مکڑی....چلتی پھرتی فیکٹری (ہارون شہزاد‘ راولپنڈی)

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
عام طور پر مکڑی کی اوسط عمر سال بھر سے زیادہ نہیں ہوتی‘ تاہم بعض ٹرنٹولا مکریاں تیس تیس برس تک زندہ رہتی ہیں اور آٹھ آٹھ دس دس سال میں بلوغت کو پہنچتی ہیں۔ اکثر مکڑیاں تنہائی کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ ہاں کچھ اجتماعیت پسند بھی ہیں اور ایک ہی جالے میں مل جل کر رہتی ہیں۔ بعض مکڑیاں پن کے سرے جتنی چھوٹی اور بعض ڈنر پلیٹ کے برابر ہوتی ہیں۔
مکڑیاں مختلف طریقوں سے شکار کرتی ہیں۔ بعض زمین پر نہایت دبے قدموں شکار کا تعاقب کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں زیادہ تر اپنی طاقت پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ ”بھیڑیا مکڑی“ اور جست لگانے والی مکڑی بڑی تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتی ہیں جو مکڑیاں فضا میں جالا بنتی ہیں‘ وہ عموماً الٹا لٹک کر شکار کی منتظر رہتی ہیں۔
مکڑیاں چلتی پھرتی فیکٹریاں ہیں۔ میں نے جب بھی ان کے بنے ہوئے جالے دیکھے‘ بے حد متاثر ہوا۔ یہ جالا مختلف قسم کے ”ریشمی دھاگے“ سے تیار ہوتا ہے۔ مکڑی کے پیٹ میں پانچ‘ چھ غدود ہوتے ہیں۔ مختلف اقسام کا یہ ریشم انہی غدود سے نکلتا ہے۔ جو خشک بھی ہوتا ہے اور لیسدار بھی۔ اسی سے مکڑیاں جالے کے باریک اور موٹے تار‘ انڈے رکھنے کے تھیلے اور شکار کی ”مشکیں کسنے کے رسے“ تیار کرتی ہیں۔ پیٹ سے جو پروٹینی مادہ نکلتا ہے مکڑی اپنی آخری پچھلی ٹانگوں سے اس کے ریشمی تار بناتی ہے تار جو لچکدار بھی ہوتے ہیں اور سخت بھی۔ بعض تو اتنے ہی باریک فولادی تار سے بھی زیادہ مضبوط پائے گئے ہیں۔
مکڑی کا جالا فی الواقع شیطان کا چرخہ ہے۔ بھونرے اور بھڑ ایسے کیڑے مکوڑے اگر غلطی سے آن پھنسیں‘ تو اسے توڑ تاڑ کر نکل جاتے ہیں لیکن بیچارے چھوٹے چھوٹے شکار اس لیسدار جال میں اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ پھر نکل نہیں پاتے۔ جالے کے تار اتنے باریک ہوتے ہیں کہ مکھیوں اور بھنوروں کو نظر تک نہیں آتے۔ وہ اڑتے ہوئے آتے ہیں اور اس غیرمرئی جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جونہی کوئی بدقسمت شکار پھنستا ہے مکڑی جو جال کے عین وسط میں بظاہر مراقبے میں گم ہوتی ہے دوڑتی ہوئی پہنچتی ہے۔ صرف ایک ڈنک مار کر اسے مفلوج کردیتی ہے اب اس کے جسم کی فیکٹری خودبخود کام کرنے لگتی ہے۔ تھوڑی سی دیر میں مظلوم شکار لیسدار ریشم میں لپٹ کر رہ جاتا ہے۔ اگر مکڑی بھوکی ہے تو اسی وقت چٹ کر جاتی اور گوشت کا پھوک اور ریزے وغیرہ نیچے گرادیتی ہے لیکن پیٹ بھرا ہو‘ تو ریشم میں لپٹی ہوئی ممی کو اگلے دن کے ناشتے کیلئے رکھ چھوڑتی ہے۔
جالا بننے کا سار اکام مکڑی اپنی جبلت کے سہارے کرتی ہے وہ ہمیشہ ایک سا جالا بنے گی۔ جالے کی زندگی بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ کھلی جگہ تو ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہر پاتا۔ ہوا کے تیز تھپیڑوں‘ کسی بڑے کیڑے کے ٹکرانے یا خود مکڑی کے اپنے ہاتھوں سے ٹوٹ جاتا ہے۔ جونہی یہ حادثہ پیش آتا ہے مکڑی فوراً اپنے کام میں لگ جاتی ہے اور آدھ پون گھنٹے میں پہلے جیسا شاندار جالا تیار ہوجاتا ہے کہتے ہیں مکڑی اس لیے جالا بنتی ہے کہ اس میں شکار پھانسے اور پیٹ کی آگ بھجائے۔
مکڑی ہمیشہ یکساں جالا بنتی ہے اور اتنا جچا تلا اور درست جیسے کوئی ریاضی دان اقلیدس کی شکلیں بنارہا ہو‘ لیکن یہ صحت صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک مکڑی کا ذہنی اور اعصابی نظام ٹھیک رہتا ہے۔ اس میں ذرا گڑبڑ ہوئی اور جالا ٹوٹا پھوٹا بنا۔

بشکریہ
ماہنامہ عبقری
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
میں نے تو بہت ہی پیارے پیارے مکھڑی دیکھی ہے ؟ کیا یہ سپائڈر کو کہتے ہیں نا ؟ جو رنگ برنگی ہوتی ہیں موٹی سی زہریلی سی ؟^o^||3
 

نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
ایک مہینے تک مسلسل مین نے دیکھا کہ ایک مکڑی ہمارے گھر میں شیشم کے درخت پر روزانہ مغرب کے بعد جالا بنتی تھی اور رات بھر شکار کرتی تھی اور صبح سورج نکلنے سے پہلے اس جالے کو سمیٹ لیتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
nabeelkhan نے کہا ہے:
ایک مہینے تک مسلسل مین نے دیکھا کہ ایک مکڑی ہمارے گھر میں شیشم کے درخت پر روزانہ مغرب کے بعد جالا بنتی تھی اور رات بھر شکار کرتی تھی اور صبح سورج نکلنے سے پہلے اس جالے کو سمیٹ لیتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔

سبحان اللہ . . . . . یہ تو عجب بات سنائی آپ نے
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
سیما نے کہا ہے:
میں نے تو بہت ہی پیارے پیارے مکھڑی دیکھی ہے ؟ کیا یہ سپائڈر کو کہتے ہیں نا ؟ جو رنگ برنگی ہوتی ہیں موٹی سی زہریلی سی ؟^o^||3


جو آپ موٹی موٹی کا کہہ رہی ہیں وہ دراصل آپ نے کھیچوا دیکھا تھا جو زیادہ تر پانی میں رہتا ہے۔
:-(||> :-(||> :-(||>
 
Top