بنو عباس کے عہد میں سائنسی سرگرمیاں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بنو عباس کے عہد میں سائنسی سرگرمیاں:

عباسی دور حکومت میں سائنسی علوم میں بھی بہت زیادہ ترقی ہوئی، علوم کے ضمن میں سائنس کی مختلف شاخوں، علم طب، علم کیمیات، علم فلکیات، علم جغرافیہ، اور ریاضی پر بیش قیمت خدمات سر انجام دیں گئیں۔

علم طب:

عباسی دور میں علم طب میں بڑا تحقیقی کام ہوا، اس دور کے عظیم طبیبوں نے اپنی علمی خدمات کی بدولت دنیا بھر میں شہرت دوام حاصل کی۔ عباسی دور میں یونانی طب کی قدیم کتابوں کے ترجمے کا کام سرکاری سطح پر شروع ہوا۔ شروع شروع میں یونانی زبان سے نا واقفیت کی وجہ سے اس شعبہ میں عیسائی علماء کا غلبہ اور بالادستی رہی۔ اس دور میں جرجیس، اس کا بیٹا بختیشوع اور پوتا جبریل نامور اطبا میں شمار کئے جاتے تھے لیکن جلد ہی مسلمان علماء اور سائنسدانوں نے اپنی طبع زاد تصانیف کی بدولت علم طب کے تمام شعبوں میں ایک انقلاب عظیم بر پا کر دیا۔ ابن سینا اور الرازی اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بوعلی سینا کی کتاب ''قانون في الطب'' صدیوں تک مشرق ومغرب کی یونیورسٹیوں میں شامل نصاب رہی۔ اس کے علاوہ اس کی دوسری تصنیف ''کتاب الشفاء'' نے بھی بڑی شہرت پائی۔

علم کیمیا:

علم کیمیا میں تجرباتی اعمال کی روایت کے بانی جابر بن حیان تھے۔ جابر نے کیمیائی تجربوں کا آغاز کر کے حقیقی انداز میں، جدید کیمسٹری کی بنیاد رکھی۔ جابر کیمیا کے تمام تجرباتی عملوں مثلا تقطیر، تبخیر، کشید وغیرہ سے واقف تھا۔ جابرعمل تکلیس (دھاتوں کا کشتہ بنانا ) سے بھی واقف تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں چمڑا رنگنے، فولاد بنانے، دھاتوں کو صاف کرنے موم جامہ بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لیے اس پر وارنش کرنے، بالوں کے لیے خضاب تیار کرنے اور اسی طرح کئی چیزوں کے بنانے کے طریقے بیان کئے۔

جابر نے سلفائیڈ سے سفیدہ، سنکھیا اور کحل حاصل کرنے کے طریقے بتائے، اس نے نباتاتی تیزابوں مثلا تیزاب لیموں، تیزاب سرکہ اور تیزاب طرطیز کے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔ جابر کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے تین معدنی تیزابوں کو دریافت کیا۔ ان تیزابوں کو اس نے پہلی بارقرح ابنیق (ریٹارٹ ) کی مددسے تیار کیا۔ اس نے ماءالملوک (Aqua Ragia) بنایا۔ جابر نے علم کیمیا پر تقريبا 700 رسائل لکھے جن میں الخواص الکبیر، الخواص الصغیر، کتاب الاسرا، کتاب المجردان، کتاب البروج اور کتاب الراس بہت مشہور ہیں۔

طبیعات:

علم طبیات وہ علم ہے جس میں مادے، توانائی اور ان کے باہمی تعلق کا مطالعہ کیا جا تا ہے۔ اس علم کے کئی شعبے ہیں۔ مثلا میکانیات (مشینوں اور آلات کا علم ) حرکیات، بصریات وغیرہ۔ علم طبیعات کا وجود بھی قدیم یونان میں پایا جاتا تھا۔ ارسطو نے طبیعات پر ایک کتاب بھی لکھی مگر اس سلسلے میں اس نے کوئی تجربہ نہیں کیا۔

مسلمانوں نے عہد بنوعباس میں اس شعبہ سائنس میں بڑا کمال حاصل کیا اور بہت سی چیزیں دریافت کیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور تجربات کئے۔ مامون الرشید کے عہد میں حقیقی علم طبیعات کی بنیاد پڑی اور روشنی، کسوف وخسوف، اور خواص اشیاء پر کتابیں لکھی گئیں۔ معدن پگھلانے کے آلات دریافت ہوئے، جر ثقل کے قوانین پر روشنی ڈالی گئیں۔ سمندروں، پہاڑوں کے ذخائر پر بحث کی گئی۔

عہد عباسیہ کے مشہور ماہرین طبیعات میں ابن الھیثم، البیرونی، ابو بکر زکریا رازی، ابن سینا اور جمعیت اخوان الصفا شامل ہیں۔

علم ریاضی:

عہد بنوعباس میں تمام ہئیت دان ریاضی دان بھی ہوتے تھے۔ علم ریاضی میں مسلمانوں نے یونانی علم سے استفاده کیا مگر زیادہ معلومات ہندوؤں سے حاصل کر کے انہیں عربی میں ڈھالا گیا۔ اس عہد کے مشہور ریاضی دانوں میں محمد بن موسی الخوارزی، البیرونی، ابو الوفا بورجانی، محمد بن موسی بن شاکر اور عمر خیام شامل ہیں۔

علم جغرافیہ:

علم جغرافیہ سے مراد وہ علم ہے جس میں زمین کی اقالیم میں تقسیم، پہاڑوں، دریاؤں، اور سکان ارضی سے بحث کی جائے اورطول بلد و عرض بلد کا تعین کیا جائے نیز سمندروں صحراؤں، اور جنگلات کے احوال معلوم کئے جائیں۔

انسان نے جب سے زمین پر سیر وتفریح کا آغاز کیا ہے اسے اس امر سے بھی دلچسپی رہی ہے کہ وہ بعد مسافت کا تعین کرے۔ مختلف علاقوں کے طبعی اختلافات کا جائزہ لے کر کسی بھی جگہ کے محل وقوع، آب ہوا، پیداوار، پہاڑوں، دریاؤں اور جنگوں کی تفصیلات سے آگاہ ہو۔ مسلمانوں میں تسخیر عالم کا شوق، حج بیت اللہ کی عظمت و تقدس، جہت قبلہ کا تعین ایسے امور ہیں جن کے باعث مسلمانوں نے دوسرے علوم کی طرح جغرافیہ کو بھی اپنی تحقیقات کی آماجگاہ بنایا۔

مامون الرشید نے اپنے عہد حکومت میں 69 سائنسدانوں کوجغرافیائی تحقیقات اور دنیا کے نقشے کی ترتیب و تدوین کے لیے مقرر کیا تھا۔ ان کی تحقیقات سے حاصل ہونے والے مواد کی بنیاد پرمحمد بن موسی الخوارزمی نے عربی میں جغرافیہ کی پہلی کتاب ''صورة الارض'' کے نام سے لکھی، جس کے ساتھ ایک نقشہ بھی تھا۔ اس کے بعد خلیفہ مامون الرشید کے حکم سے ڈاک اور پر چہ نویسی کے منتظم نے تیسرے صدی ہجری (نویں صدی عیسوی) میں جغرافیہ کے موضوع پر ''المسالک و الممالک“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، ڈاک کا یہ ناظم جغرافیہ دان ابن حردازبہ تھا جسے مسلم جغرافیہ کا باوا آدم مانا جاتا ہے۔ تیسری صدی ہجری کے نصف آخر میں احمد بن اسحاق ابی یعقوب بن واضح الكاتب الیعقوبی نے کتاب ''البلدان'' تصنیف کی۔ یعقوبی کے بعد ابن رستہ نے ''الاعلاق النفیسۃ'' اور ابن الفقيه الحمدانی نے ''کتاب البلدان'' ہی کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔

چوتھی صدی ہجری کے ربع اول میں قدامہ بن جعفر الكاتب نے ''کتاب الخراج وصنعته الکتاب''، تحریر کی، جس میں انہوں نے گیارہویں باب کے ذیل میں راستوں، ڈاک کی منزلوں اور سرحدوں کی تفصیل دی ہے۔ تقریبا اسی زمانے میں مشہور مؤرخ ابو الحسن علی بن حسین المسعودی نے اپنا سفرنامه ''کتاب القضاء التجارب'' کے نام سے تیار کیا جس میں مصنف نے چشم دید واقعات و مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر وسیع اور اہم جغرافیائی مواد پیش کیا۔ ان کی دوسری کتابوں ''مروج الذہب و معاون الجواہر'' اور ''التنبيه والاشراف'' میں بھی ان کی سیاحت کے حالات ملتے ہیں۔
 
Top