جرم سرقہ کا تعارف اور اقسام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
سرقہ کا مفہوم:

کسی دوسرے کا مال پوشیدہ طریقے پر لے لینا چوری کہلاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں سرقہ کی دو قسمیں ہیں:

1: وہ سرقہ جس کی سزا حد ہے۔

2: وہ سرقہ جس کی سزا تعزیر ہے۔

1) وہ سرقہ جس کی سزا حد ہے کی اقسام:

جس سرقہ پر سزا حد ہے اس کی دو قسمیں ہیں

1: سرقہ صغری ( چھوٹی چوری)

2: سرقہ کبری (بڑی چوری)

سرقہ صغری یہ ہے کہ کسی دوسرے کا مال چھپا کر لے لیا جائے جب کہ سرقہ کبری کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کا مال زبردستی چھین لیا جائے۔ اس کو حرابہ بھی کہتے ہیں۔

سرقہ کبری اور سرقہ صغری میں فرق یہ ہے کہ سرقہ صغری میں مجنی علیہ کا مال اس کے علم کے بغیر اور اس کی رضا مندی کے بغیر لیا جاتا ہے اور اس میں ان دونوں شرائط کا موجود ہونا لازم ہے۔ اگر کوئی ایک شرط موجود نہ ہو تو یہ سرقہ صغری نہیں رہے گی۔ چنانچہ اگر کسی نے کسی کے گھر سے بغیر طاقت استعمال کیے اور صاحب مکان کے سامنے سامان اٹھایا یہ تو سرقہ صغری نہیں ہے۔

سرقہ کبری میں مال مجنی علیہ کی رضا مندی کے اور اس کے علم کے ساتھ اور غلبہ سے لیا جاتا ہے۔ اگر غلبہ نہ ہو اور مجنی علیہ کی رضا مندی بھی نہ ہو تو یہ اختلاس غصب اور نہب ہے۔

2: وہ چوری جس کی سزا تعزیر ہے اس کی اقسام:

ایک قسم تو وہ ہے جس میں ہر حد والی چوری داخل ہے جس کی شرائط حد پوری نہ ہوں یا جس میں شک کی وجہ سے حد ساقط ہو گئی ہو۔ جسیے بیٹے کا مال لینا، یا مال مشترک لے لینا۔ اس میں یہ امر برابر ہے کہ دراصل یہ چوری سرقہ صغری ہے یا کبری اور دوسری قسم یہ ہے کہ بغیر چھپائے ہوئے مجنی علیہ کے علم کے باوجود بغیر اس کی رضا مندی اور بغیر غلبہ حاصل کیے مجنی علیہ کا مال لے لیا جائے۔ اس قسم میں اختلاس (اچکنا) غصب (چھیننا) اور نہب (لوٹنا) داخل ہیں۔ مثلا کسی نے کپڑے اتار کر اپنے پاس رکھ لیے اور کوئی انہیں اٹھا کر مجنی علیہ کی نظروں کے سامنے لے کر بھاگ گیا یا کسی نے ہاتھ میں نوٹ پکڑا ہوا تھا اور کسی نے اچک لیا۔ سرقہ کی اس قسم میں حد یعنی قطع ید نہیں ہے۔

شریعت اسلامیہ کی نظر میں تمام چوریاں انہی چار قسموں میں سے کسی ایک میں داخل ہوتی ہیں اور فقہاء کرام جب سرقہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس کے احکام بیان کرتے ہیں تو اس سے مراد سرقہ صغری ہوتی ہے۔ جب کہ ان کی اصطلاح میں سرقہ کبری کو حرابہ یا قطع طریق (راہزنی) کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نہب، غصب اور اختلاس کے لیے اصطاحا لفظ اختلاص استعمال کیا جاتا ہے۔

سرقہ کے ارکان

سرقہ کے تین ارکان ہیں:

1: چھپا کر مال چرانا

2: مسروقہ چیز مال ہو

3:مسروقہ چیز کسی اور کی ملکیت ہو

ان کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے

1) سرقہ کا پہلا رکن: چھپا کر مال چرانا:

چھپا کر لینے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شے مجنی علیہ کے علم اور اس کی رضا مندی کے بغیر لی جائے جیسے کوئی شخص کسی کے گھر سے اس کی غیر موجودگی میں یا اس کے سوئے ہوئے ہونے کی صورت میں اس کا سامان چرا لے یا جیسے کوئی شخص مالک کی غیر موجودگی میں یا اس کی خوابیدگی کے دوران کھلیان سے پیداوار چرا لے۔

اب اگر یہ لینا مجنی علیہ کی موجودگی میں بغیر غلبہ کے لے تو یہ سرقہ نہیں ہے اختلاس ہے اور اگر مجنی علیہ کے علم کے بغیر مگر اس کی رضا مندی سے لیا ہے تو یہ سرے سے سرقہ ہی نہیں۔

مال کا لے لینا (اخذ مال) مکمل ہونا چاہیے چنانچہ جرم سرقہ کے لیے محض شے مسروق کو ہاتھ لگا دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس میں امیں مال لے لینا کی تین شرائط موجود ہونی چاہییں۔

1: چور (سارق) مال مسروق کو اس جگہ سے نکال لے جہاں وہ بطور حفاظت رکھا ہوا ہو۔

2: چور مسروقہ مال کو مجنی علیہ کے قبضے سے نکال لے۔

3: چور مسروقہ مال کو اپنے قبضہ میں لے لے۔

اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط موجود نہ ہو تو یہ لے لینا نا مکمل ہو گا اور اس کی سزا قطع ید نہیں تعزیر ہو گی۔

2) دوسرا رکن: مسروقہ چیز مال ہو:

آج کل محل سرقہ (یعنی جس شے کو چرایا جا سکے) صرف مال ہے۔ لیکن غلامی کے خاتمہ سے قبل شریعت اسلامیہ کی نظر میں غلام اور باندی بھی محل سرقہ تھے کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے مال ہی تھے اور مال ہی طرح ان میں تصرف ہو سکتا تھا اگرچہ وہ دوسرے لحاظ سے اشخاص تھے۔

اور یہی صورت حال مروجہ قوانین میں بھی ہے لیکن غلامی کے خاتمے کے بعد امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک کوئی شخص محل مسروقہ نہیں بن سکتا اور یہی رائے مسلک شیعہ زیدیہ کی بھی ہے۔

جب کہ امام مالک اور مسلک ظاہریہ کے فقہاء کے نزدیک نا سمجھ بچہ بھی محل سرقہ بن سکتا ہے اگرچہ آزاد ہو اور اس طرح بچے کو چرانے والے کو مال کے چرانے والے کی طرح قطع ید کی سزا دی جائے گی۔ اور یہ مسلک شیعہ زیدیہ کی بھی ایک رائے ہے۔

یہ فقہاء اگرچہ اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ جرم سرقہ صرف مال پر واقع ہوتا ہے لیکن وہ ناسمجھ بچے کو اس سے مستثنی کرتے ہوئے اس کے اٹھا لینے کو مال کی چوری کے حکم میں داخل کرتے ہیں۔ سارق کو قطع ید کی سزا دینے کے لیے مسروق مال میں یہ شرائط موجود ہونا چاہییں

1: مال منقول ہو۔

2: مال کی قیمت ہو۔

3: مال محفوظ جگہ پر رکھا ہوا ہو اور مال بقدر نصاب ہو۔

3) تیسرا رکن: مسروقہ شے دوسرے کی ملکیت ہو:

جرم سرقہ کے وجود میں آنے کے لیے شرط یہ ہے کہ مسروق شے سارق کے علاوہ کسی اور کی ملکیت ہو۔ اگر مسروقہ شے سارق کی ملکیت ہو تو وہ مسروقہ متصور نہ ہو گا خواہ اس نے اس شے کو چھپا کر لیا ہو۔

مسروقہ شے کی سارق کی ملکیت کا وقت سرقہ کا اعتبار ہے اگر وہ اس شے کا سرقہ سے پہلے مالک ہو اور سرقہ کے وقت سے ذرا پہلے وہ اس کی ملکیت سے نکل گئی ہو تو وہ اس مسروقہ پر مسؤل بھی ہے اور اس پر قطع ید بھی ہے۔ اور اگر وہ اس شے کا پہلے سے مالک نہ ہو لیکن وقت سرقہ وہ اس کی ملکیت میں آ گئی ہو تو اس پر کوئی مسؤلیت نہیں ہے مثلا وہ سرقہ کے دوران اس شے کا وارث ہو گیا ہو۔

بہرحال عدم مسؤلیت کی شرط یہ ہے کہ چور مسروقہ شے کے جائے حفاظت سے نکالنے سے پہلے ہی اس کا مالک ہو گیا ہو۔ اگر مسروقہ شے کو جائے حفاظت سے نکالنے کے بعد اس کا مالک بنا تو فوجداری مسؤلیت سے نہیں بچے گا۔ کیونکہ جائے حفاظت سے نکالنے کے وقت وہ شے دوسرے کی ملکیت تھی۔ اس صورت میں امام مالک کے نزدیک مطلقا قطع ید کی سزا ہے جبکہ امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور شیعہ زیدیہ اس صورت میں کہ مسروقہ شے کی ملکیت سرقہ کی اطلاع پہنچانے اور مسروقہ شے کا مطالبہ کرنے سے پہلےہو، قطع ید کے قائل نہیں ہیں اور مجرم کو معذور تصور کیا جائے گا۔

اس لیے کہ ان فقہاء کے نزدیک قطع ید کے لیے مجنی علیہ کا مسروق کا مطالبہ شرط ہے۔ پس اگر مطالبے کے بعد مجرم کو اس شے کی ملکیت حاصل ہوئی تو یہ ملکیت قطع ید کے فیصلے کے اجراء میں مانع نہیں ہے۔

قصد جنائی (مجرمانہ ارادہ):

چھپا کر لینا اس وقت سرقہ متصور ہوتا ہے جب مجرم کا ارادہ جرم (قصد جنائی) بھی موجود ہو۔ یہ فوجداری ارادہ اس وقت موجود ہوتا ہے جب مجرم یہ جانتے ہوئے کسی شے کو لے رہا ہو کہ اس کا لینا حرام ہے۔ اور اس نے اس شے کو مجنی علیہ victim کے علم اور اس کی رضا مندی کے بغیر خود مالک بننے کے لیے لیا ہو۔

پس اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کوئی شے لے کہ یہ اس کے لیے مباح یا متروک ہے تو اس پر سزا نہیں ہے اس لیے ارادہ جرم موجود نہیں ہے اور اس نے اس لینے کو جائز لینا سمجھا ہے۔ اور اگر کسی نے کوئی شے بغیر اس کی ملکیت کے ارادے کے لی مثلا اس نے صرف دیکھنے کے لیے لی یا اس لیے لی کہ استعمال کے بعد وہیں رکھ دے گا یا اس نے مذاق کے طور پر لی اور وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ مجنی علیہ اس اخذ میں اس کے موافق ہو گا تو ان صورتوں میں لینا والا سارق متصور نہیں ہو گا کیونکہ ارادہ فوجداری موجود نہیں ہے۔

گواہی (شہادت):

جرم سرقہ کے گواہوں کی بھی وہی شرائط ہیں جو زنا کے گواہوں کے لیے ہیں۔ جرم سرقہ دو شاہدوں سے ثابت ہو جاتا ہے اگر شاہد دو سے کم ہوں یا ان میں سے ایک عورت ہو یا ایک شاہد سماعی ہو تو قطع ید نہیں ہے۔

البتہ مسروقہ شے کی ملکیت کے بارے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ایک عینی شاہد اور دو سماعی شاہدوں کی گواہی اور ایک مرد کی گواہی اور مدعی کی قسم قابل قبول ہو گی۔ اگر جرم سرقہ مین مطلوب گواہی میسر نہ ہو تو قطع ید نہیں ہے اور قاضی مجرم کو سزائے تعزیر دینے اور مسروقہ شے کی قیمت کا تاوان دینے کا فیصلہ دے گا۔

اقرار:

جرم سرقہ اقرار (اعتراف جرم) سے ثابت ہو جاتا ہے خواہ یہ اقرار ارتکاب سرقہ کے کچھ وقت گزرنے کے بعد ہو۔ کیونکہ جو فقہاء تقادم کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی تقادیم اقرار پر غیر مؤثر ہے اس لیے اگر کوئی شخص خود اعتراف کرے تو اسے متہم (مورد الزام) نہیں سمجھا جائے گا۔

مسلک ظاہریہ کے فقہاء کے نزدیک اقرار ایک ہی مرتبہ ہو گا اور متعدد بار نہیں ہو گا۔ بہرحال تعداد اقرار میں باقی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ چنانچہ امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ایک اقرار کے قائل ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی سارق کا ہاتھ اس وقت تک نہیں کاٹا جب تک اس نے دو یا تین مرتبہ اقرار نہیں کر لیا۔ اس حکم پر یہ نتیجہ مرتب ہو گا کہ ایک مرتبہ اقرار کرنے کا قطع ید نہیں ہو گا۔ البتہ تعزیری سزا دی جائے گی اور مسروقہ شے کی قیمت کے تاوان کا حکم دیا جائے گا۔

قسم:

مسلک شافعی کی ایک رائے یہ ہے کہ سرقہ یمین مردودہ (لوٹائی ہوئی قسم) سے ثابت ہو جاتا ہے اور جب اس طرح ثابت ہو جائے تو مجرم کا قطع ید ہو گا چنانچہ اگر شہادت موجود نہ ہو اور مجرم اعتراف جرم بھی نہ کرے اور مجنی علیہ کے سارق پر الزام سرقہ کی صورت میں سارق قسم کھانے سے بھی انکار کرے اور مدعی خود قسم کھا لے تو سارق کا قطع ید ہو گا اس لیے یمیمن ( مردودہ) لوٹائی ہوئی قسم کی حیثیت اقرار جیسی ہے اور بینہ بھی وسائل اثبات میں سے ایک وسیلہ ہے جن میں سے ہر ایک پر قطع ید ہوتا ہے تو یمین مردودہ پر بھی قطع ید ہونا چاہیے۔

مگر مسلک شافعی کی رائج رائے یہی ہے کہ قطع ید صرف بینہ اور اقرار سے ہوتا ہے اور یمین مردودہ سے قطع ید نہیں ہوتا۔ اس سے صرف مال مسروق کا اثبات ہوتا ہے اور یہ رائے مسلک امام احمد سے ہم آہنگ ہے۔ یہ فقہاء یمیمن مردودہ کو صرف اثبات مال کی دلیل مانتے ہیں اور اس پر قطع ید کے قائل نہیں ہیں۔ (اسلامی قانون قصاص و دیت اور تعزیرات, 2017)
 
Top