"ایک باپ کا مقدمہ"

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
کویت کا ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا تاکہ اپنی شکایت(مقدمہ) قاضی کے سامنے پیش کرے قاضی نے پوچھا آپ کا مقدمہ کس کےخالف ہے؟ اس نے کہا اپنے بیٹے کے خلاف۔
قاضی حیران ہوا اور پوچھا کیا شکایت ہے، بوڑھے نے کہا میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں، قاضی نے کہا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے دالئل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب! اس کے باوجود کہ میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں ہوں،لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں۔
قاضی حیرت میں پڑ گیا اور اس سے اس کے بیٹے کا نام اور پتہ لیکر اسے عدالت میں پیش ہونے کاحکم جاری کیا۔
بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی نے اس سے پوچھا کیا یہ آپ کے والد ہیں؟ بیٹے نے کہا جی ہاں یہ میرے والد ہیں۔ قاضی نے کہا انہوں نے آپ کے خالف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔
بیٹے نےحیرت سے کہا، وہ مجھ سےخرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جب کہ وہ خود بہت مالدار ہیں اور انہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
قاضی نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب! اگر آپ اس کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کا حکم دیں تو میں خوش ہو جاوں گا بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بال تاخیر اور بال واسطہ دیا کریے قاضی نے کہا بالکل ایسا ہی ہو گا یہ آپ کا حق ہے۔
پھر قاضی نےحکم جاری کیا کہ "فلاں ابن فلاں اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بال تاخیر اپنے ہاتھ سے بالواسطہ دیا کرے گا"۔
کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائر کیوں کیا تھا جب کہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا؟
بوڑھے نے روتے ہوئے کہا، قاضی محترم! میں اپنے اس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس رہا ہوں، اور اس کو اس کے کاموں نے اتنا مصروف کیا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں جب کہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت رکھتا ہوں اور ہر وقت میرے دل میں اس کا خیال رہتا ہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا حتٰی کہ ٹیلیفون پر بھی۔
اس مقصد کے لئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی، میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔
یہ سن کر قاضی بے ساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے بھی، اور بوڑھے باپ سے کہا اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کرتے تو میں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا، بوڑھے باپ نے ہنستے ہوئے کہا۔
سیدی قاضی !آپ کا یہ حکم مجھے اور بھی تکلیف دیتا۔


کاش کہ بیٹے جانتے کہ ان کےلیے ان کے والدین کے دل میں کتنی محبت ہے۔ اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے کم از کم، کم از کم دن کا ایک منٹ ہی اپنے والدین کے لیے نکال لیں۔
 
Top