سراپا بد گُمانی تھے

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے
جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے

تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میں چُھپائے ہیں
کہِیں پر کابُلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے

ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تُم نے رُخ بدلا
پرائے ہو گئے؟ کل تک تُمہاری زِندگانی تھے

نجانے کِس طرح کی خُوش گُمانی ہم کو لاحق تھی
ہمیں جِن سے اُمِیدیں، لوگ وہ دُنیا کے فانی تھے


سبھی نے اپنے حِصّے کی کوئی آفت اُٹھائی ہے
بہُت سے آشنا چہرے زمِینی، کُچھ زمانی تھے

تسلُّط ایک مُورت کا تھا دِل کی راجدھانی پر
گھنیری نرم زُلفیں جس کی، لب بھی ارغوانی تھے

وہ کیا چہرے تھے ماضی کے دُھندُلکوں سے اُبھر آئے
ہم اُن کا جھوٹا قِصّہ، وہ مگر سچّی کہانی تھے

لِکھا تھا غین چہرے پر، سو غُربت کِس کو بھائی ہے؟
یقِیں کرتا کوئی کیا ہم سراپا بد گُمانی تھے


رشِید اپنی محبّت کا لہُو تُھوکا کِیے لیکِن
کِسی کے ہم زُباں ٹھہرے کسی کی بے زُبانی تھے


رشید حسرت
 
Top