مغلیہ سلطنت کے نمایاں خدوخال

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی ۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر ان کی حکمرانی تھی۔

ابتدائی تاریخ:

مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر، تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔ 1526ء کو دہلی سلطنت کے حاکم ابراہیم لودھی کے خلاف پانی پت جنگ میں بابر نے اپنی فوج سے دس گنا طاقتور فوج سے جنگ لڑی اور انہیں شکست دی۔ بابر کی اس فتح کی وجہ یہ کہ اس کے پاس بارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔

ظہیر الدین بابر:

ظہیر الدین محمد بابر (پیدائش: 1483ء - وفات: 1530ء) ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی تھا۔ انہیں ماں پیار سے بابر (شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ یہاں سے اس نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔

ہمایوں:

بابر کا بیٹا ہمایوں (1530ء تا 1556ء) باپ کی طرح شریف، نیک اور رحم دل تھا۔ میدان جنگ میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں ہوتا تھا۔ باپ کے ساتھ بیشترلڑائیوں میں حصہ لیا۔ پانی پت اور کنواہہ کی جنگ میں شریک تھا۔ آگرہ اسی نے کیا تھا، لیکن عیش پسند اور آرام طلب تھا اور اپنی فوج اور سرداروں کو وہ بابر کی طرز پوری طرح قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس کے ابتدائی چند سال کامیابی کے ہیں۔ اس نے افغانوں کو لکھنؤ کے پاس شکست دے کر مشرق کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ اس کے ایک باغی سردار نے جب گجرات کے بادشاہ بہادر شاہ کے پاس پناہ لی اور بہادر شاہ نے اس کو ہمایوں کے حوالے نہیں کیا، تو ہمایوں نے بہادر شاہ کو شکست دے کر 1535ء میں مالو اور گجرات پر قبضہ کر لیا۔

اس کے بعد ہمایوں نے بنگال کا رخ کیا جہاں ایک افغان سردار شیر خان قابض ہو گیا تھا۔ ہمایوں نے بنگال کا دارالحکومت گو آسانی سے فتح کر لیا لیکن وہاں عیش میں پڑ گیا۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ اس کا حریف شیر خان صلاحیت، بہادری اور جفائی میں دوسرا بابر ہے، شیر خان نے اس کی پالیسی کے راستے بند کر دیئے اور جب ہمایوں گھبرا کر واپس ہوا تو شیر خان نے چوسا کے مقام پر اس کو شکست دی۔ ہمایوں وہاں سے شکست کھا کر دوباره ایران چلا گیا اور ایران کے صفوی خاندان کے بادشاہ کی مدد سے دوبارہ اس نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت شیر شاہ سوری فوت ہو چکا تھا اس نے ان سے جنگ کر کے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کر لی، لیکن اس کی زندگی نے وفا نہ کی اور جلد ہی فوت ہو گیا اور اس کے بعد اس کا 10 سالہ بیٹا اکبر تخت نشین ہوا اور ہمایوں کمانڈر بیرم خان اس کا اتالیق مقرر ہوا۔

اکبر اعظم:

اکبر اعظم نے کل پچاس سال حکومت کی اور اس عرصہ میں اتنی بڑی سلطنت قائم کر دی جو وسعت میں تقریبا دہلی کی سلطنت کے برابر تھی۔ یہ صحیح ہے کہ دکن کا بڑا حصہ اور جنوبی ہند اکبر کی سلطنت میں شامل تھا لیکن کشمیر، بلوچستان، کابل اور قندھار اس کی سلطنت میں شامل تھے یہ وہ علاقے ہیں جو دہلی کی سلطنت میں شامل نہ تھے۔

اکبر اگرچہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس نے سلطنت کا ایسا انتظام کیا اور ملک کو ایسی ترقی دی کہ تعجب ہوتا ہے۔ اس نے اپنی سلطنت کو پندرہ صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر صوبہ میں ایک صوبہ دار مقرر کیا۔ اس نے کاشتکاروں کے متعلق شیر شاہ کی اصلاحات کوترقی دی۔ اس کام میں فتح الله شیرازی اور ایک ہندو راجہ ٹوڈرمل نے جو شیر شاہ کے زمانہ میں کام کر چکا تھا، اکبر کی بڑی مدد کی۔ اکبر نے انتظام ملک کے متعلق نئے نئے قوانین بھی بنائے جن پر اتنا زمانہ گزرنے کے بعد آج بھی عمل ہوتا ہے۔

نورالدین جہانگیر:

اکبر کے بعد اس کا لڑکا سلیم، نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ جہانگیر (1605تا 1627ء) اپنے باپ کے برعکس آرام طلب اور عیش پسند تھا۔ اکبر کے تمام لڑکے دربار کے غیر مذہبی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے شراب کے عادی تھے۔ شراب اکبر بھی پیتا تھا لیکن اعتدال کے ساتھ، اس کے لڑکوں نے اس معاملے میں حد کی قید اڑا دی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شہزادہ مراد اور شہزادہ دانیال شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے جوانی میں ہی مر گئے۔ جہانگیر بھی اس مرض میں مبتلا تھا اور اگر اس کی عقل مند بیوی نور جہاں اس کی شراب کم نہ کر دیتی تو شاید جہانگیر کا حشر بھی اپنے بھائیوں کی طرح ہوتا۔

شہاب الدین شاہجہان:

جہانگیر کے بعد اس کا بیٹا خرم شہاب الدین محمد شاہجہاں کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اس دور کے اہم سیاسی واقعات میں سے ایک ہگلی (بنگال) میں پرتیگیزوں کا ہنگامہ ہے، جس کے بعد پرتگیزوں کو 1632ء میں مستقل طور پر نکال دیا گیا۔ قندھار جس پر مغلوں نے جہانگیر کے زمانے میں قبضہ کر لیا تھا۔ 1638ء میں ایران نے پھر واپس لے لیا۔ اس کے بعد شاہجہان نے تین مرتبہ قندھار لینے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ وسط ایشیا میں بخارا کے حکمران امام قلی کے بعد اس کے بھائی نذر محمد کو جب ازبکوں نے نکال باہ رکیا تو ازبکوں کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہجہاں نے اپنے آبائی وطن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور 1686 ء میں بدخشاں اور بلخ پر قبضہ کرلیا لیکن دہلی کے سپاہی موسم کی شدت سے گھبرا گئے اور شاہ جہاں کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں۔

محی الدین اورنگزیب عالمگیر:

شاہجہاں کے بعد اس کا لڑکا اورنگزیب محی الدین عالمگیر کے لقب سے تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اورنگزیب ہندوستان کا سب سے بڑا تیموری حکمران ہے جس طرح عربوں کی سلطنت ولید کے زمانے میں سلجوقیوں کی سلطنت ملک شاہ کے زمانے میں اور عثمانی سلطنت وزیراعظم محمد پاشا صوقوللی کے زمانے میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچی تھی، اسی طرح دہلی کی تیموری سلطنت اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچی۔ اورنگزیب حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک تھا۔ وہ لڑکپن ہی سے بہادر، ذہین اور نیک طبیعت تھا۔

اورنگزیب اس برصغیر کا سب سے بڑا بادشاہ ہے وہ صرف اس لحاظ سے ہی بڑا نہیں کہ اس کے قبضہ میں سارا ملک تھا بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اخلاق، عادت، محبت، دیانت، انصاف اور حکومت کی ذمہ داری اور رعایا پروری کے لحاظ سے بھی وہ بے مثل تھا۔ وہ سرکاری آمدنی کو اپنے ذاتی خرچے میں نہیں لاتا تھا کیونکہ وہ رعایہ کا مال تھی۔ رعایا سے جورقم ٹیکس کے ذریعے وصول کی جائے اسے رعایا پرہی خرچ کرنا چا ہے۔ اسے اپنے ذاتی عیش و آرام کی تعمیر پرخرچ کرنا بری عادت ہے۔ خلفائے راشدین نورالدین زنگی، صلاح الدین ایوبی خود ہندوستان میں ناصر الدین محمود کا یہی طریقہ تھا۔ اورنگزیب نے بھی اس اعلی مثال پرعمل کیا۔

مغلیہ سلطنت کا زوال:

1707 میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے ساتھ ہی مغلیہ سلطنت جس کا آغاز 1526 میں ہوا تھا زوال پذیر ہو گئی مگر اس کے باوجود بھی یہ سلطنت ڈیڑھ سو سال بعد 1857 میں مکمل طور پر ختم ہوئی اس ڈیڑھ سوسال میں نو اہم حکمرانوں نے حکومت کی۔ جن کے نام یہ ہیں بہادر شاہ، جہاندار شاہ، فرخ سیر، محمد شاہ، احمد شاہ، عالمگیر ثانی، شاہ عالم ثانی، اکبر ثانی، بہادر شاہ ثانی جسے بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں۔ مغلیہ دور کے آخری تاجدار تھے جن سے انگریز فوجوں نے اقتدار لے کر 1857 میں ہندوستان میں مغلیہ عہد کا خاتمہ کر دیا اور برطانوی عہد کا آغاز ہو گیا۔

مغلیہ دور کے زوال میں ہندوستا پر 1739 میں نادر قلی ایران کے حاکم نے حملہ کر کے دہلی تک قبضہ کر لیا مگر مال سمیٹ کر حکومت دوبارہ مغلیہ تاجدار محمد شاہ کے حوالہ کردی اور 1751 میں احمد شاہ ابدالی والی افغانستان نے ہندوستان کو فتح کیا لیکن اقتدار احمد شاہ کے پاس ہی رہنے دیا۔

مغلیہ دور کے تعلیمی و تہذیبی آثار:

عہد مغلیہ میں برعظیم اک و ہند میں مسلمانوں کی حکومت کا آخری اور زریں دور تھا، عربی کے مصنف جتنی بڑی تعداد میں ہوئے اتنے کسی اور خاندان کے عہد حکومت میں نہیں ہوئے۔ عہد مغلیہ کے بعض مصنف بیرون ہند بھی مشہور ہوئ اور ان کی تصانیف عرب، مصر اور ترکیمیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔ ان مصنفوں میں فیض، عبد الحق دہلوی، عبد الحکیم سیالکوٹی، شاہ ولی اللہ دہلوی، غلام علی آزاد بلگرامی اور محب اللہ بہاری بہت ممتاز ہیں۔

اکبر کے بارے میں یہ اختلافی مسئلہ ہے کہ وہ ان پڑھ تھا یا نہیں، لیکن اس میں کوغی شبہ نہیں کہ وہ عربی سے بالکل نا واقف تھا۔ تاہم وہ علوم کا ایک عظیم ترین سرپرست تھا اور مختلف علوم و فنون کے ماہر اور صاحبات کمال اس کے عظیم الشان دربار سے منسلک تھے۔ آئین اکبری، منتخب التاریخ اور طبقات شاہ جھانی سبمیں اس عہد کے اولیا اور علماء کے ناموں کی فہرستیں موجود ہیں۔ ملک الشعراء فیضی کو عربی زبان پر حیرت انگیز قدرت حاصل تھی۔ جس کا ثبوت اس کی ''سواطع الالھام'' اور ''صواد الکلم'' جیسی تصانیف سے ملتا ہے جنمیں شروع سے آخر تک کوئی نقطہ دار حرف استعمال نہیں کیا۔ نوراللہ شوستری ایک ممتاز شیعہ عالم اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ میر کلاں اسی باشاہ کے عہد میں ہرات سے ہند آئے تھے اور اکبر نے ان کو اپنے بیٹے سلیم کا استاد مقرر کیا تھا۔

شاہ جہان اپنے والد جہانگیر سے بھی زیادہ عالم و فاضل تھا اور اس کو مذہب سے گہرا شغف بھی تھا، چنانچہ اس نے مسلمہ علوم کو بہت فروغ دیا اور اس کے شاندار عہد حکومتیں علماء اور صاحبان کمال بڑی تعدادمیں موجود تھے جنمیں محمود جونپوری، نور الحق، عبد الحکیم سیالکوٹی، عبد الرشید، عبد الباقی اور محب اللہ آبادی سب سے زیادہ مشہور ہیں، یہ سب کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔

شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ان سب سے بڑھ کر عالم و فاضل اور بہت زیادہ مذہبی و متقی تھے۔ انہوں نے اپنی سلطنت میں اسلامی علوم کی اشاعت اور مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے نہایت خلوص اور مستعدی سے کام کیا۔

عالمگیر نے شیخ نظام کی سرکردگیمیں ممتاز علمائے دین کی ایک مجلس مقرر کی تھی تا کہ حنفی فقہ نہایت جامع شکل میں مرتب کی جائے اور اس اہم اور زبردست کام پر کثیر دولت صرف کی۔ حنفی فقہ کا یہ مجموعہ ''فتاوی عالمگیری'' ہے جو بیرون ہند ''فتاوی الھنیہ'' کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ عہد عالمگیری کے علماء میں ملا جیون، محب اللہ آلہ آبادی، میر زاہد اور ملا قطب الدین سہالوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور یہ سب متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

شہنشاہ عالمگیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کی عظمت و قوت زوال پذیر ہونے لگی۔ بہادر شاہ علماء کی صحبت میں رہنا بہت پسند کرتا تھا۔ مگر محمد شاہ عیش و عشرت اور عیاشیمیں شرمناک حد تک مبتلا ہو گیا اور اس کے بعد مغل باشاہ با اقتدار نہیں رہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عالمگیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کے بسرعت زوال اور ملک میں بد امنی ہو جانے کے باوجود اس زمانہ میں بہت علماء پیدا ہوئے جنمیں عبدالجلیل بگرامی، غلام علی آزاد، فضل امام، فضل حق خیر آبادی، تراب علی، محمد حسن، محمد مبین، ثناء اللہ پانی پتی، حمد اللہ اور احمد علی سندیلوی خاص طور قابل ذکر ہیں۔
 
Top