شریعت اسلامی کا ایک خاص امتیاز فطرت انسانی سے اس کی ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اسی بناء پر شریعت میں اعذار اور انسانی مجبوریوں کی بڑی رعایت کی گئی ہے اور اہم سے اہم حکم شرعی میں بھی عذر کی بناء پر تخفیف قبول کی جاتی ہے۔ جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں یا احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں متعدد مقامات پر لفظ عذر مختلف صیغوں کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔
عذر کی تعریف:
عذر کی جو تعریفات کی گئیں ہیں ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
1: ایسی حجت جو قابل عذر ہو اور اعذار اس کی جمع ہے۔ اور ابن حجر کے قول کے مطابق عذر وہ وصف ہے جو شخص مکلف پر طاری ہو جاتا ہے اور پھر اس کے حق میں سہولت کا سبب بنتا ہے۔
2: عذر، اسی سے معذور نکلا ہے یعنی صاحب عذر عذر والا کہ جس کو ایک مکمل نماز کے وقت تک عذر گھیرے۔ وہ معذور ہے اور اُس عذر کا ختم ہونا ایسے وقت کو ضرر نہیں دیتا جس میں وضو اور نماز کی گنجائش نہ ہو اور اس عذر کے موجود ہونے سے اوقات میں کوئی وقت خالی نہ رہے۔
(یعنی جب تک وقت موجود ہے اس مکمل وقت میں کوئی لمحہ بھی اس عذر سے خالی نہ ہو)۔
3: عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجا لانا شاق گذرے یعنی وہ اس کے لیے مشکل بن جائے۔
4: یعنی عذر ایک ایسا شرعی سبب ہے کہ جس کے ذریعے شارع بعض واجبات کو ترک کرنے اور بعض محظورات (منع کی گئی چیزوں) کو مباح کرنے کا حکم دے۔
5: حنفی فقہاء کے نزدیک جب مکلف کسی امر شرعی کو بجا لانے میں اضافی ضرر سے دوچار ہوتا ہو تو یہ عذر کہلائے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے عذر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ جب کسی شخص پر شریعت کے موجب کے مطابق ضرر زائد برداشت کئے بغیر احکام شرعی کا معنی متعذر ہو۔ تو یہ عذر کے زمرے میں آئے گی۔
6: جدید فقہی ماہرین نے عذر کو ارتفاعِ مسؤلیت اور موانع سزا کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔ اور اسے اعذارِ معفیہ (Excuse Absolutory) کا نام دیا ہے۔ جس کے تحت مرتکب فعل سے جسمانی سزا تو ختم ہوتی ہے۔ تاہم اُس پر مالی تاوان باقی رہتا ہے۔
معذور کی تعریف:
علامہ آلوسی رحمہ ﷲ اس کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔
امام قر طبی اور امام بغوی عذر کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
امام طبری اس کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔
چند اہم سماوی عوارض اور ان کی شرعی رخصتیں:
1: بچپن:
وہ تمام امور جو ایک نابالغ سے ساقط ہونے کا احتمال رکھتے ہوں گے۔ مثلاً بچے سے نماز اور روزہ وغیرہ ساقط ہو جاتے ہیں۔ البتہ ایمان بچے سے ساقط نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بچہ جو فرائض ادا کرے وہ اس کے حق سے نوافل کے درجے میں ہوتے ہیں۔
2: دیوانگی:
اس سے تمام عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔
3: بھول:
یہ حقوق ﷲ میں اس لحاظ سے معاف ہے کہ بھول جانے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن حقوق العباد میں بھول چوک معاف نہیں ہے۔ حقوق اگر بھول چوک سے ضائع بھی ہو جائیں تو ان کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔
4: نیند:
انسان نیند کی حالت میں قدرت عمل سے عاجز ہوتا ہے اس لیے وہ کسی شرعی حکم کا پابند نہیں ہے۔ البتہ اس حکم کا وجوب قائم رہتا ہے۔
5: بے ہوشی:
اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ علت طویل ہو جائے تو بعض فرائض کی ادائیگی ساقط ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک دن اور ایک رات سے زائد عرصہ بے ہوش رہنے سے نماز ساقط ہو جاتی ہے۔
6: مرض:
یہ بھی ایک عرضہ ہے۔ مریض اپنی قدرت کے مطابق عبادت کرتا ہے۔ حیض و نفاس میں عورت سے نماز ساقط ہوتی ہے۔ البتہ وہ روزے قضا کرتی ہے کیونکہ یہ سال میں ایک مرتبہ ہی واجب ہوتے ہیں۔
علامہ ابن نجیم نے لکھا ہے کہ بیماری کی وجہ سے شریعت نے جو سہولتیں اور آسانیاں دی ہیں وہ مثال کے طور پر یہ ہیں۔
اس سے دنیوی احکام ساقط ہو جاتے ہیں۔ البتہ میت پر بعض احکام بالخصوص حقوق العباد کی ادائیگی واجب رہتی ہے۔ مثلاً اس کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور مال کے ایک تہائی تک وصیت کی ادائیگی۔
عذر کی تعریف:
عذر کی جو تعریفات کی گئیں ہیں ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
1: ایسی حجت جو قابل عذر ہو اور اعذار اس کی جمع ہے۔ اور ابن حجر کے قول کے مطابق عذر وہ وصف ہے جو شخص مکلف پر طاری ہو جاتا ہے اور پھر اس کے حق میں سہولت کا سبب بنتا ہے۔
2: عذر، اسی سے معذور نکلا ہے یعنی صاحب عذر عذر والا کہ جس کو ایک مکمل نماز کے وقت تک عذر گھیرے۔ وہ معذور ہے اور اُس عذر کا ختم ہونا ایسے وقت کو ضرر نہیں دیتا جس میں وضو اور نماز کی گنجائش نہ ہو اور اس عذر کے موجود ہونے سے اوقات میں کوئی وقت خالی نہ رہے۔
(یعنی جب تک وقت موجود ہے اس مکمل وقت میں کوئی لمحہ بھی اس عذر سے خالی نہ ہو)۔
3: عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجا لانا شاق گذرے یعنی وہ اس کے لیے مشکل بن جائے۔
4: یعنی عذر ایک ایسا شرعی سبب ہے کہ جس کے ذریعے شارع بعض واجبات کو ترک کرنے اور بعض محظورات (منع کی گئی چیزوں) کو مباح کرنے کا حکم دے۔
5: حنفی فقہاء کے نزدیک جب مکلف کسی امر شرعی کو بجا لانے میں اضافی ضرر سے دوچار ہوتا ہو تو یہ عذر کہلائے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے عذر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ جب کسی شخص پر شریعت کے موجب کے مطابق ضرر زائد برداشت کئے بغیر احکام شرعی کا معنی متعذر ہو۔ تو یہ عذر کے زمرے میں آئے گی۔
6: جدید فقہی ماہرین نے عذر کو ارتفاعِ مسؤلیت اور موانع سزا کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔ اور اسے اعذارِ معفیہ (Excuse Absolutory) کا نام دیا ہے۔ جس کے تحت مرتکب فعل سے جسمانی سزا تو ختم ہوتی ہے۔ تاہم اُس پر مالی تاوان باقی رہتا ہے۔
معذور کی تعریف:
علامہ آلوسی رحمہ ﷲ اس کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔
المعذرون من عذرٍ فی الا مر اذا قصر فیہ
یعنی معذرون معذور کی جمع ہے اور معذور کسی کام میں عذر سے مشتق ہے جب اس کام کی بجا آوری سے قاصر ہو۔
یعنی معذرون معذور کی جمع ہے اور معذور کسی کام میں عذر سے مشتق ہے جب اس کام کی بجا آوری سے قاصر ہو۔
امام قر طبی اور امام بغوی عذر کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
عذّر فلان فی امر کذا تعزیراً ای قصّر ولم یبالغ فیہ۔
یعنی فلاں شخص نے فلاں امر کے کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ یعنی اس میں کمی کی۔ اور اس کو تکمیل تک نہیں پہنچایا۔
یعنی فلاں شخص نے فلاں امر کے کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ یعنی اس میں کمی کی۔ اور اس کو تکمیل تک نہیں پہنچایا۔
امام طبری اس کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔
ان المعذر فی کلام العرب انما ھو الذی یعذر فی الا مر فلا یبالغ فیہ ولا یحکم۔
یعنی کلام عرب میں معذور اس شخص کو کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے سے عاجز ہو اور اس کام کا حکم اُسے نہ دیا جا سکتا ہو۔
یعنی کلام عرب میں معذور اس شخص کو کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے سے عاجز ہو اور اس کام کا حکم اُسے نہ دیا جا سکتا ہو۔
چند اہم سماوی عوارض اور ان کی شرعی رخصتیں:
1: بچپن:
وہ تمام امور جو ایک نابالغ سے ساقط ہونے کا احتمال رکھتے ہوں گے۔ مثلاً بچے سے نماز اور روزہ وغیرہ ساقط ہو جاتے ہیں۔ البتہ ایمان بچے سے ساقط نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بچہ جو فرائض ادا کرے وہ اس کے حق سے نوافل کے درجے میں ہوتے ہیں۔
2: دیوانگی:
اس سے تمام عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔
3: بھول:
یہ حقوق ﷲ میں اس لحاظ سے معاف ہے کہ بھول جانے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن حقوق العباد میں بھول چوک معاف نہیں ہے۔ حقوق اگر بھول چوک سے ضائع بھی ہو جائیں تو ان کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔
4: نیند:
انسان نیند کی حالت میں قدرت عمل سے عاجز ہوتا ہے اس لیے وہ کسی شرعی حکم کا پابند نہیں ہے۔ البتہ اس حکم کا وجوب قائم رہتا ہے۔
5: بے ہوشی:
اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ علت طویل ہو جائے تو بعض فرائض کی ادائیگی ساقط ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک دن اور ایک رات سے زائد عرصہ بے ہوش رہنے سے نماز ساقط ہو جاتی ہے۔
6: مرض:
یہ بھی ایک عرضہ ہے۔ مریض اپنی قدرت کے مطابق عبادت کرتا ہے۔ حیض و نفاس میں عورت سے نماز ساقط ہوتی ہے۔ البتہ وہ روزے قضا کرتی ہے کیونکہ یہ سال میں ایک مرتبہ ہی واجب ہوتے ہیں۔
علامہ ابن نجیم نے لکھا ہے کہ بیماری کی وجہ سے شریعت نے جو سہولتیں اور آسانیاں دی ہیں وہ مثال کے طور پر یہ ہیں۔
- جہاں وضو کرنے سے جان یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو یا بیماری کے بڑھ جانے یا بیماری یا زخم کے ٹھیک ہونے میں دیر لگ جانے کا خطرہ ہو وہاں تیمم کی اجازت ہے۔
- بیماری کی نوعیت اور سنگینی کے مطابق بیٹھ کر لیٹ کر یا محض اشاروں سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
- مریض کو نماز باجماعت سے مستثنی قرار دیا گیا لیکن اسے باجماعت نماز کی فضیلت سے محروم نہیں کیا گیا۔
- انتہائی عمر رسیدہ اور روزہ کی استطاعت نہ رکھنے والے افراد کو فدیہ دے کر روزے نہ رکھنے کی اجازت دی۔
- ظہار کے کفارے میں روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی گنجائش رکھ دی گئی۔
- بیماری میں روزہ کھول دینے کی اجازت دی گئی۔
- بیمار افراد کو اعتکاف ادھورا چھوڑ کر گھر لے جانے کی اجازت دی گئی۔
- بیمار افراد کو حج بدل کرا دینے کی اجازت دی گئی۔
- مریضوں کو اجازت دی گئی کہ وہ جمرات پر کنکر مارنے کے لئے خود جانے کی بجائے اپنی طرف سے کسی اور کو بھیج دیں۔
- معالجین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ علاج کی خاطر نامحرم کا جسم حتی کہ جسم کے پوشیدہ حصوں کا بھی معائنہ کر سکیں۔
اس سے دنیوی احکام ساقط ہو جاتے ہیں۔ البتہ میت پر بعض احکام بالخصوص حقوق العباد کی ادائیگی واجب رہتی ہے۔ مثلاً اس کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور مال کے ایک تہائی تک وصیت کی ادائیگی۔