حدود کون سی سزائیں کہلاتی ہیں؟

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حدود کون سی سزائیں کہلاتی ہیں:

جن جرائم کی سزائیں حدود کہلاتی ہیں وہ یہ ہیں

1) زنا 2) قذف 3) مے نوشی 4) چوری

5) خون ریزی 6) ارتداد 7) بغاوت

1) عقوبات زنا:

شریعت اسلامیہ میں زنا کی درج ذیل سزائیں مقرر کی ہیں:

عقوبت جلد: شریعت نے غیر محصن زانی کو کوڑوں کی سزا دی ہے۔ سو کوڑوں کی یہ حد قرآن میں مقرر کی گئی ہے۔ کوڑوں کی سزا کی اساس جرم کے داعی محرکات کو جرم سے روکنے والے محرکات سے رد کرنا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ۪ وَّ لَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۚ وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۝

بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد جب انکی بدکاری ثابت ہو جائے تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو۔ اور اگر تم ﷲ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو تو ﷲ کے قانون کو نافذ کرنے میں تمہیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے۔ اور چاہیے کہ انکی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو۔ (سورۃ النور 2)

جلا وطنی: شریعت اسلامی نے غیر محصن زانی کو یہ سزا بھی دی ہے کہ کوڑوں کی سزا کے بعد اس کو ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے کیونکہ ارشاد نبوی ہے

نوجوان مرد و عورت کو زنا کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے

اس حد پر فقہاء کا اتفاق نہیں ہے۔ اس لیے امام ابو حنیفہ کے ہاں جلا وطنی کی سزا اگر درست بھی ہے تو یہ تعزیر ہے اسے حد میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

رجم کی سزا: زانی محصن (شادی شدہ) مرد ہو یا عورت اس کی سزا رجم ہے۔ رجم کے معنی پتھروں سے قتل کرنا ہے۔ رجم کے بارے میں قرآن میں کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ اس لیے خوارج نے اس کا انکار کیا ہے اور ان کا مسلک یہ ہے کہ محصن اور غیر محصن زانی کی ایک ہی سزا ہے۔ خوارج کے علاوہ تمام امت کے نزدیک سزائے رجم پر اجماع ہو چکا ہے۔ کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے رجم کا حکم فرمایا اور آپ کے بعد آپ کے تمام صحابہ رضی ﷲ عنہم نے اس پر اجماع کیا۔

2) عقوبت قذف:

قذف کا مطلب زنا کی تہمت لگانا ہے۔ قذف کی شریعت اسلامی میں دو سزائیں ہیں۔ ایک اصلی جو کہ کوڑوں کی سزا ہے اور دوم تبعی یعنی قاذف کی شہادت کا قبول نہ ہونا۔

کوڑوں کی سزا اگرچہ فی ذاتہ دو انتہاؤں والی ہے مگر قاذف کی عقوبت جلد کی ایک ہی انتہاء ہے کیونکہ کوڑوں کی تعداد متعین ہے اور عدالت کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس میں کمی بیشی کر سکے قذف کی سزا کے بارے میں فرمان الہی ہے:

وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡهُمۡ ثَمٰنِيۡنَ جَلۡدَةً وَّلَا تَقۡبَلُوۡا لَهُمۡ شَهَادَةً اَبَدًا‌ۚ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۝

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں۔ (سورۃ النور آیت 4)

واضح رہے کہ شریعت اسلامی نے قذف کی یہ سزا اسی وقت ہے جب کہ تہمت میں من گھڑت اور جھوٹ ہو اور اگر امر واقعی ہو تو نہ یہ جرم ہے اور نہ ہی اس پر سزا ہے۔

3) شراب نوشی کی سزا:

شریعت اسلامی نے جرم مے نوشی پر اسی کوڑے کی سزا مقرر کی ہے جو ایک ہی انتہا والی ہے کیونکہ اس میں عدالت کو کمی بیشی اور تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔ شراب نوشی کی سزا کے بارے میں امام شافعی کو اختلاف ہے۔ اس ‎سزا کی دلیل رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔ آپ نے فرمایا:

جو شخص شراب پيئے اسے کوڑے مارو۔ اگر دوبارہ پیئے تو پھر مارو

شراب کی حرمت قرآن سے ثابت ہے۔ مقدار سزا کے بارے میں صحیح رائے یہ ہے کہ شراب کی سزا اسی کوڑے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے عہد میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے مقرر کی تھی۔

4) چوری کی سزا:

چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا قرآن پاک میں مقرر ہوئی۔ ارشاد باری تعالی ہے

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَيۡدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَـكَالاً مِّنَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏

چوری کرنے والا (مرد) اور چوری کرنے والی (عورت) سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو اس (جرم) کی پاداش میں جو انہوں نے کمایا ہے۔ (یہ) اﷲ کی طرف سے عبرت ناک سزا (ہے)، اور اﷲ بڑا غالب ہے بڑی حکمت والا ہے۔ (سورۃ المائدۃ 38)

اس امر پر اکثر فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ ایدی کے تحت ہاتھ اور پیر دونوں آتے ہیں۔ اگر چور پہلی مرتبہ چوری کرے تو اس کا داہنا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور دوسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا وار ہاتھ کے گٹے کے جوڑ اور پیر ٹخنے کے جوڑ سے کاٹا جائے گا۔

5) خون ریزی کی سزا:

شریعت اسلامی نے جرم خون ریزی کی چار سزائیں مقرر کی ہیں:

قتل: راہزن اگر قتل بھی کرے تو اس کی سزا قتل ہے۔ یہ قتل حد ہے قصاص نہیں ہے۔ اس لیے مجنی علیہ کے ولی کے معاف کر دینے سے ساقط نہ ہو گی۔ یہ سزا بھی انسانی طبیعت کے علم اور واقفیت کی اساس پر مقرر کی گئی ہے۔

قتل اور پھانسی: اگر راہزن قتل بھی کرے اور مال بھی لوٹے تو اس کے جرم قتل اور جرم سرقہ کی سزا قتل اور پھانسی ہے۔ یا یہ دو ایسے جرائم کی سزا ہے جو باہم مل گئے ہیں یا ایک کا ارتکاب دوسرے کے لیے گیا گیا ہے یعنی مال کے حصول کے لیے قتل کر دیا گیا۔ یہ سزا بھی حد ہے قصاص نہیں ہے۔ اس لیے مجنی علیہ کے ولی کے معاف کر دینے سے ساقط نہ ہو گی۔

قطع: راہزن اگر قتل نہ کرے صرف مال لوٹے تو اس کی سزا قطع ہے اور قطع کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کا دایاں ہاتھ اور بایاں پیر ایک ہی مرتبہ کاٹ دیا جائے گا۔ اس عقوبت کو اسی اساس پر قائم کیا گیا ہے جس اساس پر عقوبت سرقہ قائم ہوئی ہے۔

جلا وطنی کی سزا: راہزن کی یہ سزا اس وقت ہے جب وہ راستوں میں خوف و ہراس پھیلائے۔ لیکن جرم قتل نہ کرے اور نہ ہی مال لوٹے۔

6) ارتداد کی سزا:

اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہو جائے تو پہلے اسے دوبارہ مذہب اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائیگی اور حکمت وبصیرت کے ساتھ ہر ممکن کوشش کی جائیگی کہ وہ دوبارہ مذہب اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر مرتد مذہب اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے ﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھنا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں مرتد کی کیا سزا بیان کی گئی ہے۔

ﷲ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ بچھڑے کی عبادت کرنے کی وجہ سے مرتد ہو گئے تھے۔ ﷲ تعالی نے ان کے متعلق حکم فرمایا:

فَتُوْبُوْا اِلیٰ بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ

لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ ( البقرۃ 54)

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی اور مرتد ہوگئے تھے، ان کو اُن لوگوں کے ہاتھوں سے ﷲ تعالی کے حکم کے مطابق قتل کرایا گیا جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی۔

بنی اسرائیل کے اس واقعہ کے ضمن میں ﷲ تعالی نے اپنی عادت جاریہ بیان فرمائی کہ مرتد ہونے والے شخص کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آںحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دین تبدیل کرکے مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔

7) بغاوت کی سزا:

شریعت اسلامی جرم بغاوت پر قتل کی سزا دیتی ہے۔ اس کی اصل یہ فرمان الہی ہے:

وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰىہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۝

اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ ﷲ کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ ﷲ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (الحجرات 9)

اس طرح فرمان نبوی ہے کہ جس نے دل سے امام کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو اب اس پر لازم ہے کہ وہ اس امام کی ممکن حد تک اطاعت کرے اور اگر کوئی شخص امام کی امامت چھیننے لگے تو اس کی گردن اڑا دو۔
 
Top