تحکیم کی مشروعیت، رجوع اور کن چیزوں میں تحکیم جائز ہے

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تحکیم کا مفہوم:

لغوی مفہوم میں تحکیم سے مراد "وہ حکم جو تمہارے اپنے لیے ہے اسے دوسرے کے لیے بھی نافذ کرنا ہے"۔

فقہی اصطلاح میں متنازع فریقین کا کسی ایک شخص پر بطور حکم متفق ہونا ہے۔ دونوں فریقین اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ حکم کے فیصلے کو قبول کریں۔ تحکیم فیصلہ لوگوں کے درمیان ایسے ہی معتبر ہوتا ہے جیسے قاضی کا فیصلہ۔ تحکیم کا رکن وہ الفاظ ہیں جو تحکیم پر دلالت کریں۔ مثال کے طور پر

احکم بیننا اور جعلناک حکما او حکمناک فی کذا مع قبول الاخر ای قبول المحکم

ہمارے درمیان فیصلہ کر، یا ہم نے آپ کو حکم بنایا یا ہم نے آپ کو اس اس طرح حکم بنایا دوسرے کے قبول کرنے کے ساتھ۔

تحکیم کی مشروعیت:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا

اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک مُنْصِفْ مرد کے گھر والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک مُنْصِفْ عورت کے گھروالوں کی طرف سے (بھیجو) یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو ﷲ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔ بیشک ﷲ خوب جاننے والا ،خبردار ہے۔ (سورۃ النساء آیت 35)

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زوجین اپنی ازدواجی زندگی کے استمرار اور اپنے اختلافات کے خاتمے کے لیے حکم اختیار کر لیں۔ پس جب زوجین کے حق میں ﷲ تعالیٰ نے خود تحکیم اختیار کرنے کا حکم دیا ہے تو دوسرے معاملات میں بھی اس کا اختیار کرنا درست ہو گا۔ آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قاضی شریح سے فرمایا تھا

ان ﷲ ھو الحکم و الیہ الحکم فلم تکنی ابا الحکم فقال: ان قومی اذا اختلفوا فی شئی اتونی فحکمت بینھم فرضی کلا الفریقین، قال النبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ما احسن ھذا مفالک من الولد؟ قالی لی شریح و عبد و مسلم قال صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم من اکبرھم؟ قال شریح، قال رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فانت ابو شریح

آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قاضی شریح سے کہا کہ ﷲ تعالیٰ کا حکم ہے تو ابا الحکم کی کنیت اختیار کیوں نہیں کرتے۔ شریح نے کہا میری قوم میں جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں تو دونوں فریق راضی ہو جاتا ہیں۔ اس پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یا کتنا اچھا عمل ہے۔ کیا تمھاری اولاد ہے۔ شریح نے کہا میرے ہاں شریح ہے عبد ہے اور مسلم ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ان میں سے بڑا کون ہے۔ قاضی شریح نے کہا شریح۔ اس پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کہا پس تو ابو شریح ہے۔

صحابہ کرام سے بھی ایسی روایتیں ہیں جو تحکیم کا جواز ہیں۔ جب حضرت عمر کا ابی بن کعب سے ایک زمین کے بارے میں تنازع ہوا تو زید بن ثابت ان دونوں کے درمیان حکم بنے۔ اسی طرح حضرت عثمان اور طلحہ نے جبیر بن مطعم کو حکم بنایا اور وہ قاضی نہ تھے۔

حکم کی شرائط:

حکم میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ قضاء کے اہل ہوں۔ اس کی شرائط میں یہ بھی ہے کہ اگر جھگڑا کے فریقین مسلمان ہوں کیونکہ غیر مسلم کو مسلمانوں پر گواہی کی اہلیت نہیں ہوتی اس لیے وہ ان کے درمیان حکم بھی نہیں بن سکتا۔ اگر جھگڑے کے فریقین ذمی ہوں اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے والا بھی ذمی ہو تو پھر درست ہے چونکہ ذمیوں کا قاضی بھی بن سکتا ہے اور اس کو ان پر اہلیت شہادت بھی حاصل ہے۔ اس لیے ذمی ذمیوں کا حکم بن سکتا ہے۔

تحکیم سے رجوع:

حکم بھی اس قانون کی رو سے فیصلہ کرے گا جس قانون کی رو سے قاصی فیصلہ کرتا ہے اور وہ اسلامی قانون ہے۔ اور اثبات کے لیے حکم بھی انہی وسائل اثبات پر اعتماد کرے گا جس پر قاضی فیصلہ کرتا ہے جیسے گواہی، اقرار، نکول، یمین وغیرہ۔

تحکیم کے فیصلے سے قبل دونوں فریقین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تحکیم سے رجوع کر لیں اور اگر تحکیم شروع ہونے کے بعد کسی فریق نے رجوع کیا تو اس بارے میں دو قول ہیں:

ایک قول یہ ہے کہ یہ رجوع کرنا درست ہے۔

جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس طرح تحکیم کا حکم باطل ہو جائے گا کیونکہ جب بھی کوئی فریق یہ دیکھے گا کہ فیصلہ اس کے خلاف ہو رہا ہے تو وہ رجوع کرے گا۔ اس طرح تحکیم کا مقصود باطل ہو جائے گا۔

کن چیزوں میں تحکیم جائز ہے:

احناف کہتے ہیں کہ تحکیم حدود ﷲ اور قصاص میں جائز نہیں ہے اور نہ ہی دیات میں جائز ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حکم کا فیصلہ ایک طرح سے صلح ہوتی ہے۔ پس جن چیزوں میں صلح جائز ہے ان میں تو تحکیم بھی جائز ہے اور جس میں صلح جائز نہیں ہے ان میں تحکیم بھی جائز نہیں۔

مالکیہ کا کہنا ہے کہ تحکیم مالی معاملات اور جو معاملات ان سے متشابہ ہوں ان میں جائز ہے تاہم حدود ﷲ، قصاص، طلاق، نسب اور ولاء کے معاملات میں جائز نہیں ہے کیونکہ یہ چیزیں تحکیم کے دائرہ میں داخل نہیں ہے۔

شافعیہ میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ تحکیم کا جواز مال اور عقود وغیرہ میں ہے حدود و قصاص میں تحکیم جائز نہیں ہے۔ شافعیہ میں سے ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ تحکیم ہر اس چیز میں جائز ہے جس میں دو فریقین تحکیم پر متفق ہو جائیں جیسا کہ اس میں قاضی کا حکم جائز ہے جسے امام نے مقرر کیا ہو۔

حنابلہ کہتے ہیں کہ تحکیم نکاح، لعان، حدود اور قصاص کے معاملات میں جائز نہیں۔ اس کے علاوہ باقی معاملات میں تحکیم کا جواز ہے۔ جبکہ ان میں سے ابو خطاب کا کہنا ہے کہ تحکیم تمام چیزوں میں جائز ہے۔
 
Top