زکوۃ کا حکم

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
زکوۃ کا حکم

جیسا کہ زکوۃ اسلام کا ایک بڑا رکن ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے اس لیے زکوۃ کا انکار کرنے والا کافر اور زکوۃ ادا نہ کرنے والا فاسق اور شدید ترین گنہگار ہوتا ہے۔

1) زکوۃ کی مشروعیت ازروئے قرآن:

زکوۃ کی مشروعیت و فرضیت کا ذکر قرآن مجید میں بتیس جگہ نماز کے ساتھ کیا گیا ہے اور قرآن کریم مین بہت سارے ایسے مقامات ہیں جہاں زکوۃ کا علیحدہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

وَاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرَّاكِعِيْنَ۝

اور نماز قائم کرو اور زکوۃٰ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع (البقرۃ 43)

وَّاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ

اور نماز قائم کرو اور زکوۃٰ دو (البقرۃ 83 )

وَاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْـرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝

اور نماز قائم کرو اور زکوۃٰ دو ،اور جو کچھ نیکی سے اپنےواسطے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں پاؤ گے، بے شک اللہ جو کچھ تم کرتے ہو سب دیکھتا ہے۔

(البقرۃ 110 )

وَاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ وَاَقْرِضُوا اللّـٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھی طرح (اخلاص سے) قرض دو، (سورۃ المزمل 20)​

ان آیات میں نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نماز بدنی عبادت ہے اور زکوۃ مالی عبادت ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے۔ نماز میں اللہ تعالی کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ نفس میں رجوع الی اللہ اور تواضع پیدا ہوتی ہے۔ زکوۃ سے نفس کی کنجوسی دور ہوتی ہے اور مال کا خبث بھی دور ہوتا ہے۔ لہذا زکوۃ کی ادائیگی اپنے مالک حقیقی کا حق سمجھ کر اور اپنی بہتری اور بھلائی کا ذریعہ سمجھ کر خوشنودی کے ساتھ ادا کرنی چاہیے اور اس کو بوجھ نہ سمجھا جائے۔

وَجَعَلَنِىْ مُبَارَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ ۖ وَاَوْصَانِىْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا۝

اور مجھے با برکت بنایا ہے جہاں کہیں ہوں، اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی ہے جب تک میں زندہ ہوں۔ (مریم 31 )​

کسی چیز کا حکم جب زیادہ تاکید کے ساتھ کیا جائے تو اس کو وصیت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس جگہ فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے نماز اور زکوۃ کی وصیت فرمائی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ بڑی تاکید سے ان دونوں چیزوں کا مجھے حکم دیا۔اس لیے زکوۃ کی ادائیگی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

2) زکوۃ کی اہمیت از روئے حدیث:

زکوۃ کی اہمیت کے حوالے سے سینکڑوں احادیث موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں،

1: ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بہت اہم ضرورت ہے۔

''سنو اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹہھراؤ۔ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور صلہ رحمی کرو''۔

2: واقد بن محمد روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان اور مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے کہ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے''۔

3: ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوتا تو وہ مجھے اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم میرے پاس رہو میں تمھیں اپنے مال سے کچھ حصہ دوں گا۔ لہذا میں دو مہینے ان کے پاس رہا۔ بعد ازاں انہوں نے ایک روز مجھ سے کہا کہ قبیلہ عبد القیس کے لوگ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کہا کہ تم کس قوم سے ہو؟ وہ بولے ہم ربیعہ کے خاندان سے ہیں۔ پھر ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سوائے ماہ حرام کے آپ کے پاس نہیں آ سکتے کیونکہ آپ کے اور ہمارے درمیان کفار مضر کا قبیلہ رہتا ہے لہذا آپ ہم کو کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس پر عمل کر کے جنت میں داخل ہو جائیں اور ان لوگوں نے آپ سے پینے کی چیزوں کی بابت بھی پوچھا کہ کون سی حلال ہیں اور کونسی حرام ہیں۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''تم لوگ جانتے ہو کہ صرف اللہ پر ایمان لانا کس طرح ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب واقف ہے، آپ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان کو نماز پڑھنے، زکوۃ دینے اور رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا اور اس بات کا حکم دیا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال میں) دے دیا کرو اور چار چیزوں سے ان کو منع کیا، حنتم سے اور دبا اور نقیر سے اور مزفت سے ( اور کبھی ابن عباس مزفت کی جگہ مقیر کہا کرتے تھے ) اور آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو یاد کر لو اور باقی لوگوں کو ان کی تعلیم دو''۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد کو زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔

3) زکوۃ کی فرضیت اجما‏‏ع سے:

تمام فقہاء اور مجتہدین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زکوۃ فرض ہے اور اسی وجہ سے صحابہ اکرام، زکوۃ کا انکار کرنے والوں سے جہاد پر متفق ہوئے تھے کیوں کہ وہ لوگ زکوۃ کی فرضیت کا انکار کر کے مرتد ہو گئے تھے۔ (اسلام کا قانون زکوۃ و عشر)
 
Top