مقدمے کو نافذ کرنے والی اتھارٹی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
فیصلوں کا نفاذ:

جب کسی مقدمہ میں قاضی نے فیصلہ کر دیا اور محکوم علیہ نے رضا مندی سے فیصلے پر عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیا تو وہ کون سے ایسی اتھارٹی ہے جو اس فیصلے پر عمل کروائے گی۔ کیونکہ فیصلوں کا مقصد ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس نفاذ سے تنازعات ختم ہو جاتے ہیں اور حقدار کو حق مل جاتا ہے۔ اس کی مزید تفصیلات ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔

1: وہی قاضی جس نے فیصلہ کیا ہے اس کا نفاذ کروائے گا:

جو قاضی کوئی فیصلہ کرے گا وہی اس کا نفاذ بھی کروائے گا۔ اگر اس کے لیے اپنے طور پر ممکن نہ ہو تو وہ جس جس سرکاری ادارے سے تعاون چاہتا ہے اس کا تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تعاون وہ خط و کتابت کے ذریعسے حاصل کر سکتا ہے۔ اس بارے میں مارودی کہتے ہیں:

جب کسی شخص کا حق کسی قاضی کے ہاں ثابت ہو جائے اور وہ شخص موجود ہو تو قاضی فوراً اس شخص کے حق کو نافذ کر دے۔

اسی بنا پر اگر محکوم علیہ کوئی جائیداد ہو یا جانور ہو یا کوئی اور ملکیت تو قاضی نے جس کے حق میں فیصلہ کیا ہے وہ چیز اس کے حوالے کی جائے گی۔ اگر وہ شخص جس کے خالف فیصلہ کیا گیا ہے ان چیز کو حوالے کرنے سے انکار کرے تو قاضی ان چیز کو خود محکوم لہ کے حوالے کر دے۔

اگر محکوم بہ قرضہ ہو تو قاضی محکوم علیہ کو حکم دے گا کہ وہ اسے محکوم لہ کو ادا کرے۔ اگر وہ انکار کرے اور وہ اس قابل بھی ہو کہ قرضہ ادا کر سکے تو قاضی اسے گرفتار کرنے کا حکم دے گا اور محکوم علیہ اس وقت تک جیل میں رہے گا جب تک کہ وہ قرضہ ادا نہیں کرتا۔ اور اگر محکوم علیہ غریب آدمی ہو اور اس کی غربت ثابت ہو جائے تو قاضی اس کو قرضہ ادا کرنے کی مہلت دے گا۔

اور اگر محکوم بہ قصاص ہو تو مقتول کے ورثاء کو قصاص لینے کے لیے کہا جائے گا اور اگر محکوم لہ بذات خود اس پر قادر نہ ہو تو قاضی اپنے نمائندے کے ذریعے فیصلے کا نفاذ کروائے گا۔ قصاص کے علاوہ باقی سزاؤں کے متعلق فقہاء کا مؤقف یہ ہے کہ ان سزاؤں کو امام یا اس کی طرف سے نامزد کردہ شخص کے علاوہ کوئی شخص نافذ نہیں کرے گا۔ کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں ایسی سزاؤں کا نفاذ آپ یا خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ یہ سزائیں حقوق ﷲ میں سے ہیں اس لیے ان کا نفاذ امام کی طرف سے ضروری ہے۔

بعض حنابلہ کا خیال ہے کہ قصاص و حدود کی سزاؤں پر عملدرآمد کے لیے کوئی خاص شخص مقرر کیا جائے۔ اس شخص کو تنخواہ بیت المال سے دیا جائے۔ ان سزاؤں کا نفاذ چونکہ مصالح عامہ میں سے ہے پس جو کوئی ان کو ادا کرے گا اس کو بیت المال سے تنخواہ دی جائے گی۔ یہی رائے قابل ترجیح ہے کیونکہ ان میں بعض سزائیں ایسی ہیں جن کو نافذ کرنے کے لیے عملی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسے کوئی شخص جو چور کا ہاتھ کاٹے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماہر ہو اور کسی ماہر شخص کا بغیر تنخواہ کام کرنا مشکل ہے۔

2: قاضی کسی دوسرے کو فیصلہ نافذ کرنے کا حکم دے:

کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قاضی خط کے ذریعے کسی دوسرے قاضی کو فیصلے کے نفاذ کے لیے کہے۔ یہ شافعیہ کا مؤقف ہے کہ جس قاضی نے فیصلہ کیا ہو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی دوسرے شہر کے قاضی کو جس جگہ فیصلہ کرنا ہو اپنے فیصلے کی اطلاع کرے اور اس سے اس فیصلے کو اپنے زیر اثر علاقہ میں نافذ کرنے کے لیے کہے۔ اس رائے کے حق میں دلیل رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی روایت سے لی گئی ہے۔ الضحاک روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف لکھا کہ اشیم الضبابی کی بیوی کو اس کی دیت میں سے حصہ دار بنا دوں۔

اس قسم کی صورت حال اس وقت بھی پیدا ہو سکتی ہے جب محکوم بہ دوسرے شہر میں ہو تو ایسی صورت میں اس شہر کے قاضی کے بغیر فیصلے پر عمل نہیں کروایا جا سکتا۔ جس قاضی کو خط لکھا گیا ہو اسے چاہیے کہ خط کی قاضی کی مہر وغیرہ سے تصدیق کرے۔ اس صورت میں اسے گواہوں کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ قاضی جس نے فیصلہ کیا ہے جائز ہے اس کے لیے کہ وہ ایک عام خط لکھے اور اس میں کہے "مسلمانوں کے قاضیوں میں سے ہر وہ قاضی جسے میرا یہ خط ملے" چاہے تو قاضی کسی مخاطب قاضی کا تعین کردے اور چاہے تو وہ بغیر تعین کے اور جس قاضی کو خط ملے اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ پہلے قاضی کے فیصلے کو نافذ کرے۔ یہ حنابلہ، ابو ثور کا قول ہے۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بھی اس کو مستحسن جانا ہے۔

3:فیصلوں کے نفاذ کے لیے کسی خاص قاضی کا تقرر:

فیصلوں کے نفاذ کی دو صورتیں اوپر بیان کی گئی ہیں اور وہ یہ کہ جس قاضی نے فیصلہ کیا وہ خود ہی اس کو نافذ کرے یا کسی دوسرے قاضی کو لکھے کہ وہ اس کے فیصلے کو نافذ کرے۔ اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی قاضی کا تقرر اس لیے کیا جا سکتا ہے کہ وہ فیصلوں کے نفاذ کا ذمہ دار ہو۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قاضی کا اصل فرض فیصلے صادر کرنا ہے نہ کہ ان کو نافذ کرنا سوائے اس صورت کے جب یہ فریضہ اس کے ذمے لگایا جائے جیسا کہ حضرت عمر کے حضرت معاذ کے نام خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت عمر نے لکھا

فاقض اذا فھمت و انفذ اذا قضیت

جب آپ کو کسی معاملے کی سمجھ آ جائے تو فیصلہ کر دیں اور جب کوئی فیصلہ کر چکے ہوں تو اسے نافذ کر دیں۔

اس خط سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت معاذ کو ولایۃ القضاء کے ساتھ ساتھ ولایۃ التنفیذ بھی دی ہوئی تھی۔

ابن فرحون کے مطابق ولایت قضاء میں فیصلے کرنے کے سوا باقی چیزیں داخل نہیں ہیں یہاں تک فیصلوں کو نافذ کرنے کا تعلق ہے یہ زائد امر ہے اور یہ قضاء کے اصل فریضہ پر اضافہ ہے۔ لیکن قاضی کے سپرد یہ کام بھی لگایا جا سکتا ہے۔

ان دلائل کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ولی الامر کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک خاص قاضی کے تعیین احکام کو نافذ کرنے کے لیے کر دے۔ اور یہ کام اس خاص قاضی کے علاوہ کسی دوسرے قاضی کے سپرد نہ ہو۔ (اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب))
 
Top