زکوۃ کے وجوب کے اسباب

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
زکوة کے وجوب کے اسباب

زکوۃ کے وجوب کے اسباب، اس کی شرائط بھی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

1: آزاد ہونا:

زکوٰۃ آزاد اور خود مختار پر فرض ہے، غلام پر نہیں۔ یہ زکوۃ کے وجوب کے لیے پہلی شرط بھی ہے۔ البتہ جمہور فقہاء کے ہاں غلام اگر صاحب نصاب ہو تو آقا اس کی طرف سے زکوۃ ادا کرے گا۔ کیونکہ غلام کے مال کا حقیقی مالک اس کا آقا ہوتا ہے۔

2: مسلمان ہونا:

زکوٰۃ مسلمان پر فرض ہے، کافر اور مرتد پر نہیں۔ کیونکہ زکوۃ کا مقصد مال کو پاک کرنا ہے جبکہ کافر کے مال کو پاک کرنا شریعت کا مقصود نہیں اور زکوۃ میں نیت بھی ضروری ہے جبکہ کافر کی نیت کا اعتبار نہیں۔

3: بالغ و عاقل ہونا:

زکوٰۃ بالغ مسلمان پر فرض ہے، نابالغ زکوٰۃ کی فرضیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔ ‎زکوٰۃ عاقل مسلمان پر فرض ہے، دیوانے پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

4: مال کا قابل زکوۃ ہونا:

شریعت نے ہر مال میں زکوۃ کو واجب نہیں کیا بلکہ مخصوص اموال متعین کر دیئے ہیں کہ انہی میں زکوۃ واجب ہو گی۔ چنانچہ درج ذیل اقسام کے اموال میں زکوۃ واجب ہو گی۔

1: سونا چاندی، چاہے ڈھلے ہوئے ہوں یا خام حالت میں ہوں۔ اس طرح جو سونا اور چاندی کا قائم مقام بن جائے اور سونا اور چاندی کا کردار ادا کریں اس پر بھی زکوۃ واجب ہے جیسے کہ آج کل کی جدید کرنسی، روپیہ، ڈالر وغیرہ۔

2: معدن، دفینہ، ان پر بھی زکوۃ واجب ہے۔

3: سامان تجارت

4: غلہ اور پھل

5: چرنے والے پالتو جانور

5: مال کا صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہونا:

مال صاحبِ نصاب کے تصرف میں ہو تو تب ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہے مثلاً کسی نے اپنا مال زمین میں دفن کر دیا اور جگہ بھول گیا اور پھر برسوں بعد وہ جگہ یاد آئی اور مال مل گیا، تو جب تک مال نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ وہ اس عرصہ میں نصاب کا مالک تو تھا مگر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے پورے طور پر مالک نہ تھا۔

6: صاحبِ نصاب کا قرض سے فارغ ہونا:

مثلاً کسی کے پاس مقررہ نصاب کے برابر مال تو ہے مگر وہ اتنے مال کا مقروض بھی ہے تو اس کا مال قرض سے فارغ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

7: نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا:

حاجتِ اصلیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو زندگی بسر کرنے میں بعض بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے بلحاظ موسم کپڑے اور دیگر گھریلو اشیائے ضرورت جیسے برتن، وغیرہ۔ اگرچہ یہ سب سامان زکوٰۃ کے مقررہ نصاب سے زائد مالیت کا ہی ہو مگر اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب مال و سامان حاجتِ اصلیہ میں آتا ہے۔

اس مال میں زکوۃ واجب ہوگی جو انسان کی حاجات اصلی یعنی بنیادی ضروریات سے زائد ہو لہذا جو مال ضروریات کا ہے وہ مقدار میں جتنا بھی زیادہ ہو اس مال میں زکوة واجب نہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی کے پاس چار گاڑیاں اور چاروں اس کے ضرورت اور استعمال کی ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہیں۔

8: مالِ نصاب کی مدت:

نصاب کا مال پورا ہوتے ہی زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی بلکہ ایک سال تک وہ نصاب مِلک میں باقی رہے تو سال پورا ہونے کے بعد اس پر زکوٰۃ نکالی جائے گی۔

9: مال نامی کا ملکیت میں ہونا

مال نامی وہ مال ہے جس میں بڑھوتری اور اضافہ ہو یعنی وہ مال اس قابل ہو کہ اس میں بڑھوتری ہو سکتی ہو۔ چاہے حقیقتا بڑھوتری اور اضافہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو جیسے سونا، چاندی، مال تجارت وغیرہ اس قسم کے اموال بڑھوتری اور اضافے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا یہ اموال مال نامی کہلائیں گے۔

10: مال میں واجب الادا قرض نہ ہو:

اس کا مطلب ہے وہ بندہ کسی کا اتنا مقروض نہ ہو کہ اگر وہ قرض ادا کر دے تو باقی مال نصاب کو نہ پہنچتا ہو۔ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت کے برابر نہ ہو تو اس شخص پر اس مال میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔

اس قرض سے مراد وہ قرض ہے جو بندوں میں سے کسی کو دینا ہو۔ کسی شرعی مالی حکم کو پورا کر نا اگر باقی ہو جیسے کفارہ یا نذر یعنی جو بندے کے ذمہ اللہ کی طرف سے کوئی مالی ادائیگی واجب ہو، وہ مراد نہیں بلکہ صرف بندوں کا قرض اگر ہو تو اس کو منہا کر کے دیکھا جائے گا کہ بقیہ مال نصاب کو پہنچنے کی صورت میں زکوۃ واجب ہو گی ورنہ مال حاجات اصلیہ سے زائد ہو۔

ضروریات سے مراد:

حاجات اصلیہ سے مراد انسان کی شخصی ضروریات ہیں جو زمانہ اور مقام اور اشخاص کے اعتبار سے تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں فقہاء نے حاجات اصلیہ کی درج ذیل تعریف کی ہے:

حاجت اصلیہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انسان کو ہلاکت سے بچائیں کبھی تو حقیقتا بچائیں گی جیسے رہائشی مکانات، آلات دفاع یعنی اسلحہ وغیرہ نیز ٹھنڈک اور گرمی سے بچنے کے لئے کپڑے وغیرہ اور کبھی یہ تقدیرا ہلاکت سے بچائیں گے یعنی براہ راست تو نہیں لیکن بلواسطہ وہ زندگی بچانے کا سبب ہیں۔ جیسے صنعتی آلات، مکان کے اندر ضروری سامان و فرنیچر وغیرہ، سواری کے جانور اور علماء کے لیے کتابیں وغیرہ۔ لہذا حاجت اصلیہ میں انسان کی ضرورت کو پورا کرنے والی تمام چیزیں داخل ہیں۔

فقہاء کی تعریف کو پڑھنے سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس سے مراد بہت ضروری اور بالکل بنیادی اشیا ہیں جو ہلاکت سے بچائیں۔ لیکن در حقیقت اس سے مراد حقیقتا ہلاکت نہیں ہے۔

اسی لئے اہل علم کے لیے کتاہیں بنیادی ضرورت میں شامل کی گئیں ہیں۔ حالانکہ وہ ایسی چیز نہیں جس کے بغیر عالم کی زندگی ہی ممکن نہ رہے۔

فتاوی ہندویہ میں مذکور ہے۔

فان الجہل عندہم کالہلاک

کہ علماء کے لیے جہالت ہلاکت کی طرح ہے

نیز علامہ کاسانی نے بھی نقل کیا ہے۔

اس سلسلے میں اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس میں جہاں زمانہ اور مقام کے اعتبار سے تفاوت فطری بات ہے اسی طرح اس میں اشخاص کے اعتبار سے تفاوت اور فرق بھی فطری بات ہے۔ لہذا کتاہیں عالم کے لئے ضرورت کی چیزیں ہیں اور عالم پر اس کی زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔ یہی کتابیں کسی غیر عالم جابل کے پاس ہوں تو یہ کتابیں اس کی ضرورت سے زائد اشیاء میں شامل ہوں گی۔

اور اچھی سواری کسی زمانے میں اگر ضرورت سے زائھ متصور ہوتی ہو گی لیکن موجودہ زمانے میں وہ بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔

ضرورت سے زائد کی یہ شرط اس لیے ہے کہ زکوة آسودہ حال اور امیر لوگوں پر واجب ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

توخذ من اغنيائهم فترد في فقرائهم

کہ زکوۃ مسلمان امیروں سے لے کر مسلمان فقراء میں تقسیم کی جاتی ہے

لہذا جب وہ مال بنیادی ضرورت کا ہوگا تو امیری اور تونگری نہیں پائی جائے گی لہذا زکوۃ بھی واجب نہ ہو گی۔

مال نامی کی شرط کا اثر:

چونکہ زکوہ میں مال نامی کی شرط ہے لہذا درج ذیل اموال میں زکوۃ واجب نہ ہوگی۔

1: گمشده مال اگر وہ سالہا سال کے بعد ملے اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

2: جو مال سمندر میں گر جائے اور سالہا سال کے بعد ملے اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

3: اگر کسی نے مال چھین لیا اور مالک کے پاس اپنے مال کو عدالت میں ثابت کرنے کے لئے معتبر ثبوت نہ ہو اور پھر وہ مال سال بعد مل جائے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

دلیل:

مندرجہ بالا اموال میں زکوۃ واجب نہ ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے

آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لا زكوة في مال الضمار

پوشیده اموال میں زکوۃ واجب نہیں

الضمار سے مراد وہ مال جس سے انتفاع اور نفع حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔ اس مال میں زکوۃ واجب نہیں۔
 
Top