. ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی کا سال کے 365 دنوں میں کوئی ایک بھی چھٹی کا دن نہیں ہے، اس نے ہر ہر دن باقاعدگی سے نماز پڑھانی ہے، اگر کسی وجہ سے نماز نہ پڑھا سکے تو پڑھنی ضرور ہوتی ہے.۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قوموں کی پبلک ڈیلنگ زبردست ترین ہوتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی چوبیس گھنٹے مسجد میں ہر ہر عمر، طبقے، اخلاق اور مزاج کے لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور ان کی تلخ و شیریں باتیں سنتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ڈسپلن کی پابند ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی روزانہ پانچ وقت لوگوں کو باقاعدہ نظم و ضبط کے ساتھ بالکل سیدھی قطار میں ٹھہرا کر سر سے پاؤں تک انفرادی و اجتماعی ڈسپلن کا زبردست ترین مظاہرہ کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں کفایت شعاری کی عادی ہوتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی مجموعی طور پر معاشرے کا سب سے بڑا کفایت شعار طبقہ ہے جو کم سے کم معاوضے میں زیادہ سے زیادہ کام کرتا ہے اور وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر وقت کی مکمل پابندی کے ساتھ۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں دیانت دار ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی چوری ڈاکہ سود رشوت ایسے بد ترین کاموں سے نہ صرف خود دور رہنے والا بلکہ دوسروں کو بھی روکنے والا طبقہ ہے.۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا مولوی بھی زندگی میں پیش آنے والے ضروری بنیادی مسائل کے متعلق کافی کچھ جانتا ہے. جبکہ بڑے بڑے علماء کی تو شان ہی نرالی ہے.۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اپنی نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتی ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی بغیر کسی سرکاری گرانٹ کے، بغیر کسی بڑے مالی سہارے کے ہزاروں مدارس میں لاکھوں بچوں بچیوں کو بلا معاوضہ صرف زیور تعلیم سے ہی آراستہ نہیں کرتا بلکہ ان کے قیام و طعام کا بھی اہتمام کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں آداب زندگی سے خوب واقف ہوتی ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی شب و روز لوگوں کو کھانے پینے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، آنے جانے وغیرہ جملہ آداب سے آگاہ کرتا ہے.۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اپنے لوگوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا شعور دیتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی شب و روز لوگوں کو فتاوی کی صورت میں عبادت، تجارت، وراثت، نکاح، طلاق وغیرہ وغیرہ لاکھوں مسائل میں بہترین راہنمائی دیتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں تصنیف و تالیف اور زبان و بیان کی صلاحیتوں سے آراستہ ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی کی لکھی ہوئی ہزاروں کتابیں لاکھوں کی تعداد میں چھپ کر کثیر کثیر مکتبوں اور لائبریریوں کے ذریعے کروڑوں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔نیز زبان و بیان کی صلاحیتوں میں بھی مولوی کا کوئی ثانی نہیں ہے. لاکھوں محفلیں، عیدیں اور جمعے مولوی کے بیانات سے ہمہ وقت گونجتے رہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں خدمت خلق میں بہت آگے ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی نمازوں، شادیوں، جنازوں، تبلیغوں، تعلیموں، تعزیتوں،عیادتوں وغیرہ میں سارے معاشرے میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
ہمیں بتایا جائے کہ کم ترین وسائل میں اتنے عظیم کام مولوی کے علاوہ مجموعی طور پر کون سا طبقہ سر انجام دے رہا ہے؟
جتنے بھی سرکاری ادارے وغیرہ ہیں وہ اربوں کھربوں کے بجٹ سے جتنے کام کر رہے ہیں اگر آپ ان کا مولوی طبقے سے تقابل کریں تو وہ مجموعی طور پر آپ کو ان سب سے آگے نظر آئے گا.. صرف ان سے ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر ہر ترقی یافتہ قوم سے آگے نظر آئے گا۔
فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
 
Top