جرم کی عمومی بنیادیں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جرم کی تعریف کے سلسلے میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ جرائم دراصل میں وہ شرعی ممنوعات ہیں جن سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہو اور ان پر کوئی حد یا تعزیر بیان فرمائی ہو۔ ممنوعات یہ ہیں:

کسی ایسے عمل کو کرنا جس سے روکا گیا ہو۔ کسی ایسے عمل سے باز رہنا جس کا حکم دیا گیا ہو۔ ان ممنوعات کو ممنوعات شرعیہ اس لیے کہا گیا ہے کہ نصوص شریعت سے ان کے ممنوع ہونے کا اثبات ضروری ہے۔ نیز ان پر سزا بھی مقرر کرنا ضروری ہے، کیونکہ کسی کا م کا کرنا یا نہ کرنا بذات خود کوئی جرم نہیں ہے۔

اوامر (احکامات) اور نواہی (ممانعتیں) چونکہ شرعی ذمہ داریاں ہیں اس لیے ان اوامر و نواہی کا مخاطب ہر ذی عقل اور اس ذمہ داری کو محسوس کرنے والا ہو گا۔ کیونکہ کسی کو کسی حکم کا مکلف بنانا بھی خطاب ہے اور بے عقل و فہم کو مخاطب بنانا محال ہے۔ جیسے کہ جانوروں اور جمادات کو مخاطب نہیں بنایا جا سکتا۔

اس طرح جو شخص اصل خطاب کو تو سمجھ سکے مگر اس کی تفاصیل سمجھنے سے قاصر ہو کہ امر و نہی کیا کیا ہیں اور کون کون سے امور ثواب اور عقاب کے ہیں تو ایسا شخص بھی مثل حیوانات اور جمادات کے ہے کہ اسے مخاطب نہیں بنایا جا سکتا، جیسے مجنون اور بچہ کہ ان کو مکلف بنانا دشوار ہے کیونکہ تکلیف کے لیے جہاں یہ لازمی ہے کہ مخاطب اصل خطاب کو سمجھتا ہو وہاں یہ بھی لازم ہے کہ وہ اس کی تفاصیل سے بھی آشنا ہو سکے۔

جرم کی عمومی بنیادیں:

مندرجہ بالا بیان سے یہ علم ہوا کہ جرم کی عمومی لحاظ سے تین بنیادیں ہیں، جن کا موجود ہونا ضروری ہے۔

قانونی بنیاد:

جرم سے باز رکھنے والی اور اس کے ارتکاب پر سزا بیان کرنے والی کوئی نص (دفعہ) موجود ہو جسے ہم آج کی قانونی اصطلاح میں جرم کی قانونی بنیاد کہتے ہیں۔

کسی فعل کو حرام قرار دینے والی اور اس کے ارتکاب پر سزا بیان کرنے والی نص کا محض موجود رہنا ہی اس امر کے لیے کافی نہیں کہ ہر فعل پر ہر وقت، ہر جگہ اور ہر شخص کو سزا دی جا سکے۔ بلکہ فعل ممنوع پر سزا دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دفعہ جو اس فعل کو ممنوع قرار دیتی ہے اس فعل کے ارتکاب کے وقت قانونا نافذ ہو۔

اس مقام پر بھی نافذ ہو، جہاں ارتکاب فعل ہوا ہے اور اس شخص پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہو جس نے اس فعل ممنوع کا ارتکاب کیا ہے۔

جرم کی قانونی بنیاد پر گفتگو کرنے کے لیے درج ذیل موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے جو کہ درج ذیل فصول ہیں:

جرائم اور عقوبات کی مقررہ نصوص یا دفعات یعنی شریعت اسلامیہ کے احکام فوجدار

فوجداری دفعات کا اجراء اوقات پر

فوجداری دفعات کا اجراء مقامات پر

فوجداری دفعات کا اجراء اشخاص پر

مادی بنیاد:

کسی ایسے عمل کا ارتکاب جس کے کرنے یا نہ کرنے سے جرم بنتا ہو، اس آج کی قانونی اصطلاح میں جرم کی مادی بنیاد کہا جاتا ہے۔ یہ تب وجود میں آتا ہے جب فعل ممنوع کا ارتکاب کر لیا جائے، خواہ وہ جرم ایجابی ہو یا سلبی۔ ارتکاب جرم میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مجرم فعل ممنوع کو پورا کرے تو اس صورت میں جرم تام ہو گا۔

جیسے کوئی چوری کرے اور مال مسروق کو جائے حفاظت سے نکال کر لے آئے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ مجرم فعل ممنوع کا ارتکاب کر لے مگر اسے پورا نہ کر سکے تو اسے جرم غیر تام کہتے ہیں مطلب نا مکمل جرم۔ جیسے کوئی شخص کسی کے گھر سے چرائی ہوئی اشیاء لے کر نکلنے سےپہلے یا داخل ہونے کے فورا بعد پکڑا جائے تو ہم آج اسے قانون کی اصطلاح میں آغاز جرم کہتے ہیں۔

ارتکاب جرم میں ایک امر یہ بھی ہے کہ کبھی تو ارتکاب جرم شخص واحد کرتا ہے اور کبھی اس کے ساتھ جرم میں جماعت بھی تعاون کرتی ہے۔ اس صورت کو اشتراک جرم کہا جاتا ہے۔

ادبی بنیاد:

مجرم مکلف ہو اور اس سے اس کے جرم کی باز پرس ہو سکے۔ اسے ہم اصطلاح جدید میں جرم کی ادبی بنیاد کہتے ہیں۔

اس میں فوجداری مسؤلیت کی اساس، فوجداری مسؤلیت کا مقام، سبب مسؤلیت اور اس کے درجات، فوجداری ارادہ، لاعلمی، غلطی اور بھول کے مسؤلیت پر اثرات، رضا (خو شنودی) کے مسؤلیت پر اثرات، جرم سے وابستہ افعال اور ان کا مسؤلیت سے تعلق شامل ہوتے ہیں۔

ان تمام بنیادوں کا عمومی حیثیت سے ہر جرم میں موجود ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہی ہر جرم کی علیحدہ علیحدہ مخصوص بنیادوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہے تاکہ اس جرم پر سزا دینا ممکن ہو سکے۔ جیسے کہ چوری کے جرم میں چھپا کر کوئی چیز لینے کا عمل اور زنا کے جرم میں صنفی عمل۔ اور اس کے علاوہ دیگر مخصوص بنیادیں جن پر جرائم قائم ہوتے ہیں۔
 
Top