بغاوت کا تعارف

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
بغاوت کا تعارف

جرم بغاوت کی تعریف:

لغت کی رو سے بغی کے مطلب تلاش کے ہیں۔ چنانچہ اسی معنی میں قران کریم میں ہے:

قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا۝

(موسیٰ نے) کہا یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔ (سورۃ الکہف 64)

بغاوت البغی سے مشتق ہے اور البغی لغوی طور پر کبھی طلب کے لئے آتا ہے اور کبھی تعدی (ظلم و زیادتی) کے لئے۔ اصطلاحِ فقہاء میں بغاوت سے مراد ایسی حکومت کے احکام کو نہ ماننا اور اس کے خلاف مسلح خروج کرنا ہے جس کا حق حکمرانی قانون کے مطابق قائم ہوا ہو۔

علماء کی نظر میں بغاوت کی تعریف:

علماء نے اس کی مختلف الفاظ میں تعریف کی ہے:

علامہ ابن فارس: بغی کا مادہ ب، غ اور ي ہے اور اس کی اصل دو چیزیں ہیں۔ پہلا معنی کسی چیز کا طلب کرنا ہے جبکہ دوسرے معنی کے مطابق یہ فساد کی ایک قسم ہے۔ دوسرے معنی کی مثال دیتے ہوئے اہل زبان کا کہنا ہے : بغی الجرح، زخم فساد کی حد تک بڑھ گیا یعنی بہت زیادہ خراب ہو گیا۔ اسی سے اس نوعیت کے دیگر الفاظ مشتق ہوتے ہیں مثلا بَغيٌ بری عورت کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ شرم و حیا کی حدیں پھلانگ کر بدکاری کی مرتکب ہوتی ہے۔ اور اسی مادے سے بَغيٌ کا معنی ایک انسان کی طرف سے دوسرے پر ظلم و زیادتی ہے۔ جب بغاوت کسی شخص کی عادت بن جائے تو اس سے فساد خود بخود جنم لیتا ہے اور (اسی لیے) بَغيٌ ظلم کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔

علامہ ابن نجیم حنفی بغاوت کی تعریف میں لکھتے ہیں: ''البغاۃ باغی کی جمع ہے۔ بغی علی الناس کا معنی ہے: اس نے لوگوں پر ظلم اور زیادتی کی ہے۔ بغی کا معنی یہ بھی ہے کہ اس نے فساد پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اور اسی سے فرقہ باغیہ ہے اس لئے کہ وہ راہ راست سے ہٹ گیا ہے''۔

علامہ حصکفی درالمختار میں بغاوت کے معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ''لغت کی رو سے بغی کا معنی ہے: ’’طلب کرنا‘‘ مثلاً ﴿ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ﴾ میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عرف میں اس سے مراد ناجائز ظلم و ستم کرنا ہے۔''

یہی معنوی تفصیلات تہذیب اللغۃ، الصحاح اور لسان العرب میں بھی مذکور ہیں۔

ان لغوی تعریفات سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ بغاوت کے لفظ میں ہی ظلم اور زیادتی کا معنی پایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں شرعی قیود اور قانونی و آئینی حدود کو توڑ کر معاشرے میں بد امنی، زیادتی اور ظلم کا مرتکب ہوا جاتا ہے۔

بغاوت کی اصطلاحی تعریف:

اہل لغت نے بغاوت کی کئی تعریفات بیان کی ہیں اور وہ سب ایک ہی معنوی اصل کی طرف لوٹتی ہیں۔ اسی طرح مختلف فقہی مذاہب میں بھی بغاوت کی کئی تعریفات کی گئی ہیں۔ ان سب میں بھی معنوی اصل ایک ہی ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

احناف: فقہاء کے ہاں عرف عام میں آئین و قانون کے مطابق قائم ہونے والی حکومت کے نظم اور اتھارٹی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے کو باغی (دہشت گرد) کہا جاتا ہے۔

مالکیہ: باغی وہ لوگ ہیں جو مسلم ریاست کے خلاف خود ساختہ تاویلات کی بناء پر مسلح بغاوت کرتے ہیں یا اس کی اتھارٹی کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ حق ادا نہیں کرتے جس کی ادائیگی (بطور پر امن شہری) ان کے ذمہ لازم تھی جیسا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی یا اس طرح کے دیگر واجبات۔

شوافع: باغی مسلم حکومت کے اس مخالف کو کہتے ہیں جو اس کی اتھارٹی تسلیم نہ کرے اس طرح کہ جو اس پر یا دوسروں پر واجب ہے وہ مشروط طور پر روک لے۔

حنابلہ: جب طاقت اور مضبوط ٹھکانوں والا کوئی گروہ کسی مشتبہ تاویل کی بناء پر مسلم حکومت کے نظم (writ) سے نکل جائے تو اس کے ساتھ جنگ کرنا مباح ہے یہاں تک کہ وہ واپس (حکومت کے نظم کی اطاعت) لوٹ آئے۔

جعفریہ: باغی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرے اور اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے۔ پس حکومت وقت پر لازم ہے کہ ان کے خلاف جنگ کرے۔ اور ہر اس شخص پر لازم ہے جسے حکومت ان کے خلاف اٹھنے کا حکم دے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کرے۔ اور حکومت وقت کے علاوہ اس کی اِجازت کے بغیر کسی کے لئے ان دہشت گرد باغیوں کے ساتھ جنگ کرنا جائز نہیں۔ جب ان کے ساتھ جنگ شروع کردی جائے تو اُس وقت تک حکومت اس سے پیچھے نہ ہٹے جب تک وہ حق کی طرف لوٹ نہ آئیں یا قتل نہ کردیئے جائیں۔ اور ان سے کسی قسم کا معاوضہ اور ٹیکس بھی قبول نہ کیا جائے۔ (بغاوت کیا ہے اور باغی کون ہوتا ہے؟ (اصطلاحات، تعریفات اور علامات))
 
Top