مصارف زکوۃ، معنی و مفہوم اور اقسام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مصارف زکوۃ کا معنی:

مصارف جمع ہے مصرف کی۔ صرف المال کا مطلب ہے مال خرچ کرنا

اصطلاح میں مصارف سے مراد وہ جہت جس میں زکوۃ کو خرچ کیا جاتا ہے۔ اور مصارف زکوۃ سے مراد ہے زکوۃ کے مستحقین۔

مصارف زکوۃ:

مصارف زکوۃ کو قرآن کی درج ذیل آیت میں بڑی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO

’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔(سورۃ التوبہ 60 )

اس آیت سے ایک تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالداروں کے مال میں سے جو صدقہ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے یہ کوئی ان کا احسان نہیں بلکہ فقراء کا ایک حق ہے جس کی ادائیگی ان کے ذمہ ضروری ہے۔

دوسرا یہ کہ یہ حق اللہ تعالی کے نزدیک متعین ہے یہ نہیں کہ جس کا جی چاہے جب چاہے اس میں کمی بیشی کر دے۔ اللہ تعالی نے اس معین حق کی مقدار بھی بتلانے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد فرمایا ہے اور اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ صحابہ کرام کو صرف زبانی بتلا دینے پر کفایت نہیں فرمائی بلکہ اس معاملے کے متعلق مفصل فرمان لکھوا کر حضرت عمر اور عمرو بن حزم کو سپرد فرمائے جس سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ زکوۃ کے نصاب اور ہر نصاب میں سے مقدار زکوۃ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی نے اپنے رسول کے واسطہ سے متعین کر کے بتلا دئیے ہیں۔ اس میں کسی زمانہ اور کسی ملک میں کسی کو کمی بیشی یا تغیر و تبدل کا کوئی حق نہیں۔

1) پہلا مصرف ''فقیر'':

مصارف زکوۃ میں پہلا مصرف فقیر ہے لہذا فقیر کو زکوۃ دی جائے گی۔ فقیر کون سا شخص ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں:

فقہائے شافیعہ اور حنابلہ کی رائے: ان کی رائے کے مطابق فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی مال نہ اور نہ ہی آمدن کا ایسا ذریعہ ہو جو اس کی ضروریات کو پورا کرے۔ اس کے اخراجات برداشت کرنے والا بھی کوئی نہ ہو اور یہ تمام اخراجات بنیادی ضروریات کے ہوں۔

احناف کے رائے: احناف کے ہاں فقیر وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو نصاب زکوۃ کو پہنچے۔ مثال کے طور اس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر مال نہ ہو بلکہ اس سے کم ہو تو یہ شخص فقیر کہلائے گا۔

اگر کوئی شخص ضرورت مند تو ہو لیکن محنت مزدوری یا نوکری کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور اپنی ضروریات اس طریقے سے پوری کر سکتا ہو اور پھر بھی کام نہ کرتا ہو تو جمہور فقہاء کے نزدیک اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ان حضرات کے ہاں زکوۃ لینے کے لیے جواز کی بنیاد احتیاج اور ضرورت مندی ہے اور یہ شخص خود کمانے پر قادر ہے اس لیے زکوۃ کا مستحق نہیں ہے۔

فقہائے احناف کے نزدیک اس شخص کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس کے پاس بھی نصاب کے بقدر مال نہیں ہے۔

2: دوسرا مصرف "مسکین":

مسکین بھی ضرورت مند ہی ہوتا ہے۔ فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں۔ (بدائع الصنائع 2 : 43 )

3) تیسرا مصرف "العاملین علیھا":

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ حکومت کی طرف سے ذمہ داری لگانے کی وجہ سے لوگوں سے زکوۃ جمع کرتے ہیں۔ بدائع الصنائع میں آتا ہے

ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی

’’عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی و امیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا۔ ‘‘(بدائع الصنائع 2 : 44)

اس کے ساتھ ہی فتاوی عالمگیری میں ذکر ہے کہ

امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم

’’رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ وعشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کرلیں، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہو جائیں گے‘‘۔(فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)

4) چوتھا مصرف "مؤلفتہا لقلوب":

اس مصرف کا مطلب ہے وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے۔ تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔

اس حکم کا مقصد: اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جاسکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہو گا اور بالآخر وہ اسلام میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔

مولفہ قلوب اگر کفار ہوں تو ان کو زکوۃ ادا کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے۔

مالکیہ اور حنابلہ کی رائے: ان کی رائے یہ ہے کہ ان کفار کو زکوۃ دینا جائز ہے تا کہ ان کو اسلام کی طرف راغب کیا جاسکے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان بن حرب، عینیہ بن طصن، عباس بن مرداس، صفوان بن امیہ، اقرع بن حالس میں سے ہر ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے تھے''۔

شافیعہ اور احناف کی رائے: ان کی رائے یہ ہے کہ کافر کو مال زکوۃ نہیں دیا جا سکتا اگرچہ وہ بغرض تالیف قلوب ہو یا کسی اور غرض سے۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جو زکوۃ ان کفار کو دی گئی تھی اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم تھی جبکہ دشمن کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی اور اب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کے بعد اس زکوۃ کی ضرورت نہیں رہی اس لیے زکوۃ کا مال اب کفار کو نہیں دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلفاء راشدین نے بھی مولفہ قلوب کو زکوۃ نہیں دی۔

جہاں تک مسلمان مولفہ قلوب کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ان کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ایک وجہ یہ ہے کہ ایسے مسلمان کہ جن کی نیت کمزور ہو تو انہیں صرف اس وجہ سے زکوۃ دی جائے گی کہ وہ اسلام پر پختہ رہیں۔ دوسرا یہ کہ کفار کے پڑوس میں رہنے والے رہائشی کو اس نیت سے زکوۃ دی جا سکتی ہے کہ وہ جنگ میں کفار کے شر سے مسلمانوں کو بچانے میں مدد کرے۔ تیسرا یہ وجہ ہو سکتی ہے جہاں پر عامل زکوۃ کو بھیجنا دشوار ہو تو وہاں پر کسی اور شخص جو اپنے طور پر مال زکوۃ اکٹھا کرے اس کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔

آج کے دور میں مولفہ قلوب کا نسخ:

مؤلف القلوب کے بارے میں علماء کا اختلاف چلا آرہا ہے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کو یہ سب باقی ہے یا نہیں؟

مالکی اور احناف کی رائے: مالکیہ اور احناف کا مسلک یہ ہے کہ اسلام کی سربلندی اور اس کی پوری عالم میں پھیل جانے کی وجہ سے مولفہ قلوب کو راغب کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں لہذا ان حضرات کے مطابق مولفہ قلوب کے علاوہ اب صرف سات اصناف ہی بچتی ہیں۔

حنابلہ اور شافعیہ کی رائے: ان کی رائے یہ ہے کہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے۔ جہاں تک حضرت عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنھم نے اپنے دور خلافت میں مولفہ قلوب کو زکوۃ ادا نہ کرنا ثابت ہے تو ان کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اس کی حاجت نہ رہی تھی نہ کہ یہ کہ مولفہ قلوب کا حصہ ساقط ہو گیا۔

5) پانچواں مصرف "رقاب":

رقاب سے مراد یہ ہے کہ غلام آزاد کرنے کے لئے بھی زکوۃ دی جا سکتی ہے۔

گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بنا کر ان کے گھر بار اور زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہو گئی۔ جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی۔

احناف و شوافع کے ہاں رقاب سے مراد مکاتبین ہیں۔ مکاتب سے مراد ایسے مسلمان غلام ہیں جن کو ان کے مالک نے یہ کہہ لیا ہو کہ تم اپنی قیمت ادا کرو پھر تم آزاد ہو اور اس غلام کو قیمت کی ادائیگی کے لیے کمانے کا موقع بھی دیتا ہو۔

مکاتب کو زکوۃ دینے کے لیے اس کا مسلمان ہونا لازمی ہے یا یہ کہ وہ محتاج ہو۔

6) چھٹا مصرف "غارمین":

غارمین ایسے لوگوں یا افراد کو کہا جاتا ہے جو مقروض ہوں اور قرض کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ غارمین کون لوگ ہوتے ہیں؟ اس کے بارے میں فقہاء کی درج ذیل آراء ہیں:

حنابلہ اور شوافع کی رائے:

  • اپنی ذات کے لیے قرض لیا ہو یا کسی اور کی ذات کے لیے دونوں صورتیں برابر ہیں۔
  • چاہے اس نے گناہ کے کام کے لیے قرض لیا ہو یا ثواب کے لیے۔
  • قرض آپس کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے لیا گیا ہو اور اب قرض کی ادائیگی کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو۔
مالکیہ کی رائے:

ان کے مطابق غارمین ان کو کہا جاتا ہے جن کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو لیکن ان کی شرط یہ ہے کہ قرض گناہ کے کام کے لیے نہ لیا گیا ہو۔

احناف کی رائے:

احناف کے مطابق غارمین سے مراد ایسے مقروض ہیں جن پر قرض لازم ہو چکا ہو اور قرض سے زائد مال ان کے پاس نہ ہو یعنی اس سے زیادہ مال کے مالک نہ ہوں۔

7) ساتواں مصرف "فی سبیل اللہ":

ان سے مراد ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے ہوں اور ان کی حالت یہ ہو کہ ان کو فوجی ہیڈ کواٹر وغیرہ سے کچھ رقم نہ ملتی ہو۔ وجہ ان سے مراد مجاہدین ہونے کی یہ ہے کہ سبیل جو لفظ مذکور ہے اس کا اطلاق جہاد پر ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَقَٰتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوٓاْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ

اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو، اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو (سورۃ البقرۃ 190 )

اگر مجاہد کی تنخواہ سرکاری طور پر مقرر ہو تو اس کو زکوۃ کا مال ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس صورت میں وہ زکوۃ کے مال سے بے نیاز ہوتا ہے اور اس کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کی تنخواہ سے اس کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں ۔

8) آٹھواں مصرف "ابن سبیل":

ابن سبیل مسافر کو کہا جاتا ہے یا ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو ایسے سفر کا ارادہ رکھتا ہو جو اطاعت میں ہو اور معصیت میں نہ ہو، اور اس مسافر کی مالی حالت ایسی ہو کہ وہ اپنا سفر بغیر معاونت مالیہ کے جاری نہ رکھ سکتا ہو اور اطاعت سے مراد حج، کسی عالم دین کی ملاقات وغیرہ ہے کہ یہ تبلیغ، دین اور حصول علم ہے۔

اس مسافر کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس کو بس اتنا مال دے دیا جائے کہ وہ اپنا مقصد بآسانی حاصل کر سکے اگرچہ وہ اپنے وطن میں مالدار ہی کیوں نہ ہو۔ (اسلام کا قانون زکوۃ و عشر)
 
Top