بنو امیہ کے زوال کے اسباب

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اموی حکومت 661ء میں امیر معاویہ کے اعلان خلافت سے شروع ہوئی اور صرف نوے سال بعد 750ء میں جنگ زاب میں عباسیوں کے ہاتھوں شکست کے نتیجہ کے طور پر ختم ہو گئی۔ تاہم اس حکومت کے زوال کے بعض اسباب روز اول ہی سے موجود تھے اور بعض اس وقت پیدا ہوئے جب اموی اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ آخری خلیفہ مروان ثانی کاہل، سست اور نااہل حکمران نہ تھا لیکن بنو امیہ کے خلاف جو جذبات و محرکات پیدا ہو چکے تھے ان کو روکنا اس کے بس میں نہ تھا۔ اسباب زوال میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:

  • شخصی حکومت:
اموی حکومت کے زوال کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب اسلامی نظام خلافت کی بجائے موروثی اور شخصی حکومت تھی گو کہ اس کے بانی امیر معاویہ تھے جو ایک صحابی تھے مگر ان کے بعد اموی حکومت اسلامی روح سے خالی ہو گئی اور اس میں رفتہ رفتہ شخصی حکومت کی تمام برائیاں عود کر آئیں۔ بیت المال خلیفہ کی ذاتی ملکیت بن گیا اور اس کی آمدنی عوام کی فلاح و بہبود کے برعکس خلیفہ کی ذات پر خرچ ہونے لگی۔

  • خلافت اسلامیہ کی ملو کیت میں تبدیلی:
بنو امیہ میں اسلامی طرز حکومت کی بجائے موروثی بادشاہت اختیا ر کر گئی لیکن مسلمان خلافت راشدہ کے نظام اور نبی پاک ﷺ کی طرز زندگی کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے تھے لہٰذا وہ خلافت کی بجائے اس بادشاہی نظام کے قیام سے ناخوش ہوئے۔ اموی حکومت میں اور بھی بہت سی بڑائیاں پیدا ہوگئیں جس کی وجہ سے لوگ خفیہ اور اعلانیہ بغاوتیں کرتے رہتے تھے۔ ان بغاتوں کی وجہ سے حکو متی نظم و نسق میں ابتری اور کمزوری پیدا ہوگئی۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر عباسیوں نے ان کا تختہ الٹ دیا۔

کیرن آرم سٹرونگ حضرت امیر معا ویہ کے عہد خلا فت کے با رے میں لکھتی ہےکہ ” امیر معا ویہ سلطنت کے اتحاد کو بحال کر نے میں کامیاب ہو گئے مسلمان فتنے سے ڈرے ہوئے تھے اور وہ کوئی ہولناک خانہ جنگی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور مستحکم حکومت کے خواہاں تھے ۔ حضرت امیر معا ویہ ایک اہل حکمران تھے ، انہوں نے تبدیلی مذہب کی بھی حوصلہ شکنی کی لیکن ان کا دوبا ری فطری طور پر امیروں کی ثقافت اور پر آسائش طرز زندگی کو جنم دینے لگا ۔

  • سانحہ کر بلا:
خلافت کی بادشاہت میں تبدیلی کی نوعیت کا بھر پور نوٹس حضرت حسین رضی اللہ عنہ ابن علی نے لیا۔ انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کیا ۔ اور کوفہ کی مدد سے ان کا مقابلہ کر نا چاہا لیکن کوفی عوام نے حکومت وقت کا ساتھ دیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے سا تھیوں کو شہید کر دیا۔ اس شہادت نے اموی حکومت کے ظالمانہ اور منافقانہ اداروں کو بے نقاب کر دیا اور وہ ان کی تباہی کا سبب بنے۔

  • ولی عہدی کا نظام:
اموی حکومت کی عمارت میں زوال کی لہر اس وقت پیدا ہوئی جب اموی خلفاء نے ایک کی بجائے دو دو ولی عہد مقرر کئے ۔ اس کا آغاز مجبوری کے تحت مروان بن حکم نے کیا تھا۔ اس نے اپنے بعد خالد بن یزید اور عمر بن سعد بن العاص کو ولی عہد مقرر کر دیا اور پھر یہ رواج ہی پڑ گیا۔ پھر مروان بن نے تدبیر اور سیاست کھیلتے ہوئے ان دونوں کو عہد معزول کر کے اپنے دو بیٹوں عبدالملک اور عبد العزیز کو یکے بعد دیگر ے علی عہد مقرر کیا۔ یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ ہر خلیفہ اپنے بھائی کی بجائے اپنے بیٹوں کو ولی عہد مقرر کرتا اور یہ داخلی دھڑ بے بندیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا جو آخر کار اموی حکومت کو با لکل کمزور کر گیا۔

  • بنو ہاشم اور بنو امیہ کی قدیم آویزش:
اسلام سے قبل مکہ میں بنو ہاشم اور بنو امیہ اہم ترین قریشی قبائل تھے اور دونوں کے درمیان شروع سے ہی رقابت موجود تھی ۔ اسی رقابت کی وجہ نبی پاک ﷺ کو بعض اموی لوگوں نے قبول نہ کیا ۔ فتح مکہ کے بعد اموی لوگ ایمان لائے اور یہ کشمکش کا سلسلہ ختم ہوا۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی تو یہ دشمنی والے جذبات پھر ابھرنے لگے اور آخر اس کا انجام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سبب بنے۔ اس طرح ہاشمی تحریک کا نام دے کر بنو عباس نے بنو امیہ سے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا انتقام لینا شروع کیا۔

  • قبائلی اور نسلی تفاخر:
اسلام نے دور جاہلیت کا تمام قبائلی تعصبات کا خاتمہ کر کے صرف ملت اسلامیہ کے رشتے کو پروان چڑ ھایا۔ لیکن بنو امیہ کے دور میں یہ قبائلی تعصبات پھر ابھر پڑے ۔ عرب کے قبائل نسلی اعتبار سے دو گروہوں میں تقسیم تھے۔ مضری جن کو بنو عدنان کہتے ہیں اور دوسرا (حمیری) یمنی (بنو قحطان) بھی کہلاتے ہیں۔ امیر معایہ نے اپنی بصیرت سے ان دونوں گروہوں کو اپنا مطیع بنائے رکھا لیکن جب مروان اول کا زمانہ آیا تو یہ عداوت اور دشمنی دوبارہ جنم لے چکی تھی۔ مروان ثانی کے زمانے میں اب دونوں گروہوں کی باہمی آویزش مملکت کے ہر حصے خطرناک صورت اختیار کر چکی تھی۔ جس کا فائدہ ابو مسلم خراسانی نے اٹھایا اور یہ بنو امیہ کے زوال کا سبب بنا ۔

  • خوارج کا ظہو ر:
خوارج بنو امیہ کے مستقل دشمن تھے۔ خارجیوں کا ظہور جنگ صفین کے بعد ہوا۔ خلافت کے بارے میں ان کے اپنے الگ نظریات تھے۔ ان کے نزدیک خلافت ایک انتخابی اور جمہوری ادارہ ہے ۔ خلیفہ جب تک عدل کرے اس کی اطاعت جائز ہے جب وہ راہ راست سے ہٹ جائے تو اس کے خلاف جنگ جائز ہے اس کو قتل یا معزول کر دیا چاہے یہ لوگ بہادر تھے اور اموی سپاہیوں سے جنگ کر کے ان کو شکست دیتے تھے۔

  • موالی کی ناراضگی:
وہ غیر عرب لوگ جنہوں نے اسلام قول کر لیا موالی کہلائے۔ عرب اور غیر عرب کے درمیان کوئی بھی فرق روا نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ لیکن اموی حکومت شروع سے ہی عرب حکومت کا رنگ اختیار کیے ہوئے تھی ۔ انہوں نے عرب اور غیر عرب لوگوں کے درمیان امتیاز کرنا شروع کر دیا اور غیر عرب لوگوں سے جزیہ و صول کرتے ۔ عجمی لوگ پھر ان سے نفرت کرنے لگے ۔ حجاج بن یوسف نے غیر عرب (عجمیوں) پر بہت سختیاں کیں۔ عجمیوں کی نفرت ابو مسلم خراسانی کی تحریک کو کامیاب بنایا۔

  • ظالم گورنر:
بنو امیہ میں ایسے ظالم لوگ عہدوں پر فائز ہوئے جو سختی سے عوام پر دباؤ ڈالتے تھے اور نہایت ہی ظالم، بے رحم اور سنگ دل حکمران بنے مثلا حجاج بن یوسف جس کے خلاف وقت کے جرنیلوں نے بھی احتجاج کیا۔ ابن زیاد نے عوام پر اوپر سے دباؤ رکھا لیکن اندر سے وہ نفرت مزید بڑھتی گئی۔ سلمان بن عبدالملک نے نامور جر نیلوں کو قتل کر وا دیا ۔ اس کے ظلم کی انتہاء نے محمد بن قاسم کو موت کے گھاٹ اتا ر دیا ۔

  • اخلاقی زوال:
بنو امیہ کے حکمرانوں میں اخلاقی پستی آسمان کی بلندیوں کو چھو گئی۔ اس کا آغاز تو یزید اول کے زمانے سے ہی ہوگیا۔ شراب نوشی اور دیگر لعب و لہو اس کی زند گی کا حصہ تھا۔ عبد الملک اور ولید اول کی زندگیاں اگرچہ اس طرح کے اخلاقی عیوب سے پاک تھی لیکن انہوں نے بھی اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر حد پار کر دی۔ سوائے حضرت عمر بن عبد العزیز کے ان کی زندگی خلفائے راشدین کے مشابہ تھی، باقی سب بے راہ روی کا شکار تھے۔ موسیقی ، ناچ گانا رنگین محفلیں، شراب نو شی اور عیاشی ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ یہ اخلاقی زوال بنو امیہ کو گھن کی طرح کھاتا رہا اور آخر کار زوال کا سبب بنا۔

  • سپہ سالاروں اور اراکین سلطنت کی رسوائی:
وہ سپہ سالار جنہوں نے بنو امیہ کی حکومت کے استحکام اور وسعت کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ انہیں خلفائے بنو امیہ نے اپنی شخصی رنجشوں کا نشانہ بنا کر رسوا ہی نہیں کیا بلکہ قید و بند میں ڈال کر قتل تک دریغ نہ کیا۔ قتیبہ بن مسلم اور ابن اشعت اور موسیٰ بن نصیر جیسے مایا ناز فاتح اور جرنیل سلیمان بن عبد الملک کے عتاب کا شکار ہوا۔ محمد بن قاسم کو محض حجاج بن یوسف کی ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔ اس طرح کے حالات اور سلوک کی وجہ سے باقی افواج میں جانثاری کا جذبہ باقی نہ رہا۔

  • عباسی دعوت کا زور اور حکمت عملیاں:
بنو امیہ کی اس بے چین اور پر انتشار صورت حال سے عباسی رہنماؤں نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ انہوں نے بنو ہاشم کے نام پر لوگوں کو جمع کیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیعت سے اپنی رغبت ظاہر کی۔ خراسان کودعوت کا مرکز بنایا گیا اور امام مسلم خراسانی اپنی اس دعوت میں کامیاب ہوئے۔

  • جذبہ جہاد کا فقدان:
بنو امیہ کے کچھ حکمران صرف طا ؤس و رباب کی محفلوں میں رہنا پسند کر تے تھے اور عظیم سپہ سالاروں کی ظلم سے لبریز قوتوں نے لو گوں کے اندر سے جہاد کا جذبہ ختم کر دیا تھا ۔ سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم وغیرہ کو قتل کر وایا۔
 
Top