گواہی سے رجوع کی صورت میں گواہوں کی ذمہ داری

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
گواہی سے رجوع کی صورت میں گواہوں کی ذمہ داری

گواہی سے مکرنے پر گواہوں کی ذمہ داری کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

قصاص وغیرہ کے معاملے میں گواہوں کی ذمہ داری:

اگر مشہود بہ ایسا معاملہ ہے جس میں قصاص ہو جیسے قتل اور زخموں وغیرہ کے معاملات تو اس بارے میں موقف یہ ہے کہ اگر گواہوں نے کہا کہ ہم نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تاکہ ملزم قتل ہو جائے اب جبکہ وہ قتل ہو گیا ہے تو ہم اپنی گواہی سے رجوع کرتے ہیں۔

پس ایسی صورت میں حنابلہ کے نزدیک ایسے گواہوں پر قصاص لازم ہو گا۔ یہی رائے ابن شبرمہ، ابن ابی لیلی، امام اوزاعی اور امام شافعی کی ہے۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ گواہوں پر قصاص نہ ہو گا کیونکہ انہوں نے خود کسی کو قتل نہیں کیا۔ وہ تو اس شخص کے مشابہ ہو گئے کہ جس نے کنواں کھودا اور کوئی اس میں گر کر مر گیا۔

جن لوگوں نے قصاص کا مطالبہ کیا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ حضرت علی کا قول ہے اور صحابہ میں سے کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے۔ کیونکہ گواہ ہی قتل یا بعض انسانی اعضاء کے کاٹنے کا سبب بنے اس لیے ان سے قصاص لیا جائے گا۔ اور یہ معاملہ کنواں کھودنے سے مشابہ نہیں ہے۔ کیونکہ غالبا کنواں اس لیے نہیں کھودا جاتا کہ کوئی اس میں گر کر مر جائے۔ اور اگر گواہ نے یہ کہا کہ ہم سے گواہی کی ادائیگی میں غلطی ہو گئی تھی اس لیے ہم رجوع کررہے ہیں تو ان پر کوئی قصاص نہ ہو گا اور ان کے ذمے دیت ہو گی۔

مال کے بارے میں گواہی سے رجوع کی صورت میں ذمہ داری:

اگر مشہود بہ (جس کے متعلق گواہی دی گئی) مال ہو اور محکوم لہ اس کو حاصل کر چکا ہو تو یہ مال گواہوں کے مکرنے پر محکوم علیہ کو واپس نہیں جائے گا۔ تاہم اس مال کے حصول کے لیے مکرنے والے کے گواہوں سے رجوع کیا جائے گا۔ یہ امام مالک، حنابلہ، حنفیہ اور امام شافع کا قول ہے۔

ایک دوسرے قول کے مطابق امام شافعی فرماتے ہیں گواہوں سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ان سے کسی کا مال تلف ہوا ہے نہ ہی اسی ضمن میں ان کی کسی سے دشمنی ہے پس وہ ضامن نہیں ہوئے اور یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے ان کی گواہی رد کر دی جائے۔

اور جو لوگ گواہوں کے ذمے لگاتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ گواہوں نے اپنی گواہی کے ذریعے ایک شخص کا مال ناحق نکلوایا ہے۔ تو بس ان کے ذمے ضمان ہو گی کیونکہ مال کے ضائع ہونے کا سبب وہ گواہ بنے ہیں۔

جھوٹے گواہ کی ذمہ داری:

جھوٹے گواہ کی گواہی کے وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے اس کی وجہ سے ضروری ہے کہ اس پر مقدمہ چلایا جائے۔ اسی لیے اگر کوئی شخص قاضی کے ہاں یہ دعوی کرے کہ دو جھوٹے گواہوں نے میرے خلاف جھوٹی گواہی دی اور اس کی بنا پر قاضی نے یہ فیصلہ میرے خلاف کر دیا ہے۔ قاضی ان گواہوں کو نظر بند کر دے گا اور ان سے اپنی صفائی پیش کرنے کو کہے گا۔

اگر انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تو ان کو سزا سنائی جائے گی اور وہ ضائغ شدہ مال کے ضامن ہوں گے۔ اور اگر انہوں نے انکار کر دیا تو مدعی کے ذمے لازمی ہو گا کہ وہ اس پر گواہ لائیں کہ وہ جھوٹے گواہ ہیں۔ قاضی ان گواہوں کو سنے گا اور پھر اس کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ لیکن اگر مدعی گواہ پیش نہ کر سکے یا اگر پیش کرے اور قاضی ان کو قبول نہ کرے تو قاضی مدعی کے دعوی کو قبول نہیں کرے گا۔
 
Top