اسلامی فقہ کا طریقہ کار اور مسالک کے درمیان اختلاف کی نوعیت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اسلامی فقہ کا طریقہ کار اور مسالک کے درمیان اختلاف کی نوعیت

اسلام کا نظام قانون بنیادی طور پر جن پاکیزہ عناصر سے مل کر بنتا ہے وہ کلام ﷲ قرآن مجید اور سنت رسول صلی ﷲ علیہ والہ وسلم ہے۔ جو اسلامی شریعت کے مرکزی مصادر وماخذ ہیں۔ اسلامی نظام قانون فقہ و قانون کی دنیا میں عدل و انصاف، توازن واعتدال، غلو وتشدد سے اجتناب اور جامعیت و افادیت جیسی امتیازی صفات سے عبارت ہے۔

اس کی وسعت و گہرائی، سہولت پسندی، حیرت انگیز بے ساختگی، لچک اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی تمام حقیقت پسندوں کے یہاں مسلم ہے۔ اس کا دائرہ عمل پیدائش سے میراث تک اور عقائد وعبادات سے لے کر معاملات وسیاست وغیرہ کے امور تک محیط ہے۔ یہ اس کی جامعیت اور وسعت ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کا یہ عہد جدید اور مستقبل کا کوئی بھی ترقی یافتہ اور عصری تمدن اپنے مسائل و معاملات کے لیے اس کا دامن تنگ نہیں کر سکتاـ

اس کی ترتیب و تدوین اور تالیف و تنظیم ان عظیم ہستیوں اور نابغۂ روزگار علماء ومحدثین کے ہاتھوں انجام پائی جن کے ورع و تقویٰ اور خلوص و للہیت پرکوئی شبہ و کلام نہیں۔ جن کی ذہانت و ذکاوت، دانآئی و بینآئی، فقہی بصیرت، فہم وفراست، دقیق وباریک بین نگاہ اور وسیع وعمیق نظر کی دنیا کے پاس اب تک کوئی مثال نہیں۔ جن کے اخاذ ذہن اور نقاد فکر نے کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں اپنے حکیمانہ اجتہاد، فقیہانہ فہم و تدبر، مسائل کے استنباط میں روایت ودرایت پر گہری نظر اور بڑی عرق ریزی، دیدہ وری اور ژرف نگاہی کے بعد فقہی اصول ومبادی کا تعین کیا، اس طرح فقہ اسلامی کو پھلنے اور پھیلنے کا موقع میسر ایا اور تنوع و وسعت کی مزید راہیں نکل آئیں۔

فقہ اسلامی کی ان خصوصیات کی ایک اہم اور بنیادی وجہ فقہی مسائل میں مختلف مکاتب فقہ کا اختلاف ہے اور یہ یقینا امت کے لیے رحمت ہے۔ فقہی احکام میں علماء کا یہ اختلاف دراصل عہد صحابہ کے اجتہادی اختلاف ہی کا طبعی نتیجہ ہے، فروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعه اور ائمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی موجود تها اورصحابہ کرام جو دین اسلام اور قرآن و سنت نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے اولین راوی و ناقل وحامل جماعت ہے، ہم تک سارا دین انهی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے۔

لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تها تو لازم ہے کہ ان کے بعد انے والے تابعین و تبع تابعین و علماء امت کے درمیان بهی یہ اختلاف موجود ہو اور ایسا ہی ہوا کہ بعد کے ائمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا ارہا ہے۔ فقہائے امت کے درمیان مسائل فقہ میں اختلاف بھی ﷲ تعالی کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہے، یہ اختلاف محمود بھی ہے اور مطلوب بھی اور بہت سی دینی مصلحتیں اس سے وابستہ ہیں، اس لیے اس سے انکار کی گنجائش ہے نہ اس سے مفر۔ (فقہی اختلافات اور انکی حقیقت)

اختلاف کی تعریف :

اختلاف کی لغوی تعریف یہ ہے کہ

الاختلاف والمخالفة

یعنی ایک شخص حال یا قول میں دوسرے کے مخالف رائے ومَنہج اختیار کرے ۔

اصطلاح میں اختلاف یہ ہے کہ کسی کے ساتھ قول یا رائے یا حالت یا هيئت یا مُوقف میں مخالفت کرنا۔ یعنی خلاف یہ ہے کہ طرفين میں سے ہر ایک دوسرے کے مخالف ہو۔

اختلاف کی اقسام:

علماء کرام نے اسلام میں رد و قبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہی ، پہلی قسم ہے اختلاف تضاد ، دوسری قسم ہے اختلاف تَنَوُّع

1: اختلاف تضاد(Contradiction):

تَضَاد لغت میں ضد کو کہتے ہیں جمع اس کی اضداد اتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیز کے مخالف اور الٹ چیز کو کہا جاتا ہے۔ دو مَتضَاد چیزیں وه ہوتی ہیں جو اپس میں جمع نہیں ہو سکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تضَاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع نا ممکن ہو، بعض علماء نے اختلاف تَضَاد کی تعریف القَولان المُتنَافِيَان سے کی ہے۔

2: اختلاف تَنَوُّع (variety) :

تَنَوُّع کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہر وه اختلاف جس میں کئی وجوہات جائز ہوں، اور اس اختلاف میں منافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفی و ابطال نہیں کرتا بلکہ ہر قول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا، اور اس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں۔

اور پهر یہ کئی قسم پر ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک یہ کہ دونوں فعل اور دونوں قول جائز و حق ہوں جیسا کہ قرآن کی قرات جیسے کہ صحابہ کرم کے مابین ان میں اختلاف ہوا، صحیح بخاری میں آتا ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے اس کے بر خلاف پڑهتے ہوئے سنا تها یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑھ رہا تها نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا۔

لہذا میں نے اس کو نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا اور میں نے نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کو اس اختلاف کی خبر دی۔ پس میں نے نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے چہره مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکهے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں۔

علامہ طيبي رحمه الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو نبی صلى الله عليه وسلم سے سنا وه اس میں درست ہے۔ (آئمہ مجتہدین کے مابین اختلافات کے اسباب)

اسی طرح حدیث میں ایا ہے کہ

ولا تبیعوا الثمر حتی جھدو صلاحہ

پھل کو اس وقت تک نہ بیچو جب تک اس کی صحت (صلاح) ظاہر نہ ہو جائے

اہل حدیث کا قول ہے کہ یہاں صلاح سے مراد پھل کی پختگی اور شیرینی کا ظاہر ہونا ہے لہذا بیع اس وقت تک ناجائز ہے جب تک کہ پھل پک نہ جائے۔ مگر اہل الرائے کے نزدیک یہ بیع جائز ہے کیونکہ اس کے نزدیک صلاح سے مراد یہ ہے کہ درخت کیڑے اور خرابی سے محفوظ ہو۔

اختلاف کی نوعیت:

اجمالی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلک فقہ کا باہمی اختلاف اصولی اور بنیادی تعلیمات میں نہیں تھا بلکہ بالعموم فروع میں تھا کہ اصولی قواعد کو عملی قضایا پر کیسے منطبق کیا جائے۔ لہذا مسالک کا اختلاف آج کل کی عدالتوں کے اس اختلاف کی مانند ہے جو ان کے ہاں بعض نصوص اور قواعد کی تشریح اور توضیح میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ کسی چیز کے غاصب پر اس چیز کا بعینہ واپس کرنا واجب ہے۔ اگر غاصب سے وہ چیز تلف یا ضائع ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ حتی الامکان اس کی مثل دے ورنہ اس کی قیمت ادا کرے۔ لیکن چونکہ اشیاء کی قیمتیں زمانے اور مقام کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں اس لئے وقت اور مقام کی قید بھی واجب ہوئی جن کے اعتبار سے غصب شدہ چیز کی قیمت مقرر ہوتی ہے۔

احناف کا قول ہے کہ اس بارے میں اس وقت اور مقام کا لحاظ رکھا جائے گا جب وہ چیز غصب ہوئی اور حنبلی اس مقام اور وقت کا اعتبار کرتے ہیں جب وہ چیز تلف ہوئی۔ مگر شافعی مذہب کے مطابق غاصب اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ مغصوب الہ کو غصب شدہ چیز کی وہ قیمت ادا کرے جو وقت غصب سے لے کر تلف ہونے تک سب سے زیادہ تھی۔

اختلاف کی اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ تمام فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ غاصب پر غصب شدہ چیز کی قیمت یا اس کی مثل کا ادا کرنا واجب عین ہے لیکن وہ ان تفصیلات کے بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں جن کا تعلق اس چیز کی قیمت کا اندازہ کرنے سے ہے۔

اختلاف کی شروعات:

مختلف مسالک کے اماموں کا یہ اختلاف ان کے شاگردوں میں قائم نہیں رہا، کیونکہ ایک امام کے بہت سے شاگردوں نے دوسرے شہروں کا سفر کیا اور دوسرے اماموں اور ان کے شاگردوں سے مل کر ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا اور ان کے درمیان مباحثے بھی ہوئے۔ (شریعت اسلامیہ کا تعارف)

اختلافات کے اثرات:

اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام اپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکهتے تهے اور ایک دوسرے کو گمراه اور غلط وباطل نہیں کہتے تهے۔ اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات اور مثالیں موجود ہیں۔

ایک مثال عرض ہے۔ امام مالك بن انس نے اهل المدينه یعنی اولاد صحابه سے علم حاصل کیا اور اسی علم کو اپنی کتاب موطا میں جمع کیا، امام الشافعی رحمه الله نے امام مالك بن انس سے شرف تلمذ حاصل کیا اور ان سے علم حاصل کیا اور ان کی احادیث کو روایت کیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود امام الشافعی رحمه الله نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں امام مالك بن انس کی مخالفت کی، لیکن کبهی بهی امام مالك کے اجتہاد کو غلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ، انا مجتهد وهو مجتهد ولكل مجتهد نصيب، یعنی میں بهی مجتہد ہوں اور امام مالك بهی مجتهد ہے اور ہر مجتهد کا اپنا نصیب وحصہ ہے۔

اور جب امام الشافعی رحمہ الله سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ہم امام مالك کے مُقلد کے پیچهے نماز پڑھ سکتے ہیں؟ تو امام الشافعی غصہ ہوئے اور فرمایا کہ الستُ اصلي خلف مالك ؟ کیا میں امام مالك کے پیچهے نماز نہیں پڑهتا؟ یعنی امام مالك تو میرے شیخ و استاذ ہیں لہذا میں ان کے پیچهے نماز پڑهتا ہوں اگرچہ میں نے بعض امور اجتہادیہ میں ان کی مخالفت کی ہے۔

اختلاف کے چند اسباب:

1: لغت عربيہ کی اسالیب اور الفاظ کا معانی پر دلالت میں اختلاف:


عربی زبان دنیا کی سب سے بڑی فصیح وبلیغ و وسیع و ادق ترین زبان ہے عربی زبان میں موؤل ومشترك، حقیقت ومجاز، عموم وخصوص، صریح و کنایہ وغیره اصطلاحات بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ اسی بناء پر اجتہاد و استنباط بهی مختلف ہوجاتا ہے۔ مثلا الله تعالی کا فرمان مبارک ہے

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِانْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ (البقرة)

اب اس آیت میں ائمہ مجتهدین و فقهاء اسلام کا لفظ ''قُرُوءٍ'' میں اختلاف ہوا ہے۔ قُرُوءٍ جمع ہے قرءَ کی اور لغت میں "القرء"کا نام حيض و طهر ( پاکی ) دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن یہاں آیت میں کون سا معنی مراد ہے؟ تو آئمہ مجتهدین کا اس میں اختلاف ہے۔

احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں "القرء" سے مراد حیض ہے اور شوافع فرماتے ہیں کہ یہاں اس سے مراد طهر ( پاکی ) ہے۔ یاد رہے کہ حضرت عمر، حضرت علی اور عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنھم وغیرہ اور اہل کوفہ نے "ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ" سے حیض مراد لیا ہے اور حضرت عائشہ، ابن عمر اور زید بن ثابت رضی ﷲ عنھم وغیرہ اہل حجاز نے "طہر" مراد لیا ہے۔

2: کسی حدیث یا کسی راوی کی صحت وضعف پر اختلاف :

جیسا کہ معلوم ہے کہ قرآن الكريم کے بعد سنت مطہرة اسلام کی دوسری بڑی بنیاد واساس ہے اور یہ سنت مطهرة و احادیث مبارکہ ہماری طرف مختلف رجال کے واسطہ سے پہنچے ہیں، اور یہ سب چونکہ بشر وانسان تهے بشری تقاضوں سے ماوراء نہیں ہیں، اور حدیث وسنت ہمارا دین ہے، اس لیے علماء امت نے انتہائی سختی کے ساته ایسے حضرات کی جانچ پڑتال کی جو حدیث وسنت روایت کرتے ہیں اور اس باب میں انتہائی سخت شرائط واصول وقواعد متعین کیے اور یہ شرائط واصول چونکہ اجتہادی تهے۔

اس لیے محدثین کے مابین اس باب میں اختلاف واقع ہوا۔ چونکہ پایہ ثبوت اور درجہ استخراجِ مسائل وغیرہ سے متعلق ہر محدث کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ ایک محدث اپنے اصول کے لحاظ سے کسی راوی کی توثیق کردے اور دوسرا اپنے اصول کے اعتبار سے نقد وتحقیق کے بعد اسی راوی کی تضعیف کر دے۔

3: افہام و عقول وعلوم میں تفاوت کا اختلاف:

یہ ایک طبعی امر ہے کہ لوگ علم و فہم وعقل و سمجھ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ائمہ اسلام و علماء امت کا حال ہے لہذا اسی وجہ سے دلائل شرعیہ سے احکام مُستنبط کرنے اور اجتہاد کرنے میں اختلاف واقع ہوا ۔ مجتہد نص کی نوعیت واضح طور پر سمجھ نہ پائے، یانص میں کوئی متحمل لفظ ہو یا اس قدر مجمل ہو کہ مراد واضح نہ ہوتی ہو، کبھی مجتہدین کے فہم وفراست میں فرق وتفاوت سے بھی مسائل میں اختلاف ممکن ہے۔

4: ظنی نص یعنی غير قطعی نص کا مطلب ومراد سمجهنے میں اختلاف:

یعنی کبهی کسی نص ظنی ( قرآن وسنت کے کسی حکم ) کا معنی پوشیده ہوتا ہے یا تاویل کا احتمال رکهتا ہے تو یہ بهی ائمہ مجتهدین کے مابین اختلاف کا سبب ہے، اور یاد رہے کہ الله تعالی نے احكام شرعية کے تمام دلائل کو قطعی نہیں بنایا بلکہ اكثر احكام شرعية کو ظنی الدلالة بهی بنایا ہے تاکہ لوگوں کے لیے مكلفين کے لیے آسانی اور وسعت حاصل ہو، اور اجتهاد واستنباط کی صلاحیت رکهنے والے افراد کے لیے میدان و مجال وسیع ہو، اور اس میں افهام وعقول میں تفاوت کا احترام و رعآیت بهی ہے۔

5: بعض مصادر التشريع و دلائل كى تعيين میں اختلاف:

یعنی جب کسی مسئلہ میں كتاب الله یا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کوئی نص قاطع کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں آئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے، جیسے استحسان، مصالح المرسلة، قول الصحابی، عمل اهل المدينة، وغیره ذالک۔ ان میں سے بعض کو بعض آئمہ مجتهدین حجت ودلیل مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے، جیسا کہ کتب اصول الفقہ میں پوری تفصیل موجود ہے۔

6: مختلف نصوص و دلائل کے مابین جمع و ترجیح میں اختلاف:

کبهی ایسا ہوتا ہے کہ ایک نص ثابت ہوتی ہے اور علماء کا اس کے ثبوت پر اتفاق ہوتا ہے لیکن اختلاف و اعتراض اس وقت ہوتا ہے جب ظاہری طور پر اس نص کے معارض ومخالف کوئی دوسری صحیح نص موجود ہو۔

تو پهر اس صورت میں آئمہ مجتهدین و فقها اسلام کے مابین جمع و ترجیح کے طریقوں میں اختلاف واقع ہوجاتا ہے، یعنی مثلا دو صحیح دلائل آپس میں بظاہر متعارض ہوں تو ان کے درمیان جمع و ترجیح کے مختلف طریقے ہیں، جیسے عام وخاص، ومطلق ومقيد، وناسخ ومنسوخ، امر ونہی، وغیره ذالک کی دلالت کا اختلاف۔

7: قواعد ومبادی الاصوليه میں اختلاف:

یعنی وه قواعد واصول جن کو آئمہ مجتهدین نے اپنے اجتهادات سے وضع کیا ہے جس کی بناء پر مجتهدین کی مختلف آراء ہوتے ہیں لہذا یہ بهی اختلاف کا سبب ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اجتہادی اصول و قواعد اور استخراج کے مصادر میں اختلاف کی یہ کڑی فقہ اسلامی میں اختلاف کی اہم ترین وجہ ہے اور اختلاف فقہا پر اس کے گہرے اثرات ہیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام مالک کے یہاں تعامل اہل مدینہ حجت اور دلیل شرعی ہے آپ نے اپنے اصول "حجیت تعامل اہلِ مدینہ" کی روشنی میں حضرت عبدﷲ بن عمر کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ صلوٰۃ عیدین میں گیارہ تکبیرات ہیں، چھ پہلی رکعت میں (تکبیر تحریمہ کے سوا) اور پانچ دوسری رکعت میں اس سلسلہ میں احناف کی رائے الگ ہے۔ (فقہی اختلافات اور انکی حقیقت, 2017)
 

فاطمہ زہرا

وفقہ اللہ
رکن
اختلاف کا مفہوم:

اختلاف کی تعریف جیسا کہ علامہ جرجانی کے الفاظ میں

منازعۃ تجری من المتعارضین لتحقیق حق و ابطال باطل

اختلاف وہ آویزش ہے جو دو فریق کے درمیان اثبات حق اور ابطال باطل کے لیے ہو۔

علم الاختلاف سے مراد ان مسائل کا علم ہے جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے۔ پیش آمدہ رائے میں درستگی یا غلطی یا انفرادیت سے قطع نظر۔ بسا اوقات علم الاختلاف ان مسائل کے ساتھ خاص ہوتا ہے جن میں بالفعل مجتہدین میں اختلاف ہوا ہو۔

بعض علماء نے "خلاف عالی" کے نام سے جو اصطلاح بنائی ہے اور جس سے ان کا مقصد وہ اختلاف ہے جو مذہب حقہ سے خارج ہو اسی ضمن میں داخل ہے۔

نیز جدید دراسات کے اصطلاح میں جسے "فقہ مقارن" یا "تقابلی فقہ" کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی اسی قبیل سے ہے۔

رہا لفظ "خلاف" یا "اختلاف" تو ان دونوں کے درمیان کوئی قابل اعتماد فرق نہیں ہے۔ علماء اپنی کتابوں میں دونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض علماء نے بہ تکلف دونوں میں فرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حاصل کلام یہ ہے کہ معنی کو سمجھ لینے کے بعد اصطلاح میں اختلاف کی کوئی وجہ جواز نہیں ہے۔

وقوع اختلاف:

انسانی دنیا میں اختلاف کا پایا جانا ایک مسلمہ بات ہے۔ اور یہ ﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک سنت ہے۔ چنانچہ لوگ اپنے رنگ و زبان اور طبیعت اور ادراکات، معارف و عقول اور شکل و صورت میں باہم مختلف ہیں۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ ۝

اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام نوع ِانسانی کو ایک ہی اُمت بنا دیتا، لیکن وہ تواختلاف کرتے ہی رہیں گے (سورۃ ھود آیت 11)

امام رازی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد لوگوں کا دین و اخلاق اور افعال میں اختلاف ہے۔

لیکن اس تباین اور قابلیت اختلاف کے باوجود ﷲ تعالیٰ نے صراط مستقیم پر ہدایت کے چراغ روشن کر دیئے ہیں اس لیے اس نے دوسری آیت میں فرما دیا ہے:

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝

(پہلے تو سب) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا (لیکن وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے) تو خدا نے (ان کی طرف) بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبر اور ان پر سچائی کے ساتھ کتابیں نازل کیں تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان کا ان میں فیصلہ کر دے اور اس میں اختلاف بھی انہیں لوگوں نے کیا جن کو کتاب دی گئی تھی باوجود یکہ انکے پاس کھلے ہوئے احکام آچکے تھے (اور یہ اختلاف انہوں نے صرف) آپس کی ضد سے کیا، تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھا دی اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 213)

اور اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید جو ﷲا تعالیٰ کے پاس سے ایک حقانیت اور لاریب کتاب ہے، مومنوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ڈاٹ اور ان کے اوپر اندھا پن ہے۔

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْاٰنًا اَعْجَـمِيًّا لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيَاتُهٝ ۖ ءَاَعْجَـمِىٌّ وَّعَرَبِىٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا هُدًى وَّشِفَـآءٌ ۖ وَالَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ فِىٓ اٰذَانِـهِـمْ وَقْرٌ وَّّهُوَ عَلَيْـهِـمْ عَمًى ۚ اُولٰٓئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍ بَعِيْدٍ۝

اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں، کیا عجمی کتاب اور عربی رسول، کہہ دو یہ ایمان داروں کے لیے ہدایت اور شفا ہے، اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کان بہرے ہیں اور وہ قرآن ان کے حق میں نابینائی ہے، وہ لوگ (گویا کہ) دور جگہ سے پکارے جا رہے ہیں۔ (سورۃ فصلت آیت نمبر: 44)

اختلاف کے انواع اور اقسام:

خلاف یا اختلاف کو تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1: اختلاف مذموم

2: اختلاف ممدوح

3: اختلاف جائز

اب ان کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔

1: اختلاف مذموم:

اختلاف مذموم کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے بعض زیادہ قابل مذمت ہیں۔ مثال کے طور پر

1: کافروں کا مومنوں سے ایمان اور اسلام میں اختلاف: اس واسطے کہ ایمان کو چھوڑ کر شرک و کفر کی راہ اختیار کرنا اور اپنے خالق و مالک اور پروردگار عالم کی خالص عبادت اور اس کے فرستادہ رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے انکار کرنا ظلم عظیم ہے۔

إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (سورۃ لقمان آیت 13)

جس پر کسی طرح سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ۝ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ۝ وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ۝ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ۝ وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ۝ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ۝

آپ کہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں تمہارے معبودوں کو پوجتا ہوں ،نہ تم میرے معبود کو پوجتے ہو، اور نہ میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا ،نہ تم اس کی پرستش کروگے جس کی میں عبادت کررہا ہوں،تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔ (سورۃ الکافرون)

لیکن پھر بھی اسلام کسی کوایمان لانے پر مجبور کرنے کا قائل نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ

دین کے معاملے میں کوئی زور و زبردستی نہیں۔ (البقرة :256)

2: بدعتوں اور نفس پرستوں کا اختلاف: جیسے خوارج اور ان جیسے لوگوں کا اختلاف جنہوں نے مسلمانوں کی جماعت کے خلاف بغاوت کی اور ان کا خون جائز قرار دینے کی دعوت دی۔

3: ان مقلدین کا اختلاف، جو مذہب و مسلک کے اختلاف کی بنیاد پر امت کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا اور ہر ایک کے لئے الگ الگ مصلے اور مسجدیں بنانا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ یا جو اپنے مذہب یا امام کی بے جا حمایت میں سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے واضح اور ثابت ہو جانے کے باوجود اسے ترک کر دیتے یا اس کو بلا دلیل منسوخ کہتے یا اس کی غلط تاویل کرتے ہیں اور اپنے مذہب اور امام کی تائید میں حدیثیں وضع کرتے اور فرمان نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ

مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (صحيح البخاری: 2/ 102)

کے مصداق ہوتے ہیں۔

2: اختلاف ممدوح:

ممدوح یا محمود اختلاف سے مراد اہل کتاب، مشرکین اور فاسقوں اور بے ادبوں کی ہئیات و حالات اور ان تیوہاروں اور تقریبات کی مخالفت کرنا ہے۔ اور ایسی اور اس جیسی مخالفت قابل تعریف ہے اور شریعت میں ممدوح و محمود ہی نہیں بلکہ شریعت کا مقصد بھی ہے اور ان کی مشابہت اور تشبہ سے نہی وارد ہوئی ہے۔

مثال کے طور پر

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

غَيِّرُوا الشَّيْبَ ، وَلاَ تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ” وفی روایۃ“وَلاَ بِالنَّصَارَى

یعنی سفید بالوں کو رنگ کر بدل دیا کرو اور یہود و نصاریٰ کی مشابہت نہ اختیار کرو۔

اور حضرت ابن عمررضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا

خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَوْفُوا اللِّحَى

مشرکین کی مخالفت کرو اور مونچھوں کو پست کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ (صحيح البخاری: 7/ 206)

اور ایک حدیث میں ہے

جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ

مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اورمجوس کی مخالفت کرو۔ (صحیح مسلم:1/ 153)

ایک حدیث میں فرمایا

خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُصَلُّونَ فِى نِعَالِهِمْ وَلاَ خِفَافِهِم

یہود کی مخالفت کرو کیونکہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ (سنن ابو داود: 1/ 247)

بہر حال ان امور میں اہل کتاب اور مجوس وغیرہ سے اختلاف مطلوب و ممدوح ہے۔

3: اختلاف جائز:

جائز اختلاف اجتہادی مسائل میں مجتہدین، یعنی فقہاء و مفتیان اور حکام کا اختلاف ہے فرامین نبویہ میں سے اس صحیح حدیث کی طرف دھیان دیجیئے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

"اذا حکم الحاکم فاصاب لہ اجران، و اذا حکم فاخطا فلہ اجر"

حاکم جب اپنے اجتہاد سے درست فیصلہ کر دے تو اسے دوہرا اجر ہے۔ اور جب فیصلہ میں چوک جائے تو اسے ایک اجر ہے

یہ صحیح حدیث مجتہد سے چوک ہو جانے کے امکان کی واضح دلیل ہے۔ اور چوک ہونے کا مطلب ہوا اختلاف ہونا۔ خواہ وہ اس کے اور کسی دوسرے کے درمیان ہو، یا اس کی رائے کے متبعین اور مخالفین کے درمیان ہو۔ پھر مخالف کے لیے اجر کا ثبوت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جائز اختلاف ہے ورنہ وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوتا۔ اور بنی قریظہ کا واقعہ تو مشہور و معرف ہے کہ حضرت محمد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو برقرار رکھا۔ اور مسلمان علماء، فقہاء اور حکام دور صحابہ سے اب تک اصل اختلاف کا انکار کیے بغیر مسائل میں اختلاف کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے ہیں رہیں گے۔ ذیل میں ہم کس کے کچھ نمونے بیان کر رہے ہیں

امام بیہقی نے سنن کبری میں حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ ہم اصحاب رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سفر کرتے تھے تو ہم میں سےکچھ لوگ روزہ دار ہوتے تھے اور کچھ افطار کرتے تھے۔ کچھ لوگ پوری نماز پڑھتے تھے اور کچھ قصر کرتے تھے۔ لیکن اس متضاد عمل کے باوجود کوئی ایک دوسرے پر عیب نہیں لگاتا تھا۔

امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں ابو خالد سے حمید سے روایت کیا ہے کہ میں سفر میں نکلا اور روزہ کھول لیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ روزہ دہراؤ، تو میں نے کہا کہ مجھے حضرت انس رضی ﷲ عنہ نے بتایا ہے کہ صحابہ رضی ﷲ عنھم سفر کرتے تو روزہ دار غیر روزہ دار اور غیر روزہ دار روزہ دار پر عیب نہیں لگاتا تھا۔ پھر میری ملاقات عبد ﷲ ابی ملیکہ سے ہوئی تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کرتے ہوئے ایسی بات مجھے بتائی۔

اسی طرح بعض آیات کی قر ءات میں صحابہ کرام رضی ﷲ عنھم کا اختلاف بھی جائز اور اختلاف تنوع تھا، کیونکہ حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہما فر ماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو ایک آیت اس کے بر خلاف پڑھتے سنا جو میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے پڑھتے سنا تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس اسے لے گیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر نا گواری کے آثار محسوس کیے، پھر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:

كِلاَكُمَا مُحْسِنٌ قَالَ شُعْبَةُ أَظُنُّهُ قَالَ: لاَ تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَهَلَكُوا

تم دونوں صحیح اور ٹھیک پڑھتے ہو، اختلاف نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں نے اختلاف کیا تو اس کی بناء پر ہلاک کردئے گئے۔ (صحيح البخاری:4/ 213)

اسی طرح اذان، اقامت، دعاء استفتاح، صلوٰة الخوف، تکبیرات جنازہ وغیرہ دو ود تین تین طریقے سے ثابت ہیں اور یہ اختلاف، اختلاف تنوع ہے۔ اختلاف تضاد نہیں۔ اس واسطے اگر مختلف لوگ الگ الگ طریقے سے پڑھیں تو جائز ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اختلاف جائز ہے اور ان میں سے ہر ایک مصیب اور حق پر مانا جائے گا اور جو اس میں کسی ایک رائے پر عمل کرنے کے لئے دوسرے پر سختی کرے اور اس کی وجہ سے لوگوں میں فرقہ بندی اور دشمنی ہو وہ قابل مذمت ہے۔

تو ان میں مختلف اسباب کی بنا پر اختلاف کا احتمال وامکان ہے مگر جو قول کتاب وسنت کے ادلۃ کے موافق ہو اسی کو قبول کرنا چاہئے اور اس اختلاف کی بنا پر فرقہ بندی کرنا اور امت میں اختلاف اور دشمنی پیدا کرنا درست نہیں۔
 
Top