تعارض بین الادلۃ

فاطمہ زہرا

وفقہ اللہ
رکن
تعارض کا معنی و مفہوم:

دو دلیلوں کے تعارض کو جو بطور ممانعت کے ہو تعارض کہتے ہیں۔

مثلاً ایک دلیل سے ایک چیز کی حلت ثابت ہو اور دوسری سے حرمت۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا عورتوں کے لیے حلال ہے۔ مگر دوسری دلیل سے اس کی حرمت ثابت ہوتا ہے۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

سونا اور ریشم میری امت کی خواتین کے لیے حلال کیا گیا ہے اور مردوں پر حرام ٹھہرایا گیا۔

اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ نیز نسائی اور ابن خزیمہ نے اس روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔ یہ حدیث آٹھ طرق اور آٹھ صحابہ کرام رضی ﷲ عنھم سے مروی ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں۔ البتہ یہ روایات ایک دوسری کی مؤید ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ہاتھ میں دو زر اندود کنگن دیکھے تو فرمایا

ان کو پھینک دو اور چاندی کے دو کنگن بنوا کر ان کو زعفران سے رنگا لو

اس کو قاسم سرقطی نے غریب الحدیث میںو بسند صحیح روایت کیا ہے۔ نیز اس کو نسائی اور الخطیب نے بھی روایت کا ہے۔ علاوہ ازیں اس مسئلہ میں دیگر احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔

اس ضمن میں علماء کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا سونا پہننا عورتوں کے لیے حلال ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں مختلف آراء ہیں کہ آیا ان مختلف احادیث کو باہم تطبیق دی جائے یا بعض کو بعض پر ترجیح دی جائے۔

شرعی دلائل کے مابین جو تعارض بظاہر پایا جاتا ہے وہ نفس الامری اور واقعی نہیں ہوتا۔ اس لیے شرعی دلائل میں تناقض نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ‌ؕ وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَيۡرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوۡا فِيۡهِ اخۡتِلَافًا كَثِيۡرًا۝

وہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ! اگر یہ قرآن ﷲ کے غیر کے پاس سے آیا ہوتا تو یہ اس میں بہت اختلاف پاتے (سورۃ النساء آیت 82)

تعرض بعض مجتہدین کے افکار و نظریات میں پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں تعارض کا ازالہ کرنے والے امور کا پتہ نہیں ہوتا۔ اور وہ یہ کہ وہ ظاہر التعارض دلائل کا موقع الگ الگ ہوتا ہے۔ اس لیے ان میں حقیقی تعارض موجود نہیں ہوتا اس قسم کے دوسرے امور جن سے تعارض زائل ہو جاتا ہے وہ بھی ان کو معلوم نہیں ہوتے۔

ترجیح کا لغوی و اصطلاحی مفہوم:

ترجیح کے لغوی معنی کسی چیز کو غالب کرنے، برتری دینے اور مقدم کرنے کے ہیں۔ اصطلاحاً ایک دلیل کو دوسری دلیل پر عمل میں مقدم کرنے کو ترجیح کہتے ہیں۔ جس طرح صحابہ کرام رضی ﷲ عنھم نے حضرت عائشہ کے ارشاد کو ترجیح دی تھی۔ ان کا فرمان یہ تھا

جب ایک شرمگاہ دوسری شرمگاہ سے تجاوز کر جائے تو غسل واجب ہو گیا۔

صحابہ نے حضرت عائشہ کی روایت کو حضرت ابو سعید حدری کی مندرجہ ذیل روایت پر ترجیح دی تھی

حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانی کا استعمال (غسل) پانی (منی) کے خروج سے واجب ہوتا ہے۔

وجہ ترجیح یہ ہے کہ ازواج مطہرات رضی ﷲ عنہن ان امور کو دیگر صحابہ کے مقابلہ میں بہتر جاتنی ہیں۔

کسی ایک دلیل کو دوسری دلیل پر ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب دونوں دلیلوں میں سے کسی ایک پر عمل ممکن نہ ہو اور تاریخ بھی معلوم نہ ہو۔

1: اگر دونوں دلیلوں پر کسی طرح بھی عمل کیا جا سکتا ہو تو دونوں پر عمل کیا جائے گا۔ اس لیے کہ دونوں پر عمل کرنا ایک پر عمل کرنے سے افضل ہے۔

2: جب دو نصوص باہم متعارض ہوں، وہ قوت و عموم میں بھی مساوی ہوں۔ دونوں میں جمع و تطبیق کا بھی کوئی امکان نہ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ دونوں میں سے متاخر کون سی ہے تو اندریں صورت متاخر متقدم کی ناسخ ہو گی، اور اگر متاخر کا پتہ نہ ہو تو ایک کو ترجیح دینا واجب ہے بشرطیکہ ایسا ممکن العمل ہو۔

تعارض بین الادلۃ:

تعارض بین الادلۃ سے مراد دو دلیلوں کے درمیان تعارض ہے۔ بعض علماء دلائل کے مابین تعارض سمجھتے ہوئے کسی ایک دلیل کو ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہوتی ہے کہ ان میں سرے سے تعارض ہوتا ہی نہیں۔ پھر اس کی وجہ سے فروعی مسائل میں اختلاف رونما ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال قرآن کی یہ آیت کریمہ ہے:

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاکْتُبُوهُ وَلْیَکْتُب بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ یَأْبَ کَاتِبٌ أَنْ یَکْتُبَ کَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْیَکْتُبْ وَلْیُمْلِلِ الَّذِی عَلَیْهِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا فَإن کَانَ الَّذِی عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیهًا أَوْ ضَعِیفًا أَوْ لاَ یَسْتَطِیعُ أَن یُمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِیدَیْنِ من رِّجَالِکُمْ فَإِن لَّمْ یَکُونَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاء أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ یَأْبَ الشُّهَدَاء إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَکْتُبُوْهُ صَغِیرًا أَو کَبِیرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِکُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیرُونَهَا بَیْنَکُمْ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَکْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَایَعْتُمْ وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَلاَ شَهِیدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِکُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ۝

ایمان والو جب بھى آپس میں ایک مقررہ مدت کے لئے قرض کالین دین کرو تو
اسے لکھ لو اور تمھارے درمیان کوئی بھى کاتب لکھے لیکن انصاف کے ساتھ لکھے اورکاتب کو نہ چاہئے کہ خدا کى تعلیم کے مطابق لکھنے سے انکار کرے _ اسے لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ قرض ہے اس کو چاہئے کہ وہ املا کرے اور اس خدا سے ڈرتا رہے جو اسکا پالنے والا ہے او رکسى طرح کى کمى نہ کرے _ اب اگر جس کے ذمہ قرض ہے وہ نادان کمزور یا مضمون بتا نے کے قابل نہیں ہے تو اس کا ولى انصاف سے مضمون تیار کرے _اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ بناؤ او ردو مردنہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں تا کہ ایک بہکنے لگے تو دوسرى یاد دلادے اور گواہوں کو چاہئے کہ گواہى کے لئے بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور خبردار لکھاپڑھى سے ناگوار ى کا اظہارنہ کرنا چاہیے قرض چھوٹا ہو یا بڑا مدت معین ہونى چاہیئے یہى پروردگار کے نزدیک عدالت کے مطابق اور گواہى کے لئے زیادہ مستحکم طریقہ ہے اور اس امر سے قریب تر ہے کہ آپس میں شک و شبہ نہ پیدا ہو _ہاں اگر تجارت نقد ہے جس سے تم لوگ آپس میں اموال کى الٹ پھیر کرتے ہو تونہ لکھنے میں کوئی حرج بھى نہیں ہے_ اور اگر تجارت میں بھى گواہ بناؤ تو کاتب یا گواہ کو حق نہیں ہے کہ اپنے طرز عمل سے لوگوں کو نقصان پہنچائے اور نہ لوگوں کو یہ حق ہے اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ اطاعت خدا سے نافرمانى کے مترادف ہے ﷲ سے ڈرو کہ ﷲ ہرشے کا جاننے والا ہے (سورۃ البقرۃ آیت 282)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ کی روایت ہے کہ حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قسم اور گواہ کی بنا پر مدعی کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا۔

اہل کوفہ کے نزدیک یہ حدیث قرآن کی معارض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمومات قرآن حدیث کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہیں۔ بنا بریں وہ اس حدیث پر عمل نہیں کرتے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی کہ خیار مجلس کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث کو حضرت عبدﷲ بن عمر نے حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جب دو آدمی آپس میں سودا کریں تو مجلس سے الگ ہونے تک انہیں سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔

الا یہ کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ دے کہ تمہیں مجلس میں اس چیز کو پسند کرنے کا اختیار ہے اگر وہ اس شرط پر سودا کریں تو بیع پختہ ہو گئی اگر سودا کرنے کے بعد وہ ایک دوسرے سے الگ ہوں اور مجلس میں سودا فسخ نہ کریں تو سودا پختہ ہو گیا۔

اس مسئلہ میں وارد شدہ حدیث ہذا و دیگر احادیث کو ایک جماعت نے اہل مدینہ کے تعامل کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس لیے حدیث ہذا پر عمل پر ان کے ہیں اجماع منعقد ہو چکا ہے۔ وہ حدیث صحیح کے مقابلہ میں اپنے اجماع کو ترجیح دیتے ہیں اور اس لیے خیار مجلس کو تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ حدیث صحیح حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے جسے لوگوں کے عمل سے معارض ہونے کی بنا پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حدیث صحیح لوگوں کے اقوال و اعمال سے مقدم ہے۔ خصوصاً جب کہ یہاں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اہل مدینہ نے کسی عذر کی بنا پر اس پر عمل کیا ہو۔ یا تو وہ اس حدیث سے بہرہ ور نہ تھے یا کوئی اور عذر عمل حائل تھا۔ حجت تو اس قائم ہوتی ہے جو اس سے باخبر ہو، اور اس پر عمل کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

اس امر کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ بعض لوگوں نے احادیث صحیحہ کو محض اس لیے ترک کردیا کہ وہ قیاس جلی اور اصول عامہ کے خلاف تھیں۔ یا دیگر معارضات کی بناء پر جو کتب خلاف و مناظرہ میں عام طور پر شائع و ذرائع ہیں حالانکہ یہ امور احادیث صحیحہ کے معارض ہونے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں۔

تعارض کی مثالیں:

بکثرت اختلاف کا سبب وہ ظاہری تعارض ہے جو نصوص میں نظر آتا ہے اور اس کی جمع و تطبیق اور ایک نص کو دوسری پر ترجیح دینے کے بارے میں علماء کے یہاں اختلاف رونما ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:

تعارض فی القرآن اور اس کی مثالیں:

فوت شدہ شوہر والی حاملہ عورت کے بارے میں قرآن نے فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۝

اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب وہ اپنی(اختتامی) مدت کو پہنچ جائیں تو اے والیو! تم پر اس کام میں کوئی حرج نہیں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شریعت کے مطابق کرلیں اور ﷲ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت 234)

یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ فوت شدہ خاوند والی عورت حاملہ ہو یا غیر حاملہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ ایک دوسری آیت میں یوں فرمایا:

وَ الّٰٓـِٔىۡ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الّٰٓـِٔىۡ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا۝

تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص ﷲ تعالیٰ سے ڈرے گا ﷲ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔ (الطلاق 4)

یہ آیت اپنے عموم کی وجہ سے اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حاملہ خواہ مطلقہ ہو یا فوت شدہ خاوند والی اس کی عدت وضع حمل ہے۔ اس تعارض کی بنا پر جو ان دو آیتوں میں پایا جاتا ہے فوت شدہ خاوند والی حاملہ کی عدت کے بارے میں علماء کے یہاں اختلاف پیدا ہو گیا۔ اس ضمن میں جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔ اگرچہ وہ چار ماہ دس دن سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ اس آیت میں پایا جانے والا عموم ہے۔

تعارض کی ایک اور مثال وہ آیت بھی ہے جس میں علی العموم ان عورتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘-وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ-وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ۝

تم پر حرام کردی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ (کے رشتے) سے تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی وہ بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں (جو اُن بیویوں سے ہوں ) جن سے تم ہم بستری کرچکے ہو پھر اگر تم نے ان (بیویوں ) سے ہم بستری نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کو اکٹھا کرنا (حرام ہے۔) البتہ جوپہلے گزر گیا۔ بیشک ﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ النساء 23)

اس آیت میں دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کرنے سے مطلقا منع کیا گیا ہے۔ خواد دونوں سے بیک وقت نکاح مراد ہو یا دو لونڈیوں سے جو بہنیں ہوں بیک وقت لونڈی کی حیثیت سے رکھنا مقصود ہو، دونوں صورتیں ناروا ہیں۔

دوسری آیت میں فرمایا:

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۝ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ۝

اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا اپنے ہاتھ کے مال کنیزوں سے کہ ان پر کچھ ملامت نہیں (سورۃ المعارج آیت 29۔30)

اس آیت میں ما ملکت ایمنھم کا استثناء علی الاطلاق کیا گیا ہے۔ اس آیت کے عموم سے مستفاد ہوتا ہے کہ دو لونڈیوں کو جو بہنیں ہوں ملکیت میں رکھنا درست ہے۔ اس طرح دو آیتوں کے عموم میں دو بہنوں کو بطور مملوکہ رکھنے کے سلسلہ میں تصادم پیدا ہو جاتا ہے۔

اس طرح علماء کے مابین دو مملوکہ بہنوں کے بارے میں اختلاف رونما ہوا کہ آیا بحیثیت مملوکہ دونوں کے ساتھ مجامعت جائز ہے یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ اس میں توقف سے کام لیں تھے۔ چنانچہ بعض صحابہ سے یہ قول منقول ہے کہ ایک آیت دو بہنوں کی حلال ٹھہراتی ہے اور دوسری حرام قرار دیتی ہے۔

اس مسئلہ میں راجح مسلک یہ ہے کہ جس طرح بیک وقت دو بہنوں سے نکاح نہیں کیا جا سکتا اسی طرح دو بہنوں کو مملوکہ کے طور پر بھی نہیں رکھا جا سکتا۔

کتاب و سنت میں تعارض:

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝

جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے ﷲ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو ﷲ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو (سورۃ النور آیت 2)

نیز حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

مجھ سے اخذ کر لو مجھ سے اخذ کر لو، ﷲ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے ایک راستہ نکال دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر کنوارا مرد کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو ان کو ایک سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لیے انہیں جلا وطن کیا جائے۔ اور اگر شادی شدہ مرد و عورت زنا کریں تو انہی ایک سو کوڑے مار کر سنگسار کر دیا جائے۔

نیز حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تمہارے بیٹے کی سزا یہ ہے کہ اسے ایک سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے۔

مذکورہ صدر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت میں صرف کوڑے مارنے کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ دونوں احادیث میں کوڑوں کے ساتھ جلا وطنی کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ بنا بریں غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا اسے صرف کوڑے مارے جائیں یا اس کے ساتھ ساتھ جلا وطنی کی سزا بھی دی جائے۔ (شریعت اسلامیہ کا تعارف)
 
Top