علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بعض عارفین سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا ، جس کا ہاتھ مونڈھے سے کٹا ہوا تھا ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ تیرا کیا قصہ ہے ؟ کہا کہ اے بھائی بڑا عجیب قصہ ہے ، وہ یہ ہے کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا ، جس نے مچھلیوں کو شکار کر رکھی ہے ، جو مجھے پسند آگئی ، میں نے اس سے کہاکہ یہ مچھلی مجھے دے دے ، اس نے کہا کہ میں نہیں دے سکتا ہوں ؛ کیوں کہ میں اسی کی قیمت سے میرے اہل وعیال کی غذا وخوراک کا انتظام کرتا ہوں ، یہ سن کر میں نے اس کو مارا اور اس سے وہ مچھلی زبردستی لے لی اور چلا گیا ۔ وہ کہتاہے کہ میں اس کو اٹھاکر لے جارہا تھا کہ اس مچھلی نے میرے انگوٹھے کو زور سے کاٹ لیا ۔ جس سے میں نے بہت ہی درد محسوس کیا ۔ حتی کہ شدت تکلیف کی وجہ سے سو بھی نہ سکا اور میرا ہاتھ بھی سوج گیا اور صبح ہوئی تو طبیب کے پاس گیا ، اس نے کہا کہ اب یہ سڑنا شروع ہوگیا ہے ؛ لہٰذا انگلی کو کاٹ دو ؛ ورنہ ہاتھ کاٹنا پڑے گا ، وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی انگلی کٹوادی ؛ مگر یہ تکلیف بڑھ کر ہاتھ میں آگئی ، مجھ سے کہا گیا کہ گٹوں تک ہاتھ کٹوا دو ، میں نے کٹوادیا ؛ مگر تکلیف بازو تک پھیل گئی ، تو یہاں تک کاٹ دینا پڑا ، بعض لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تکلیف کس سبب سے پیدا ہوئی ؟ میں نے مچھلی کا قصہ سنایا ، اس نے کہا کہ اگر تو پہلی ہی دفعہ مچھلی والے سے مل کر معاف کرالیتا (تو اس نقصان سے بچ جاتا) اور تیرے اعضاء نہ کاٹے جاتے ۔ لہٰذا اب جا کر معافی مانگ لے ، وہ کہتا ہے کہ میں گیا اور معافی مانگی اور یہ میرا قصہ سنایا ، تو اس نے معاف کر دیا ۔ ( کتاب الکبائر : ۱۱۴ )
سبق:
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا حق چھیننا اور دبا لینا ، کسی کو تکلیف دینا ، خدا کو ناراض کر دینا ہے اور اس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ مصیبت اٹھانی پڑتی ہے۔
سبق:
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا حق چھیننا اور دبا لینا ، کسی کو تکلیف دینا ، خدا کو ناراض کر دینا ہے اور اس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ مصیبت اٹھانی پڑتی ہے۔