سماویٰ عوارض کی بنیاد پر شرعی رخصتیں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
شریعت اسلامی کا ایک خاص امتیاز فطرت انسانی سے اس کی ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اسی بناء پر شریعت میں اعذار اور انسانی مجبوریوں کی بڑی رعایت کی گئی ہے اور اہم سے اہم حکم شرعی میں بھی عذر کی بناء پر تخفیف قبول کی جاتی ہے۔ جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں یا احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں متعدد مقامات پر لفظ عذر مختلف صیغوں کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔

عذر کی تعریف:

عذر کی جو تعریفات کی گئیں ہیں ان میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

1: ایسی حجت جو قابل عذر ہو اور اعذار اس کی جمع ہے۔ اور ابن حجر کے قول کے مطابق عذر وہ وصف ہے جو شخص مکلف پر طاری ہو جاتا ہے اور پھر اس کے حق میں سہولت کا سبب بنتا ہے۔

2: عذر، اسی سے معذور نکلا ہے یعنی صاحب عذر عذر والا کہ جس کو ایک مکمل نماز کے وقت تک عذر گھیرے۔ وہ معذور ہے اور اُس عذر کا ختم ہونا ایسے وقت کو ضرر نہیں دیتا جس میں وضو اور نماز کی گنجائش نہ ہو اور اس عذر کے موجود ہونے سے اوقات میں کوئی وقت خالی نہ رہے۔

(یعنی جب تک وقت موجود ہے اس مکمل وقت میں کوئی لمحہ بھی اس عذر سے خالی نہ ہو)۔

3: عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجا لانا شاق گذرے یعنی وہ اس کے لیے مشکل بن جائے۔

4: یعنی عذر ایک ایسا شرعی سبب ہے کہ جس کے ذریعے شارع بعض واجبات کو ترک کرنے اور بعض محظورات (منع کی گئی چیزوں) کو مباح کرنے کا حکم دے۔

5: حنفی فقہاء کے نزدیک جب مکلف کسی امر شرعی کو بجا لانے میں اضافی ضرر سے دوچار ہوتا ہو تو یہ عذر کہلائے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے عذر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ جب کسی شخص پر شریعت کے موجب کے مطابق ضرر زائد برداشت کئے بغیر احکام شرعی کا معنی متعذر ہو۔ تو یہ عذر کے زمرے میں آئے گی۔

6: جدید فقہی ماہرین نے عذر کو ارتفاعِ مسؤلیت اور موانع سزا کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔ اور اسے اعذارِ معفیہ (Excuse Absolutory) کا نام دیا ہے۔ جس کے تحت مرتکب فعل سے جسمانی سزا تو ختم ہوتی ہے۔ تاہم اُس پر مالی تاوان باقی رہتا ہے۔

معذور کی تعریف:

علامہ آلوسی رحمہ ﷲ اس کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔

المعذرون من عذرٍ فی الا مر اذا قصر فیہ

یعنی معذرون معذور کی جمع ہے اور معذور کسی کام میں عذر سے مشتق ہے جب اس کام کی بجا آوری سے قاصر ہو۔

امام قر طبی اور امام بغوی عذر کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔

عذّر فلان فی امر کذا تعزیراً ای قصّر ولم یبالغ فیہ۔

یعنی فلاں شخص نے فلاں امر کے کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ یعنی اس میں کمی کی۔ اور اس کو تکمیل تک نہیں پہنچایا۔

امام طبری اس کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔

ان المعذر فی کلام العرب انما ھو الذی یعذر فی الا مر فلا یبالغ فیہ ولا یحکم۔

یعنی کلام عرب میں معذور اس شخص کو کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے سے عاجز ہو اور اس کام کا حکم اُسے نہ دیا جا سکتا ہو۔

چند اہم سماوی عوارض اور ان کی شرعی رخصتیں:

1: بچپن:


وہ تمام امور جو ایک نابالغ سے ساقط ہونے کا احتمال رکھتے ہوں گے۔ مثلاً بچے سے نماز اور روزہ وغیرہ ساقط ہو جاتے ہیں۔ البتہ ایمان بچے سے ساقط نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بچہ جو فرائض ادا کرے وہ اس کے حق سے نوافل کے درجے میں ہوتے ہیں۔

2: دیوانگی:

اس سے تمام عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔

3: بھول:

یہ حقوق ﷲ میں اس لحاظ سے معاف ہے کہ بھول جانے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن حقوق العباد میں بھول چوک معاف نہیں ہے۔ حقوق اگر بھول چوک سے ضائع بھی ہو جائیں تو ان کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔

4: نیند:

انسان نیند کی حالت میں قدرت عمل سے عاجز ہوتا ہے اس لیے وہ کسی شرعی حکم کا پابند نہیں ہے۔ البتہ اس حکم کا وجوب قائم رہتا ہے۔

5: بے ہوشی:

اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ علت طویل ہو جائے تو بعض فرائض کی ادائیگی ساقط ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک دن اور ایک رات سے زائد عرصہ بے ہوش رہنے سے نماز ساقط ہو جاتی ہے۔

6: مرض:

یہ بھی ایک عرضہ ہے۔ مریض اپنی قدرت کے مطابق عبادت کرتا ہے۔ حیض و نفاس میں عورت سے نماز ساقط ہوتی ہے۔ البتہ وہ روزے قضا کرتی ہے کیونکہ یہ سال میں ایک مرتبہ ہی واجب ہوتے ہیں۔

علامہ ابن نجیم نے لکھا ہے کہ بیماری کی وجہ سے شریعت نے جو سہولتیں اور آسانیاں دی ہیں وہ مثال کے طور پر یہ ہیں۔

  • جہاں وضو کرنے سے جان یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو یا بیماری کے بڑھ جانے یا بیماری یا زخم کے ٹھیک ہونے میں دیر لگ جانے کا خطرہ ہو وہاں تیمم کی اجازت ہے۔
  • بیماری کی نوعیت اور سنگینی کے مطابق بیٹھ کر لیٹ کر یا محض اشاروں سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
  • مریض کو نماز باجماعت سے مستثنی قرار دیا گیا لیکن اسے باجماعت نماز کی فضیلت سے محروم نہیں کیا گیا۔
  • انتہائی عمر رسیدہ اور روزہ کی استطاعت نہ رکھنے والے افراد کو فدیہ دے کر روزے نہ رکھنے کی اجازت دی۔
  • ظہار کے کفارے میں روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی گنجائش رکھ دی گئی۔
  • بیماری میں روزہ کھول دینے کی اجازت دی گئی۔
  • بیمار افراد کو اعتکاف ادھورا چھوڑ کر گھر لے جانے کی اجازت دی گئی۔
  • بیمار افراد کو حج بدل کرا دینے کی اجازت دی گئی۔
  • مریضوں کو اجازت دی گئی کہ وہ جمرات پر کنکر مارنے کے لئے خود جانے کی بجائے اپنی طرف سے کسی اور کو بھیج دیں۔
  • معالجین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ علاج کی خاطر نامحرم کا جسم حتی کہ جسم کے پوشیدہ حصوں کا بھی معائنہ کر سکیں۔
7: موت:

اس سے دنیوی احکام ساقط ہو جاتے ہیں۔ البتہ میت پر بعض احکام بالخصوص حقوق العباد کی ادائیگی واجب رہتی ہے۔ مثلاً اس کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور مال کے ایک تہائی تک وصیت کی ادائیگی۔
 

فاطمہ زہرا

وفقہ اللہ
رکن
عذر کی جدید طبی اور نفسیاتی صورتیں:

1: مرگی اور ہسٹریا(hysteria)


بعض اعصابی بیماریوں میں بھی مریض کا شعور اور اختیار ختم ہو جاتا ہے اور ان کا فہم و ادراک معدوم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے ایسی حر کات اعمال اور اقوال سر زد ہوتے ہیں جن کو نہ وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں فقہا ء کرام نے خصوصیت کے ساتھ اس قسم کی مر یضانہ کیفیتوں پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہو کہ اس وقت نفسیاتی اور طبعی علوم نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی جس قدر کہ آج کر چکے ہیں۔ مگر قواعد شر یعت کی روشنی میں ان مریضانہ کیفیتوں کا حکم معلوم کر لینا مشکل نہیں ہے۔

جس وقت مرگی کے مریض پر تشنجی دورے پڑتے ہیں تو اس کا ادراک و اختیار مفقود ہو جاتا ہے اور اس وقت اس سے ایسے اعمال سرزد ہو سکتے ہیں جن کا اسے افاقہ ہو جانے کے بعد بھی احساس نہ ہو کہ اس نے کیا کیا ہے۔

اسی طرح ہسٹیریا کے مریض پر تشنجی دورے آتے ہیں جن میں وہ بے سمجھے ہذیان بکتا ہے جبکہ مالیخولیا کا مریض ایسے تصور اور خیالات قائم کرتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان تصورات کے وقت وہ بلا جواز امور کا ارتکاب کر لیتا ہے۔

چنانچہ عبدالقادر عودہ نے التشریع الجنائی الاسلامی میں ان مریضوں اور ایسی ہی دیگر صورتوں کا حکم وہی لکھا ہے جو مجنون کا ہے بشر طیکہ ارتکاب جرم کے وقت ان کا ادراک مفقود ہو۔ یا ان کا ادراک معتوہ کے درجے میں کمزور ہو۔ اور اگر ان مریضوں کا وقت ارتکاب جرم ادراک و اختیار مفقود نہ ہو تو یہ فوجداری طور پر مسؤول ہوں گے۔

2: ذہن پر غلط تصورات کا تسلط:

افکارِ خبیثہ کا تسلط ایک ایسا عذر ہے جو جنون کے ساتھ ملحق ہے اور ذہن پر غلط تصورات کا تسلط بھی عوارض جدیدہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ یہ ایک ایسی مر یضانہ کیفیت ہے جو اعصاب کی کمزوری سے رونما ہوتی ہے یا خاندانی وراثت سے منتقل ہوتی ہے اور انسان کے ذہن پر ایک تصور اس قدر چھا جاتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں وہ شخص کوئی خاص کام یا عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر زیر نظر عارضہ سے متاثرہ شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور اسے کچھ لوگ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا مثلاً قتل کرنا یا زہر دینا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن میں انتقام کا شدید جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جو لوگ اسے نقصان پہنچانا یا قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ خود انہیں قتل کر دے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ذہن پر یہ غلط تصور مسلط نہیں ہوتا بلکہ اس کا سر کش جبلی میلان اسے کسی جرم کے ارتکاب پر مجبور کر دیتا ہے۔

فقہاء کرام نے اس قسم کے مریضوں کا حکم مجنون کے ساتھ ملحق کیا ہے۔ اب اگر ارتکابِ جرم کے وقت ان میں ادراک مفقود ہے یا ان کا ادراک اس قدر کمزور ہے کہ معتوہ کے درجے پر پہنچ گیا ہے تو وہ فوجداری طور پر مسؤول نہیں ہیں۔ لیکن اس کے لیے ناقص اہلیت اداء ثابت ہوتی ہے مگر اہلیت وجوب مکمل طور پر باقی رہتی ہے۔ اسی بناء پر ان پر ایسے حقوق العباد جن سے مال مقصود ہو واجب ہو نگے لیکن سزائیں اور حدود ثابت نہ ہونگے۔

3: جذبات پر برانگیختگی:

شریعت اسلامیہ میں کوئی ایسا عذر نہیں ہے جو اہلیت وجوب یا اہلیت اداء کے منافی ہو۔ لہذا اس صورت میں جب ادراک و اختیار کی موجودگی بھی ہو، جو انسان ارتکاب جرم کرے وہ اس جرم کے بارے میں فوجداری اور دیوانی دونوں طرح مسؤول ہے۔

خواہ اس نے جرم کا ارتکاب کسی شدید جذبے کے زیر اثر کیا ہو اور خواہ اس کا یہ جذبہ شائستہ ہو یا کوئی سفلی میلان ہو۔ لہذا اگر کسی نے جذبہ انتقام کی شدت کے زیر اثر یا کسی دوسرے شخص کو انتہائی برا محسوس کرتے ہوئے ارتکاب جرم کیا تو وہ جواب دہ ہے۔

اسی طرح اگر کسی سے کوئی شخص شدید محبت رکھتا ہو اور وہ اسے اس کے تکالیف و مصائب سے نجات دلانے کے لیے قتل کر دے۔ تو وہ بھی مسؤول ہو گا۔ عرض جذبات کی شدت خواہ کسی درجے پر پہنچ جائے۔ مر تکب جرم فوجداری طور پر مسؤول ہے اور دیوانی طور پر بھی۔ البتہ اگر تعزیری سزا ہو تو اس میں یہ عارضہ شدیدہ شر یعت کی نظر میں مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر حدود میں جذبہ شدید نہ مسؤلیت پر اثر انداز ہے اور نہ سزا پر۔

شدید جذبات کی برانگیختگی شر یعت کی نظر میں نہ تو ارتکاب جرم کا جواز بنتا ہے اور نہ فو جداری مسؤلیت سے مانع ہے۔ اگر اس کی کچھ تاثیر ہے تو وہ تعزیری سزا میں ظاہر ہوتی ہے۔ مگر حدود میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔

ظلم و اعتداء کے شدید خوف سے فو جداری مسؤلیت ختم ہو جاتی ہے۔ بشر طیکہ مدافعت کی حالت شرعی موجود ہو یا اکراہ کی صورت ہو۔

4: حرکت نوم:

بعض اشخاص غیر شعوری طور پر سوتے ہوئے کوئی فعل انجام دیتے ہیں اور ان کی یہ حرکات ان حرکات کی تردید ہوتی ہیں جو وہ حالت بیداری میں کرتے ہیں۔ مگر کبھی وہ حالت خواب میں ایسی حرکات کر جاتے ہیں جن کا بیداری کی حالت کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اس ضمن میں سائنسی نقطہ نگاہ سے عالم خواب میں چلنے پھرنے یا کچھ کرنے کی تو جیہہ یہ ہے کہ انسان کی تمام صلا حیتیں نیند سے متاثر نہیں ہوتیں۔

بعض صلاحیتیں کسی نہ کسی درجے میں بیدار رہتی ہیں اور کبھی یہ صلاحیتیں غیر معمولی طور پر بیدار رہتی ہیں اور اس صورت میں سونے والا ایسے اعمال انجام دے لیتا ہے۔ جن کا اسے پتہ بھی نہیں چلتا اور جب یہ حالت ختم ہو جاتی ہے تو پھر اپنی طبعی حالت پر آجاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ عالم خواب میں وہ کیا کرتا رہا ہے۔

شر یعت اسلامیہ میں ایک عمومی اصول یہ ہےکہ نائم یعنی سونے والے پر سزا نہیں ہے۔ کیونکہ ارشاد نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے:

تین افراد کے اعمال نہیں لکھے جاتے، سونے والے کے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچے کے یہاں تک کے بالغ ہو جائے اور مجنون کے یہاں تک کہ اُسے فاقہ ہو جائے

اگرچہ حدیث میں حالت نوم اور حالت جنون کو ایک ساتھ بیان کر کے ان کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے۔ مگر فقہاء کرام حالت نوم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں۔ جنون کے ساتھ ملحق نہیں کرتے اور شاید اس کی حکمت یہ ہے کہ نائم متیقظ یعنی خواب میں جاگنے والے میں ادراک نوم موجود ہے۔

مگر اختیار موجود نہیں ہے کیونکہ وقت عمل اس کے اپنے ارادے کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر اس کا ادراک موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ نا سمجھی کے کام نہیں کرتا بلکہ اُسے مفید اور غیر مفید امور کی تمیز ہوتی ہے اور نقصان دہ امور سے اجتناب کرتا ہے۔

5: مسمریزم (عمل تنویم)

یہ مصنوعی نیند کی ایک صورت ہے جس میں ایک شخص عمل تنویم کرنے و الے کے اس طرح زیر اثر آ جاتا ہے کہ اس عمل کے دوران یا اس کے بعد عمل کرنے والا معمول کو جو بھی حکم دے وہ اُسے غیر شعوری طور پر اور بالکل مشینی انداز میں انجام دیتا ہے اور وہ عمل کرنے والے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اگرچہ ابھی تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ عمل تنویم کے دوران معمول پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے۔ مگر بعض اطباء کا خیال ہے کہ معمول حکم جرم کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔

اس حالت پر اگر قواعد شرعیہ کی تطبیق کی جائے تو اس عمل تنویم کو طبعی نوم کے ساتھ ملحق کرنا چاہیے اس لیے معمول مکرہ ہے اور حالت اکراہ میں سزا نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل تنویم کو جنون کے ساتھ ملحق کرنا دشوار ہے کیونکہ مصنوعی نیند سے ادراک ختم نہیں ہوتا صرف اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

عمل تنویم کا یہ حکم بایں صورت ہے کہ معمول کو جبراً معمول بنایا گیا ہو یا عمل تنویم سے قبل معمول کا ارتکابِ جرم کے بارے میں کوئی ارادہ نہ ہو لیکن اگر معلوم ہو کہ عامل کا مقصد اُسے ارتکابِ جرم کی جانب متوجہ کرنا اور آمادہ کرنا ہے۔

اس کے باوجود وہ عمل تنویم کو قبول کرے تو وہ ارتکاب جرم کو قصداً کرنے والا متصور کیا جائے گا اور اس تنویم کو ایک وسیلہ سمجھا جائے گا اور وہ شریعت کے عام اصولوں کے مطابق مسؤول ہو گا۔ اس ضمن میں مروجہ قوانین بھی شر یعت اسلامیہ سے متفق ہیں۔

6: ضعف تمیز:

بعض لوگوں میں مجنون اور معتوہ سے زیادہ ادراک موجود ہوتا ہے۔ مگر ایسا ادراک نہیں ہوتا جیسا ایک مکمل انسان میں ہونا چاہیے۔ چنانچہ ایسے لوگوں میں ادراک اور تمیز کی کمی ہوتی ہے اور اس کمزور ادراک کی بناء پر کسی فعل کی جانب تیزی سے سبقت کر جاتے ہیں۔تاہم ارتکاب جرم کے وقت ان میں اپنے فعل کا ادراک اور تمیز کچھ نہ کچھ موجود ہوتی ہے۔

اس ضمن میں قوانین شریعت اور مروجہ قوانین ایک دوسرے کے مطابق ہیں اور ان قوانین کی رو سے یہ کمزور ادراک والے سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اسی طرح جدید مروجہ قوانین میں بھی کمزور ادراک کے حامل لوگ سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔

البتہ بعض ماہرین فاعل کو معذور خیال کرتے ہوئے تخفیف سزا کے قائل ہیں۔ جبکہ دیگر ماہرین سزا میں شدت کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سخت سزا اس قسم کے لوگو ں کو ارتکاب جرم سے باز رکھے گا۔ (فقہ اسلامی اور مروجہ ملکی قوانین کے تناظر میں عذر کی جدید طبی اور نفسیاتی صورتوں کا تجزیاتی مطالعہ)
 
Top