عدالتی فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عدالتی فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار

فقہاء نے کسی خاص قاضی یا عدالت کو عام عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار نہیں دیا بلکہ ہر قاضی اور ہر عدالت کو نظر ثانی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کی تفاصیل درج ذیل ہیں۔

1) مرافعہ (اپیل):

  • کسی بھی فریق کو یہ اختیار ہے کہ وہ قاضی کے فیصلہ کو نظر ثانی کے لیے اسی قاضی کے سامنے یا دوسرے ایسے قاضی یا ایسے قاضی کے سامنے پیش کرے جو مرافعہ سننے کا مجاز ہو۔
  • بہر دو صورت اس فیصاہ کی نقل با ضابطہ پیش کرنی ہو گی جس پر نظر ثانی مطلوب ہے۔
  • درخواست مرافعہ کے ساتھ وجوہ مرافعہ داخل کرنا ضروری ہو گا جس میں ان نقائص کی نشاندہی کی گئی ہو، اور ان اسباب کو واضح کیا گیا ہو جن کی وجہ سے وہ فیصلہ فریق مرافع کی نگاہ میں قابل رد یا لائق ترمیم ہو۔
  • ضروری ہے کہ درخواست مرافع اس مدت کے اندر داخل کی گئی ہو جو مدت مرافعہ کی درخواست قبول کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہو۔
  • عدالت مرافعہ کو حق ہو گا کہ وہ درخواست مرافعہ کو سماعت کے لیے منظور نہ کرے، اگر وہ محسوس کرے کہ وجوہ مرافعہ معقول نہیں اور بادی النظر میں ہی قابل رد ہیں۔
  • اگر عدالت مرافعہ کی نگاہ میں درخواست مرافعہ قابل سماعت ہے تو وہ اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریق ثانی (مدعی علیہ) سے جواب طلب کرے۔
  • عدالت مرافعہ ہر دو فریق کی بحث زبانی بھی سن سکتی ہے اور صرف تحریری بحثوں پر اکتفا کر کے بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔
  • اگر حکم سابق پر عمل روک دینے کی درخواست کی گئی ہو تو قاضی مقدمہ کی نوعیت اور فریق درخواست دہندہ کو فیصلہ پر عمل جاری رہنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان اور ضرر کو پیش نظر رکھ کر حکم دے گا۔ (اسلامی عدالت, 1993)
2) جس قاضی نے فیصلہ صادر کیا وہی اسے کالعدم قرار دے گا:

اگر کسی قاضی نے کسی مسئلہ میں کوئی حکم جاری کیا پھر اس پر واضح ہوا کہ اس کا یہ حکم غلط ہے اور ضروری ہے کہ وہ اسے کالعدم قرار دے تو وہ اس کالعدم قرار دے دے گا۔

فقہہ الرملی الشافعی اس ضمن میں کہتے ہیں

جب کسی قاضی نے اپنے اجتھاد سے فیصلہ کیا پھر اسے ظاہر ہوا کہ اس کا فیصلہ کتاب اللہ یا سنت کی نص کے خلاف ہے یا اجماع کے خلاف ہے یا قیاس کے خلاف ہے تو ایسے فیصلے کو کالعدم قرار دینا لازمی ہو گا کیونکہ اس کا باطل ہونا ظاہر ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس سے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست نہ کی گئی ہو

فقہاء زیدیہ میں سے ابو طالب کہتے ہیں:

میرے نزدیک جب قاضی نے غلطی کی یا ایسا فیصلہ کیا جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اجماع کے خلاف ہو تو یہ فیصلہ کالعدم ہو گا اور اس سے رجوع کیا جائے گا۔

اس ضمن میں ابن فرحون کہتے ہیں:

جب اس قاضی پر اس کی غلطی ظاہر ہو گئی ہے تو وہ اپنے فیصلہ سے رجوع کرے گا۔

3) ایک قاضی دوسرے قاضی کا فیصلہ کالعدم قرار دے سکتا ہے:

جیسا کہ اس قاضی کو جس نے کوئی فیصلہ کیا ہو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا حق ہے۔ اسی طرح دوسرے قاضیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیں جبکہ ان سے اپیل کی جائے یا وہ بذات خود اس کا جائزہ لیں۔ اس ضمن میں فقیہہ الرملی نے کہا ہے کہ:

قاضی کسی دوسرے کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کر سکتا ہے

یہی مؤقف القرافی نے اختیار کیا ہے۔

4) کیا فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے اپیل کرنا ضروری ہے:

اگر قاضی نے کوئی فیصلہ کیا پھر اس پر واضح ہوا کہ یہ فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے تو قاضی اس فیصلے کو اپنے طور پر ہی کالعدم قرار دے دے گا۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقدمہ کے کسی فریق کی اپیل کے بغیر ہی ایسا ہو سکتا ہے۔ یا قاضی کے پس اس مقدمے پر نظر ثانی کے لیے اپیل کی جائے گی۔

جیسے کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ وہی قاضی جس نے کسی مقدمہ میں فیصلہ کیا اور اسے یہ پتہ چلا کہ اس کے فیصلے میں کوئی چیز کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے تو اس نے بغیر کسی طلب کے اپنے فیصلے کو بدل دیا تو یہ جائز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قاضی بغیر کسی اپیل کے بھی اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرے تو یہ بھی درست ہے اور اس اپیل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست ہو گا۔

اگر کسی جگہ پہلے قاضی کی جگہ دوسرا قاضی آ جائے تو نئے قاضی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پرانے قاضی کے فیصلے تبدیل کر دے کیونکہ بظاہر پہلے قاضی کے فیصلے درست اور صحیح تھے۔ تاہم اگر نئے قاضی کو یہ معلوم ہو جائے کہ پچھلے قاضی کے کسی فیصلے محکوم علیہ پر ظلم ہوا ہے تو ایسی صورت میں نیا قاضی سابقہ قاضی کے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتا ہے اور اگر اس فیصلے کو قرآن و سنت یا انصاف کے منافی پائے تو وہ اسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نیا قاضی ضروری نہیں کہ سابقہ قاضی کے تمام فیصلوں پر نظر ثانی کرے بلکہ صرف اسی صورت میں جب اس سے طلب کیا جائے۔

5) فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے مخصوص عدالتوں کا قیام:

مندرجہ بالا بحث سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح قاضیوں کو فیصلے کالعدم قرار دینے کا حق کہیں اس سے اصحاب الحقوق کے حق تو متاثر نہیں ہوں گے اور کہیں یہ چیزیں قضاء کے استقرار کو تو متاثر نہیں کریں گی۔ مزید یہ کہ فیصلوں پر نظر ثانی کے اختیار کو کہیں اصحاب اثر و نفوذ اپنے اثرو نفوذ کو بڑھانے کے لیے تو استعمال کرنا نہیں شروع کر دیں گے اور یہ کہ شریعہ اسلامیہ ایسی تمام صورتحال کو رد کرتی ہے تو کیا فقہاء کے اقوال کی روشنی میں فیصلوں پر نظر ثانی کا کوئی نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔ تو اس سوال کا جواب درج ذیل ہے۔

ولی الامر کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک یا ایک سے زیادہ قاضی متعین کر دے جن کا کام صرف مقدمات کے فیصلوں پر نظر ثانی ہے چنانچہ یہ قاضی مختلف فیصلوں کا جائزہ لیں اور ان فیصلوں میں سے جو حق کے مطابق ہوں ان کو برقرار رکھیں اور جن میں انصاف نہ ہو ان کو کالعدم قرار دیں۔ اس ضمن میں ولی الامر مختلف قوانین بھی وضع کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں آج کل مقدمات کی نظر ثانی کے قوانین سے بھی استفادہ کیا جا سکتا لیکن یہ قوانین ایسے نہیں ہونے چاہئے جن سے لوگوں کے حقوق متاثر ہوتے ہوں اور وہ کئی کئی سالوں تک اپنے حقوق سے محروم رہیں۔ (اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب))
 
Top