کلام الدین تم چلے گئے؟

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
کلام الدین تم چلے گئے؟

مفتی ناصرالدین مظاہری

ہم نے ماناکہ تمہیں ہرچیزمیں جلدی رہتی تھی لیکن ایسی بھی کیاجلدی کہ اپنے بڑے بھائیوں کوہی چھوڑکر ملک عدم کوچل دئے ،تمہیں خوش دیکھ کرہمیں کس قدرخوشی ہوتی تھی اس کااندازہ تم اس طرح کرسکتے ہوکہ تمہیں اپنے بچوں کوخوش دیکھ کرکتنی خوشی ہوتی ہے،چھوٹابھائی چھوٹی اولاد کی طرح ہی پیاراہوتاہے،اس کی خوشی میں ہی بڑوں کی خوشیاں پوشیدہ ہوتی ہیں ،چھوٹامغموم ہوتوبڑے مغموم ہوجاتے ہیں،چھوٹے کی پریشانی کادرد اتنا درد والے کونہیں ہوتاجتنادردبڑے اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں،ہربڑابھائی چاہتاہے کہ چھوٹابھائی خوش رہے،غموں کااس کے قریب سے گزرنہ ہو،راحتیں اس کی زندگیوں میںمسرتوں کے کنول کھلائیں،آسائشیں اس کی صحت اوراس کے گھرکی لونڈی ہوں،فارغ البالی حاصل ہو،بیماریاں ، حیرانیاں،پریشانیاں اوردرماندگی وعاجزی قریب سے بھی نہ گزریں،تم مجھ سے صرف چھ سال چھوٹے تھے لیکن میں تمہیں ہمیشہ اپنادوست سمجھتاتھا،اپنے دل کی باتیں ،اپنے راز،اپنے خوابات وخیالات ،اپنی سوچ اورافکارپریشاںصرف تم سے شئیرکرتاتھاکیونکہ تم میرے دل کے سب سے قریب تھے ،کیونکہ تم رازکوراز رکھنے کافن اورہنرجانتے تھے ،کیونکہ تم ماں باپ کے سب سے لاڈلے اورپیارے تھے ۔عجیب بات ہے کہ جب تک بھائیوں کی شادیاں نہیں ہوتیں بھائیوں کے درمیان کوئی اختلافات بھی نہیں ہوتے لیکن جیسے ہی دوسراخون گھروں میں پہنچتاہے دوسرے خیالات اورمنفی سوچ بھی گھروں میں مسلط ہوجاتی ہے،چنانچہ تمام بھائیوں کاشادی کے بندھن میں بندھناتھاکہ آپسی اختلافات کی آمدہوگئی، چاربھائی اوران کی بیویاں سب کی اپنی لن ترانیاں ،ایسی صورت میں تواختلافات کی طنابیں کھنچ جاتی ہیں،گھروں کے درمیان دیواریں حائل ہوجاتی ہیں،استمزاج بھی مشکل ہوجاتاہے ،لیکن الحمدللہ اپنے والدین کی تربیت اوران کے پاک وروشن کردارکی برکت تھی کہ ہمارے درمیان تقسیم کے عمل کے باجودنہ تودرمیان میں دیواریں حائل ہوئیں،نہ گفتگوختم ہوئی ،نہ پیارومحبت میں کوئی فرق آیااوراس بارے میں سب سے پاک اورسب سے صاف معاملہ تمہاراہی رہا،ہم چاہتے تھے کہ ہمارے والدین ساتھ رہیں،ہم نے والدین سے عرض بھی کیاکہ آپ اپنی حیات میں اپنی میراث جب تقسیم کریں تواگرمیرے ساتھ رہیں تومجھے آپ کاحصہ نہیں لیناہے وہ آپ سب میں تقسیم کردیجئے کیونکہ ہمیں کامل یقین ہے ہمیں اللہ تعالیٰ والدین کی خدمت اوربرکت سے خودہی رزق دے گا،ہمیں اللہ کی صفت رزاقی کاالحمدللہ علم ہے، ہمیں والدین کی مستجاب دعاؤں کاپتہ ہے،ہم والدین کی عظمت اورا ن کی اہمیت سے واقف ہیں،ہمیں معلوم ہے کہ دنیامیں والدین ہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کانعم البدل نہیں ہے، اس لئے میں نے بھرپورکوشش کی کہ میرے والدین میرے ساتھ رہیں لیکن ان کافیصلہ صرف تمہارے ساتھ رہنے کاتھااورتمہارے ساتھ ہی رہے ،میں نے احتجاج بھی کیالیکن ان کاجواب تھاکہ چھوٹی اولاد فطری طورپرماں باپ کی کمزوری ہوتی ہے، اس لئے وہ دونوں زندگی کے اخیرلمحات تک تمہارے ساتھ رہے ،ان کی دعاؤں،ان کی تمناؤں اوران کی امیدوں کامرکزتمہاری ذات تھی ،تم توچھوٹے تھے تمہیں تویادبھی نہ ہوگاکہ تم نے دینی تعلیم کے حصول میں کبھی دلچسپی نہیں لی،اس باب میںماں باپ کی پریشانیوں کامیں شاہدہوں،کتنی کوششیں تمہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے انہوں نے کی ہیں اس کامیں گواہ ہوں ،پھرمیں نے چاہاکہ تمہیں کوئی فن اورہنرسکھادیاجائے تاکہ تمہارامستقبل بہترہوسکے،مالی حالت اوربچوں کی کفالت کااچھاموقع ہاتھ آسکے لیکن اس کے لئے تمہیں گھرسے باہرجاناپڑتا،ممکن تھاکہ ضلع اورصوبہ سے بھی باہرجاناپڑتالیکن ماں باپ کی محبت پھرغالب آئی وہ بالکل تیارنہ ہوئے کہ تمہیں دوربھیجاجائے ،جواب میں وہ یہی کہتے تھے کہ اللہ کادیاسب کچھ ہے،زمینیں ہیں،آٹے کی چکی ہے،دوسرے چھوٹے موٹے کام ہیں ،انہوں نے تمہیں ان کاموں میں لگادیا،تم نے اچھی دلچسپی لی ،ان کاموں میں چل نکلے لیکن میں پھربھی یہی چاہتاتھاکہ تمہیں کوئی اچھاہنرحاصل ہوجائے ،میں نے تووالدصاحب سے ایک سے زائددفعہ یہ بھی کہاکہ اباجی!آپ زمینوں کی بات کرتے ہیں زمین سے صرف غلہ پیداہوسکتاہے ،غلے سے صرف پیٹ بھرسکتاہے لیکن غلہ سے دولت کہاں آپاتی ہے،غلہ کے حصول کے لئے کس قدرغلہ کھیت کے حوالہ کردیاجاتاہے،کس قدرکھادڈالی جاتی ہے،کس قدرسردی گرمی اوربرسات میں محنت کی جاتی ہے ، کس قدرخوف اوردھڑکالگارہتاہے کہ اگربارش ہوگئی توفلاں فصل کونقصان ہوگا،اگرپالاگرنے لگاتوفلاں فصل تباہ ہوجائے گی،اگرسیلاب آگیاتویہ ہوجائے گااوراگرآندھی چل پڑی توایساہوجائے گا،میں نے یہ بھی کہاکہ کلام الدین کوتجارت میں لگادیجئے کیونکہ رزق حلال کے نوحصے یعنی نوگنابرکتیں اللہ تعالیٰ نے تجارت میں رکھی ہیں لیکن والدصاحب تجارت میں بھی صرف اس لئے نہیں لگاتے تھے کہ انھیں تم سے پدری یعقوبی محبت تھی وہ تمہیں اپنے سے جداکرنے پرہی تیارنہ تھے اورپھرجب تمہاری شادی ہوئی، اخراجات بڑھے تومیرادھڑکاسچ نکلا،مالی پریشانیوں نے تمہیں آگھیرا،جب جیب پیسوں سے بھری ہوتی ہے توطبیعت ہری رہتی ہے اورجب جیب پیسوں سے خالی ہوتی ہے توزندگی خوشیوں سے عاری ہوجاتی ہے ،خیرپھرمجبوراًتمہیں گھرسے نکلناپڑاکیونکہ زمینیں دریائے گھاگھرامیں چلی گئیں ،جب کھیت نہ رہے توغلہ کاحصول مشکل ہوگیا،تم نے پہلے پہل دہلی جانے کافیصلہ کیاجہاں تمہاراایک بھانجاپہلے سے ایک فیکٹری میں نوکری کررہاتھا،تم اندازہ نہیں کرسکتے جب تم نے مجھ سے کہاکہ بھیا! تم سہارنپورجارہے ہومیں دہلی جاناچاہتاہوں تاکہ انصارکے پاس رہ کرکام کرکے دوپیسے کماسکوں اس وقت میرے دل پرجوگزری اس کااندازہ صرف بڑابھائی ہی کرسکتاہے ،میں نے ماناتم جوان تھے،عاقل بالغ تھے،ہوشیاروداناتھے لیکن بڑے اپنے سے چھوٹوں کوہمیشہ کم تجربہ کارسمجھتے ہیں اوریہی سوچ ان کے اندرہمدردی کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے چنانچہ میں نے فیصلہ کیاکہ تمہیں شاہجہانپورتک اپنے ساتھ لے چلوں وہاں دہلی جانے والی ، ٹرین میں سوارکرکے میں سہارنپورچلاجاؤں،میں تمہیں شاہجہانپورتک ساتھ لایامیں چاہتاتھاکہ مرادآبادتک ساتھ رہے لیکن ایساممکن نہ ہوا،میں نے ٹکٹ لے کرجب تمہیں ٹرین میں سوارکیاہے اورٹی ٹی کواپنی جیب سے سوروپے نکال کردئے تاکہ سلیپرکلاس میں تم دہلی تک آرام سے سفرکرسکو،ٹرین کااسٹیشن سے نکلناتھاکہ میری آنکھوں سے آنسوؤںکاچھلکناتھا۔
شادی کے بعدتوتمہاری فکراورسوچ میں حیرت انگیزانقلاب آگیاتھا،بچوں کی کفالت کے لئے تمہاری بے چینی اورفکرمندی دیکھ کرمجھے خوشی ہورہی تھی،کبھی کبھی جب تم کہتے تھے کہ میں توپڑھ نہیں سکالیکن اپنے بچوں کوضرورتعلیم دلاؤں گاتومیری خوشی کاٹھکانہ نہیں رہتاتھا،روزگاراورمزدوری کے سلسلہ میں دہلی کے علاوہ روڑکی،ہریدوار،ہماچل پردیش اورپھراخیرمیں سعودی عرب بھی گئے ،سعودی عرب جانے کی میری رائے بالکل نہیں تھی کیونکہ سعودیہ میں پڑھے لکھے لوگ ہی کامیاب ہوپاتے ہیں باقیوں سے تووہ لوگ غلاموں سے بدتررویہ اورسلوک کرتے ہیں،لیکن تم نے جب بھی بات کی تواپنی بناوٹی کھنکتی اورچہکتی آوازسے مجھے خوش فہمی میں ہی مبتلارکھا،کبھی کچھ شکوہ اورشکایت نہیں کی ،اس سے مجھے لگاکہ ممکن ہے تمہارا کفیل اچھا ہو،ممکن ہے دینی اثرات اس کے اندرموجودہوں،ممکن ہے حقوق العباد کے تعلق سے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہی سے خوف زدہ ہولیکن اب تمہارے دنیاسے اچانک چلے جانے کے بعدتمہارے بے تکلف جگری ساتھیوں نے بتایاکہ سعودیہ میں اپنے ڈھائی سالہ قیام کے دوران تمہیں بہت تکلیف اٹھانی پڑی ہے،دودوتین تین دن جنگلات میں بھوکے رہناپڑاہے،رات دن جانوروں کی طرح کام لیاگیاہے،کبھی کبھی تمہیں چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹہ ہی سونانصیب ہوسکاہے تومیری آنکھوں سے آنسونکل آئے ،اچھاہواکہ ابااوراماں پہلے ہی انتقال کرگئے ورنہ یہ بات وہ سنتے توان کے دل پرکیاگزرتی ، تم نے مجھ سے اپنی ان تکالیف کاکبھی اظہارنہیں کیاجس کی مجھے شکایت ہے،لیکن اب شکایت سے کیاہوسکتاہے،تم نے صرف اس لئے نہیں بتایاکہ مجھے تکلیف ہوگی،تم نے رازکورازمیں اس لئے رکھاکہ میں تمہیں ڈانٹتاپھٹکارتاکہ سعودیہ گئے ہی کیوں تھے،میں ہمیشہ یہی چاہتاہوں کہ کوئی شادی شدہ شخص بیوی بچوں کوچھوڑکرلمبی مدت کے لئے دورنہ جائے،روزی کامالک تواللہ ہے، انسان حرکت توکرے برکت دینے والی ذات تواللہ کی ہے ،روزی،روزگاراورکفالت یہ سب انسان کے اختیارمیں نہیں، اللہ کے اختیارمیں ہیں ،وہی رزاق ہے،وہی رازق ہے،وہی ہرچیزپرقادرہے ،رزق کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ،وہ نہ چاہے توانسان اپناکمایا ہوانہیں کھاسکتا،وہ چاہے توبن کمائے کھلائے،تمہاراذہن بہت اچھاتھا،ہرچیزسمجھنے کی تم کوشش کرتے تھے، موبائل، گھڑی،بجلی،چکی،انجن،مشینری،ویلڈنگ،تعمیری امور،زراعت کیاچیزہے جوتمہاری دسترس سے باہرہولیکن تمہاری طبیعت میں جماؤنہیں تھا،ٹھہراؤنہیں تھا،نقطۂ استقامت پرجمنانہیں تھا،اسی لئے تلاش رزق کے لئے تم سفردرسفرپھرے،زمین کوناپا،شہروں کے چکرکاٹے،ملکوں کی خاک چھانی اورڈھائی سال بعد۸۰؍دن کی رخصت پرجب گھرآنے کی اطلاع دی تومیری خوشی کاکوئی ٹھکانانہیں تھا،میں نے بھی سہارنپورسے گھرآنے کانظام بنایا،گھرپہنچاتودیکھاکہ تم گھرکے چھوٹے موٹے تعمیری کاموں میں مصروف ہو،میں کسی کومصروف دیکھ کرمسرورہوجاتاہوں چنانچہ غسل خانہ پہلے مشترکہ تھاتم نے غسل خانے کی تعمیرکی،بیت الخلاء پہلے گھرسے بیرونی حصہ میں تھاتم نے اس کواندرکیا،کچن کی توسیع کی ان تمام کاموں میں میرے مشورے پرخوب عمل کیااورمیرے دل کوبے انتہاخوشی ہوتی رہی،۲۰؍دن تک میں گھرمیں تمہارے ساتھ رہا،۲۲؍دسمبرکوجب میں آنے لگاتوتم نے اپناکام روک کرمجھ سے مصافحہ کیا،مجھے رخصت کیا،میں شاہجہانپورریلوے اسٹیشن پرپہنچ کراپنی ٹرین کاانتظارکررہاتھا،ٹرین بالکل وقت پرتھی لیکن خدائی نظام کوکون ٹال سکتاہے،اسی کے فیصلے ہرجگہ چلتے ہیں،اسی کی مصلحتیں ،اسی کی مرضی اوراسی کے اختیارات چلتے ہیں سوعین وقت پرمیری ٹرین لیٹ ہونے لگی،ایک گھنٹہ،دوگھنٹہ تین گھنٹہ اورپھراچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی،مولانامحمدمشیرنے خبردی کہ کلام الدین اپنے بچوں کے ساتھ ای رکشہ میں بیٹھ کراپنی سسرال ترکولیاجارہے تھے ،راستے میں ایک جگہ کلام الدین پچھلی سیٹ سے اگلی سیٹ پربیٹھنے لگاکہ اچانک پیرپھسل گیا،سرسڑک سے ٹکرایاکافی چوٹ لگ گئی ہے، میں نے سوچاکہ ای رکشہ سے معمولی چوٹ لگتی ہے ،ان شاء اللہ مرہم پٹی ہوجائے گی،لیکن تھوڑی دیرکے بعدپھرفون آیاکہ ڈاکٹرساجدنے بتایاکہ ہے کہ حالت نازک ہے،عیسی نگرہوسپٹل سے جواب ہوگیاہے،لکھیم پورلے جایاجارہاہے،کان اورناک سے بہت ساخون نکل چکاہے دعاکی درخواست ہے ،میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ،پھر پتہ چلاکہ لکھیم پورسے بھی جواب ہوگیاہے اورلکھنؤجارہے ہیں کلام الدین بولنے چالنے اورحرکت کرنے پربالکل قادرنہیں ہیں ۔
میں فوراً شہاہجہانپوراسٹیشن سے نکلا،میرابیٹاریحان سلمہ ساتھ تھا،میں بس اڈے پہنچاتاکہ کوئی بس مل سکے لیکن رات کوگیارہ بجے کوئی بس نہیں ملی توشاہجہانپوربائی پاس پہنچاوہاں سے بس مل گئی اوررات ساڑھے تین بجے لکھنؤپہنچ گیا،تم کودیکھاتوآکسیجن لگی ہوئی تھی،چہرے سے کرب اورتکلیف کااظہارہورہاتھا،ڈاکٹروںنے بتایاکہ کامامیں ہے ،میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی،دل کی دھڑکنیں تیزترہوگئیں،قریب کی مسجدپہنچا،نمازفجرکے بعدخوب روروکردعائیں مانگیں،آنسوبہائے،پھرجاکراپنی دعاؤں کااثر دیکھناچاہا لیکن بظاہرکوئی اثرنہیں دکھا، باربارمسجدجانا ہوا،بارباراللہ کے حضورآنسوبہانے کی توفیق ملی لیکن لگتاتھاکہ دعاؤں سے کوئی اثرنہیں ہورہاہے،ظہرکے کچھ دیربعدڈاکٹروں نے مایوسی کے ساتھ کہاکہ سرجن موجودہیں تم سے بات کرناچاہتے ہیں،میں نے سرجن سے ملاقات کی ،ڈاکٹرنے بتایاکہ مریض کی حالت میں ایک فیصدبھی سدھارنہیں ہے اورنوے فیصدتویہ سمجھیں کہ دواکی نہیں دعاکی ضرورت ہے،میں نے کہاکہ خون کی ضرورت ہوتومیں تیارہوں ،ڈاکٹرنے کہاکہ خون کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب مریض کااپنادوران خون صحیح کام کررہاہو،اس مریض کابلڈپریشربالکل کام نہیں کررہاہے ،صرف مشینوں کے ذریعہ سانسیں بحال ہیں،آپریشن بھی نہیں ہوسکتاہے،سٹی اسکین کی رپورٹ سے پتہ چلاہے کہ سرکی کچھ ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں،دماغ میں خون کے دھبے نظرآرہے ہیں،اتناسنتے ہی میراکلیجہ دھک سے رہ گیا،ناامیدی کفرہے، میں اخیرلمحہ تک خودبھی امیدلگائے،اللہ تعالیٰ سے روروکردعائیں کرتارہالیکن آخرکارڈاکٹروں نے کہہ دیاکہ آپ اپنے مریض کولے جاسکتے ہیں یہاں روکیں گے تودوسوروپے منٹ کاخرچ آئے گااورمیں نہیں چاہتاکہ آپ خواہ مخواہ روپے ضائع کریں،میں نے کہاکہ گویاآپ جواب دے رہے ہیں ،ڈاکٹرصاحب بولے کہ ایساہی سمجھ لیں،میں نے اپنے دیگرشناساڈاکٹروں سے یہ بات بتائی وہ دیکھنے بھی آئے اورانہو ں نے بھی یہی کہاکہ گھرلے جاناہی بہترہے ،مریض اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہاہے،چنانچہ آکسیجن والی ایمبولینس کرکے لکھیم پورپہنچا،وہاں سے ایک اورآکسیجن سیلنڈرلیاتاکہ آکسیجن کی کمی نہ ہونے پائے ،رات دس بجے گھرپہنچے،آکسیجن لگی رہی،بوتل چلتے رہے ،رات تین بجے آکسیجن مشین نے کام کرناچھوڑدیا،یقین ہوگیاکہ تم ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکے ہو،لیکن گھروالوں کورات تین بجے کیسے بتاتاکہ کتنابڑاحادثہ ہوچکاہے،کاماکے مریض کے بارے میں جلدی کوئی فیصلہ نہیں لیاجاسکتا،اس لئے ڈاکٹرساجدصاحب کوبلایاگیا،انہوں نے کہاکہ مریض توجاچکاہے پھربھی یقین کے لئے ای سی جی کرالیں ،چنانچہ فوراتمہیں لے کرکھمریاپہنچے وہاں بھی مشین نے تصدیق کردی۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون
۲۴؍دسمبر۲۰۲۱ء رخصت ہورہاتھا،ہمیں کیامعلوم تھاکہ تم بھی اتنی جلدی رخصت ہوجاؤگے۔یہ ترتیب بڑی عجیب ہے کہ بڑے اپنے چھوٹوں کوکاندھادیں ،لیکن اللہ احکم الحاکمین بھلاترتیب کاکہاں پابندہے ،اس کی ذات عالی ہے ،ہرقسم کے فیصلے اسی قبضہ وتصرف میں ہیں وہ جوچاہے کرے اسی کوزیب دیتاہے۔
حادثاتی موت تھی،شہادت کی موت تھی،جمعہ کابابرکت دن تھا،تمہاری نمازجنازہ میری خواہش اورفرمائش پرمیرے استاذحضرت مولاناحفظ الرحمن نعمانی نے پڑھائی،تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری نمازجنازہ میں کتنی بڑی تعدادشریک تھی جی ہاں اتنے لوگ شریک تھے کہ اس سے پہلے کبھی اس چھوٹے سے گاؤں میں کسی کی نمازجنازہ میں اتنی بڑی تعدادمیں لوگ شریک نہیں ہوئے۔
کلام الدین !مجھے تم سے شکایت ہے، تم ہرچیزمیں جلدبازی کرتے تھے ،اس چیزمیں بھی جلدبازی کی،تم سے بڑے ہم تین بھائی تھے لیکن ہم تینوں کوروتابلکتاچھوڑگئے،تمہارے چاروں بچے کتنے چھوٹے ہیں ان میں سے تین بچوں کوتوپتہ ہی نہیںہے کہ ان پرکتنابڑاحادثہ گزرچکاہے، تمہاری سب سے بڑی بچی شاہین صرف دس سال کی ہے اوروہی اس حادثہ سے صحیح طورپرواقف ہے،تمہاراچارسال کاچھوٹابچہ صفوان پہلے کی طرح کھیل کودرہاہے اورسمجھ رہاہے کہ ابوجی سعودیہ چلے گئے ہیں ۔تمہاراتیسرابچہ ارسلان ایک دن زبردستی میرے ساتھ تمہاری قبرپرگیااور تمہاری قبرکی طرف اشارہ کرکے مجھ سے پوچھاکہ میرے ابویہاں کیاکررہے ہیں؟یقین کروکہاں تک ضبط کروں،کس طرح ضبط کروں،بچے وقتاًفوقتاًایسی باتیں کردیتے ہیں کہ آنکھیں آنسوؤں کوروکنے پرقادرنہیں رہتیں۔
خداکرے تم اپنی قبرمیں شہادت کے مزے لوٹو،حادثاتی موت پرشہیدکااجراورشہیدوں کے ساتھ ان شاء اللہ حشرہوگایہ ہمارے نبی کاپاک ارشادہے ،تمہارے بچے ایک امانت ہیں ،ہم اس امانت کی حفاظت اورتربیت کے پابندہیں ۔
اللہ کے شکرسے تمہارے لئے سیکڑوں جگہ دعائیں ہوئی ہیں،قرآن کریم کے ختم ہوئے ہیں،دعائیں اب بھی ہورہی ہیں جن کافیض اورثواب تم کوان شاء اللہ پہنچ کردرجات میں ترقی کاسبب بنے گا۔
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔صبرکی دولت سے نوازے۔تمہارے بچوں کی بہترکفالت کے غیب سے اسباب پیدافرمائے۔

غمگین
ناصرالدین مظاہری
استاذمظاہرعلوم(وقف)سہارنپور
۲۹:دسمبر2021
 
Top