صدقہ فطر کی مشروعیت، حکمتیں اور احکام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ابتدائیہ:

صدقہ فطر کو صدقہ فطر یا زکوٰۃ الفطر اس لیے کہا جاتا ہے کہ زکوٰۃ الفطر کا مطلب ہے وہ زکوٰۃ جو رمضان المبارک کے روزے ختم ہوتے پر واجب ہوتی ہے کیونکہ فطر افطار سے ہے یعنی کھولنا، یعنی روزہ کھولنے کا صدقہ۔

صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو اس لئے فرض قرار دیا ہے کہ یہ روزہ دار کے بیہودہ کاموں اور فحش باتوں کی پاکی اور مساکین کے لئے کھانے کا باعث بنتا ہے۔

صدقہ فطر کی فرضیت:

جس سال رمضان کے روزے فرض ہوئے اسی سال صدقہ الفطر بھی فرض ہوا۔ وہ سن دو ہجری ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔ (الاعلی : 14)

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين
بے شک ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے صدقہ الفطر کو مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض کردیا ہے۔ (صحيح مسلم:984)

امام ابن منذر رحمہ ﷲ نے اس کی فرضیت پر اجماع نقل کیا ہے۔

صدقہ الفطر کو زکوٰۃ البدن اور زکوٰۃ النفس بھی کہا جاتا ہے۔ عام اردو بول چال میں فطرہ یا فطرانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

صدقہ فطر کی حکمت:

دو حکمتیں تو ایک حدیث میں مذکور ہیں۔

زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)

  • روزہ دار کی پاکی: روزے کی حالت میں روزے دار سے ہونے والی غلطیوں سے پاک ہونے کے لئے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے ۔
  • مساکین کا کھانا: عید کے دن جہاں مالدار لوگ خوشی منائیں وہیں اپنی خوشی میں شامل کرنے کے لئے ان کے ذمہ غرباء ومساکین کو فطرانہ ادا کرنا ہے تاکہ وہ بھی مسلمانوں کی عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہو سکیں۔
  • فطرانے میں مسکینوں کے ساتھ الفت ومحبت کے اظہار کے سوا، اپنے بدن کا صدقہ بھی ہے کیونکہ ﷲ سبحانہ و تعالی نے اب تک اپنی توفیق سے بقید حیات رکھا۔ اور ﷲ کی ان نعمتوں کا شکریہ بھی جو رمضان المبارک میں (روزہ، قیام، اعتکاف، لیلۃ القدروغیرہ) میسر آتے ہیں۔
زکوٰۃ اور صدقہ فطر میں فرق:

صدقہ فطر اور زکاۃ دونوں الگ الگ مستقل مالی عبادتیں ہیں۔ دونوں کا الگ الگ نصاب ہے، کسی ایک کے ادا کرنے سے دوسرا ادا نہیں ہو گا۔

صدقہ فطر ہر اس شخص پر (اپنی طرف سے اور زیرِ کفالت نابالغ اولاد کی طرف سے) لازم ہوتا ہے جو عید الفطر کے دن (یکم شوال کی) صبح صادق کے وقت ضرورتِ اصلیہ اور استعمال سے زائد اتنے سامان یا مال کا مالک ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو، خواہ وہ مال نقدی، سونا، چاندی یا مالِ تجارت کی صورت میں نہ ہو۔ اسی طرح اس کے وجوب کے لیے مال کے اوپر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔

جب کہ زکوٰۃ صرف مالِ نامی پر واجب ہوتی ہے، اور مالِ نامی سے مراد سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت، سائمہ جانور ہیں۔ مذکورہ اموال میں سے کسی ایک کے نصاب تک مال پہنچ جائے یا مختلف اموال موجود ہونے کی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک نصاب پہنچ جائے اور وہ بنیادی ضرورت سے زائد ہو تو زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے، اور سال پورا ہوجانے پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔ (زکاة اور فطرانہ میں فرق)

صدقہ فطر کی مشروعیت:

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں پر رمضان کا صدقہ فطر فرض قرار دیا ہے۔ جس کی مقدار یہ ہے کہ چھوہاروں یا جو کا ایک صاع، ہر شخص پر لازم ہے چاہے وہ آزاد ہو یا غلام ہو، مرد ہو یا عورت، شرط یہ کہ مسلمان ہو۔ صدقہ فطر کے وجب کے دلائل درج ذیل ہیں:

1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ: فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ

''حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432)

2: عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه یَقُوْلُ: کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

حضرت ابو سعید خدری رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقۂ فطر کا ایک صاع کھانا نکالا کرتے یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش میں سے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ (أخرجه البخاري في الصحیح، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/548، الرقم: 1435)

3: عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَمَرَ بِإِخْرَاجِ زَکَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ.

’’حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے۔‘‘ (أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الزکاة، باب الأمر بإخراج زکاة الفطر قبل الصلاة، 2/679، الرقم: 986)

4: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاکِیْنِ. مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.

حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔‘‘ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2/111، الرقم: 1609)

5: عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ أَبِي صُعَیْرٍ عَن أَبِیْهِ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أَدُّوْا صَاعًا مِنْ قَمْحٍ أَوْ صَاعًا مِنْ بِرٍّ عَنْ کُلِّ اثْنَیْنِ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی غَنيٍّ أَوْ فَقِیْرٍ أَمَّا غَنِیُّکُمْ فَیُزَکِّیْهِ ﷲُ وَأَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیُرَدُّ عَلَیْهِ أَکْثَرُ مِمَّا یُعْطِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَیْهَقِيُّ.

’’حضرت عبد ﷲ بن ابی صعیر رضی ﷲ عنہ اپنے باپ رضی ﷲ عنہ (سے) روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گندم کا ایک صاع (صدقہ فطر) تم میں سے ہر چھوٹے بڑے، آزاد وغلام، مرد و عورت، غنی اور فقیر ہر ایک پر فرض ہے۔ غنی کو ﷲ تعالیٰ (اس کے ذریعے) پاک کر دیتا ہے اور فقیر جتنا دیتا ہے اس کی طرف اس سے زیادہ اسے واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، عبد الرزاق اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/432، الرقم: 23714)​

صدقہ فطر کے احکام:

1) صدقہ فطر کی شرائط:


صدقہ فطر کی تین شرطیں ہیں۔

  • فطرانے کے لئے اسلام شرط ہے، اس لئے کافر پر فطرانہ نہیں۔
  • استطاعت: فطرانہ کے لئے نصاب کا مالک ہونا شرط نہیں بلکہ اس کے پاس عید کی رات اور اس دن اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے سے زائد خوراک ہو تو اسے مسکینوں کو صدقہ کرے۔
  • تیسری شرط فطرانے کا واجبی وقت ہونا ہے جوعید کا چاند نکلنے سے عید کی نماز کے وقت تک ہے۔
2) کن کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا؟

اس سلسلے میں نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔ (صحيح مسلم : 984)

اس لئے ہر مسلمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، آزاد ہو یا غلام ، مرد ہو یا عورت ان کی طرف سے فطرہ نکالنا ان کے سرپرست کے ذمہ واجب ہے۔

یتیم اور مجنوں کے پاس مال ہو تو ان کی طرف سے بھی صدقہ نکالا جائے۔

پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے مگر کوئی بطور استحباب دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

میت کی طرف سے فطرانہ نہیں ہے۔ ہاں اگر میت نے وقت وجوب (عید کا چاند نکلنے سے عید کی نماز تک) کو پا لیا تو اس کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا۔

نوکر یا نوکرانی کا فطرانہ خود ان کے ذمہ ہے، اگر اس کا مالک ادا کر دے تو ادا ہو جائے گا۔

3) فطرانے میں کیا دیا جائے ؟

جس ملک میں جو چیز بطور غذا استعمال کی جاتی ہے اسے فطرے کے طور پہ دے سکتے ہیں ۔اس سے متعلق نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے

أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ۔ (صحيح مسلم:984)

ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔

نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جو، کھجور، منقہ اور پنیر بطور غذا استعمال ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں عام طور سے چاول، گیہوں، چنا، جو ، مکی، باجرہ، جوار وغیرہ اجناس خوردنی ہیں لہذا ہم ان میں سے فطرانہ نکالیں گے۔

4) فطرانے کا مصرف:

فطرانے کا مصرف نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بتلا دیا ہے۔

زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)

صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے۔

یہ حدیث بتاتی ہے کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے۔ بعض علماء نے کہا زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں فطرانہ صرف کر سکتے ہیں مگر یہ بات مذکورہ بالا حدیث کے خلاف ہے۔

ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے ثابت ہے:

زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ۔

صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے۔

فطرانہ فقراء ومساکین کے علاوہ مسجد و مدرسہ وغیرہ پر خرچ کرنا سنت کی مخالفت ہے۔ اگر اپنی جگہ پہ فقراء ومساکین نہ پائے تو دوسری جگہ فطرانہ بھیج دے۔

5) فطرانے کا وقت:

فطرانے کے دو وقت ہے۔ ایک وقت وجوب اور ایک وقت جواز

وقت وجوب: عید کا چاند نظر آنے سے عید کی نماز تک ہے۔ اس درمیان کسی وقت مستحق کو فطرانہ دیدے۔

وقت جواز: عید سے ایک دو دن پہلے فطرہ دینا جائز ہے۔ بخاری ومسلم میں ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے :

وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين (صحیح البخاري:1511 )

کہ صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے فطرانہ ادا کرتے تھے۔

افضل وقت عید کی نمازکے لئے نکلنے سے پہلے ادا کرنا ہے کیونکہ فرضیت فطرانہ والی صحیحین کی روایت میں ہے :

وأمَر بها أن تؤدَّى قبلَ خروجِ الناسِ إلى الصلاةِ (صحیح البخاري:1503)

نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

عید کی نماز کے بعد فطرہ دینے سے ادا نہ ہو گا وہ محض عام صدقہ شمار ہوگا لیکن اگر کسی کے ساتھ بھول ہو گئی یا کسی عذر شرعی کی بنیاد پر تاخیر ہو گئی تو ﷲ تعالی ایسے بندوں سے درگذر کرتا ہے۔

6) فطرانہ دینے کی جگہ:

اس میں اصل یہی ہے کہ جو جس جگہ رہتا ہے وہیں فطرہ ادا کرے لیکن اگر وہاں فقراء ومساکین موجود نہ ہوں تو فطرہ دوسری جگہ بھیج دے۔ اسی طرح اگر کسی دوسری جگہ بھیجنے میں سخت ضرورت ہو تو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

7) صدقہ فطر کی مقدار:

صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے۔ صاع ایک پیمانہ ہے جو کہ پیالے کی شکل کا ہوتا ہے۔ جس کی جمع اصواع ہے یہ پیمانہ خرید و فروخت میں ناپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے دور میں لیٹر ہوتا ہے۔ فقہاء میں صاع کے بارے اختلاف ہے۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک 8 رطل کا ایک صاع ہوتا ہے۔ اسے صاع بغدادی کہا جاتا ہے۔ صاع درہم کے حساب سے 1040 درہم کے برابر، مثقال کے حساب سے 720 مثقال کے برابر، مد کے حساب سے 4 مد کے برابر اور استار کے حساب سے 118 استار کے برابر ہوتا ہے۔
 
Top