زکوۃ کب فرض ہوئی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
زکوۃ کی فرضیت

1) زکوۃ کب فرض ہوئی:

زکوۃ کی صحیح فرضیت یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں ہی مکہ مکرمہ کے اندر اس کی فرضیت سے متعلق آیت نازل ہو چکی تھی۔ سورۃ المزمل میں ارشاد ہے

و اقیموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ

اور قائم کرو نماز کرو اور زکوۃ ادا کرو (سورۃ المزمل 20)

علامہ ابن کثیر اس سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ سورت بالکل ابتدائی وحی کے زمانے کی سورتوں میں سے ہے اس میں نماز کے ساتھ زکوۃ کا بھی حکم ہے۔

روایات حدیث سے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں زکوۃ کے لیے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی بلکہ جو کچھ مسلمان کی اپنی ضرورتوں سے بچ رہے وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا، نصابوں کا تعین اور مقدار زکوۃ کا بیان بعد میں ہجرت مدینہ طیبہ میں ہوا اور پھر زکوۃ و صدقات کی وصول یابی کا نظام محکمانہ انداز تو فتح مکہ کے بعد عمل میں آیا ہے۔

ہجرت حبشہ کے دوران حضرت جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا

و یامرنا بالصلاۃ و الزکاۃ والصیام

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کی فرضیت ہجرت سے قبل نازل ہو چکی تھی۔ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ زکوۃ کی فرضیت ہجرت مدینہ کے بعد 2 ہجری میں ہوئی۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ زکوۃ کی فرضیت 9 ہجری ہوئی۔ اس کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔

2) مکی دور کی زکوۃ کی نوعیت:

مکی دور میں جو زکوۃ تھی وہ مطلق تھی اور اس میں حدود اور قیود نہیں تھیں اور اس کا دار و مدار افراد کے ایمان، ان کے شعور اور ان کے احساس اخوت پر تھا۔ اس وقت مومنین کے ساتھ حسن سلوک میں کبھی کم خوچ کرنا پڑتا اور کبھی زیادہ خرچ کرنا پڑاتا تھا۔

مکی دور میں نازل ہونے والے قرآن کریم کے چند اسالیب سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم نے ایک مخصوص انداز میں فقیروں اور مسکینوں کی دیکھ بھال کی دعوت دی ہے اور مالداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے انھیں کچھ حقوق ادا کریں تا کہ غریب و مسکین مؤمنین معاشرے میں ضائع نہ ہو جائیں۔

3) مدینہ منورہ میں زکوۃ کی نوعیت:

مکی دور میں مسلمانوں کی دعوت اسلام انفرادی تھی۔ اس بنا پر وہ اس معاشرے سے کٹ گئے تھے۔ جبکہ مدینہ منورہ میں تو مسلمان ایک منظم اجتماعی صورت اختیار کر چکے تھے۔ اسلامی ریاست تشکیل پا گئی تھی اور ان کا اقتدار قائم ہو گیا تھا اس لیے اسلامی ذمہ داریوں نے بھی اس نئی صورت حال میں تعمیر اور اطلاق کی جگہ تحدید اور تخصیص کی صورت اختیار کر لی اور جو پہلے راہنمائی کرنے والی ہدایات تھیں وہ اب لازمی قوانین کی صورت اختیار کر گئیں اور ان قوانین کے نفاذ کے لیے ایمان اور یقین کے ساتھ ساتھ اقتدار اور قوت سے کام لینا بھی نا گزیر ہو گیا تھا۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں زکوۃ فرض تھی اور اس کی فرضیت کی شرائط اور اس کی لازمی مقداروں کا تعین فرما دیا گیا تھا، اس کے مصارف مقرر کر دیئے گئے اور اس کی تنظیم اور اس کے دائرہ کار کا ایک لائحہ عمل مقرر فرما دیا گیا۔
 
Top