احتساب کی مشروعیت

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
احتساب کا لغوی مفہوم:

احتساب کا لفظ احتسب فعل سے ہے جس کا اصل فعل ثلاثی مجرد حسب ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے حسب یحسب و حسابا۔ اس کے معنی گننا یا شمار کرنا ہیں اور حسب یحسب سے مراد خیال کرنا یا گمان کرنا بھی ہے۔

حسب میں "کافی" کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ جو کفایت کرے یا اس کے بعد کسی اور شے کی ضرورت نہ رہے۔ حاسب کے معنی حساب کرنے والے کے ہیں۔

جبکہ حسبان حساب کی جمع ہے جس کے معنی گننے کے ہیں حسیب گننے والے یا نگرانی کرنے والے کو کہتے ہیں۔

قرآن پاک میں حساب کا لفظ بہت سی جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔ کہیں پر یہ لفظ گننے اور شمار کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور کہیں پر اعمال کے حساب اور یوم آخرت کے حساب کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

جن آیتوں میں یہ لفظ گنتی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ان کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪۝

سورج اور چاند حساب سے ہیں۔ (سورۃ الرحمن آیت 5)

ایک دوسری آیت میں وضاحت کی گئی ہے کہ آفتاب اور ماہتاب برسوں کی گنتی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّۚ-یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۝

وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کونور بنایا اور چاندکے لیے منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو ۔ ﷲ نے یہ سب حق کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ علم والوں کے لئے تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے۔ (سورۃ یونس آیت 5)

حسبان کا لفظ قرآن پاک میں حساب کے مطابق سزا اور جزا دینے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا۝

اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حسا ب لیا اور انہیں بُری مار دی۔ (سورۃ الطلاق آیت 8)

احتساب کے کئی لغوی معنی بھی ہیں۔ جس میں زیادہ معروف گننا، حساب کتاب کرنا اور عمل کے مطابق اجر وغیرہ دینے کے ہیں۔ احتساب کے ساتھ اگر "علیٰ" کا حرف جر استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب کسی سے جواب طلبی کرنا ہے۔

چنانچہ اگر کہا جائے کہ احتسب فلاں علی فلاں عملہ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلاں کی فلاں کام پر جواب طلبی ہوئی ہے۔ یہیں سے احتساب کا لغوی مفہوم اس کے اصطلاحی مفہوم میں تبدیل ہو جاتا ہے جن میں اسے ادارہ احتساب یا الحسبہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

احتساب کی مشروعیت:

احتساب کی مشروعیت قرآن و سنت سے ثابت شدہ امر ہے۔ اس کی بہت سی دلیلیں ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

قرآن پاک میں احستاب کی مشروعیت کے دلائل:

قرآن پاک میں جتنی بھی آیات امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں وارد ہوئی ہیں وہ سب احتساب کی مشروعیت کے دلائل ہیں۔ اقامت دین کا فریضہ شروع سے ہی تمام انبیاء سرانجام دیتے آئے ہیں اور اس میں بھی مصلحت یہی ہے کہ لوگ ہدایت کے راستے پر چلیں اور گمراہی کے راستے سے بچیں، اس ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ-كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِؕ-اَللّٰهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ۝

تمہارے لیے دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے نوح کو دیا اور جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی کو دیا کہ دین ٹھیک رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ جس کی طرف تم انہیں بلاتے ہو اور ﷲ اپنے قریب کے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اُسے جو رجوع لائے۔ (سورۃ الشوری آیت 13)

اقامت دین کی خاطر ہی نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ ﷲ تعالیٰ نے آپ کے اس فریضہ کی صراحت قرآن پاک میں اس طرح فرمائی ہے۔

اَلَّـذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِىَّ الْاُمِّىَّ الَّـذِىْ يَجِدُوْنَهٝ مَكْـتُوبًا عِنْدَهُـمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِۖ يَاْمُرُهُـمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْـهَاهُـمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَـهُـمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْـهِـمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْـهُـمْ اِصْرَهُـمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِىْ كَانَتْ عَلَيْـهِـمْ ۚ فَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ مَعَهٝ ۙ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝

وہ لوگ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی نبی ہے جسے اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ ان کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور ان کے لیے سب پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں اتارتا ہے جو ان پر تھیں، سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت کی اور اسے مدد دی اور اس کے نور کے تابع ہوئے جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے، یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ (سورۃ الاعراف آیت 157)

اقامت دین کے دو پہلو ہیں ایک ایجابی یعنی امر بالمعروف اور دوسرا سلبی یعنی نہی عن المنکر۔ اس ضمن میں قرآن کی تعلیمات یہ ہیں کہ جو بھی ان میں سے کچھ کرے گا وہ خود ہی اس کا ذمہ دار بھی ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاؕ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝

جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیااور جو بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور ہم عذاب کرنے والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 15)

امر بالمعروف امت مسلمہ کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ- وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝

اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔ (سورۃ ال عمران آیت 104)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں تمام مسلمان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے تعاون کرنے کے پابند ہیں کیونکہ یہ ایک اجتماعی ضرورت ہے۔ جیسا کہ فرمان خداوندی ہے۔

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝

اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ﷲ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب ﷲ رحم فرمائے گا۔ بیشک ﷲ غالب حکمت والا ہے۔ (سورۃ التوبہ آیت 71)

ان آیات کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست کے تمام اجتماعی اداروں کی غرض و غایت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام غزالی، ابن جوزی اور ابن قیم الجوزی جیسے مسلم فلاسفر نے ادارہ احتساب کی تشریحات و توضیحات امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ابواب کے تحت بیان کی ہیں۔

سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں احتساب کی مشروعیت کے دلائل:

سنت سے مراد رائج الوقت ایسا طریقہ ہے جس پر بار بار عمل کیا جائے۔ اسی مفہوم میں سنت کا لفظ قرآن پاک میں بھی وارد ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلاً

یہ اﷲ کا وہ معمول ہے جس پر اُن لوگوں کے معاملے میں بھی عمل ہوتا رہا ہے جو پہلے گذر چکے ہیں ۔ اور تم اﷲ کے معمول میں کوئی تبدیلی ہر گز نہیں پاؤ گے۔ (سورۃ احزاب آیت 62)

اور انسان کی سنت سے مراد وہ طریقہ اور اسلوب ہے جس پر کوئی عمل پیرا ہو۔ سنت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مراد وہ عمل ہے جو آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے قول فعل باتقریر کی صورت میں منقول ہے۔ اس لحاظ سے سنت الرسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم احکام کے بنیادی مصادر میں سے ہیں۔ سنت کی یہ تشریعی حیثیت خود ﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کر دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ۝ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ۝

اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے۔ (سورۃ النجم آیت 3،4)

اسی بناء پر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی قرآن کی طرح شرعی حجت ہے کیونکہ قرآن اور سنت دونوں خدا کی وحی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے وحی ہے جبکہ سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم معنوی اعتبار سے وحی ہے۔

قرآن پاک کی طرح سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں احتساب کے متعلق بہت سی ہدایات ملتی ہیں۔ جن کی بعض تفاصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔

احتساب کا مطلب برائی کو روکنا ہے۔ آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بھی برائی کے خالف جہاد کرنے کی توفیق دی ہے۔ آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من رائی منکم منکرا فلیغرہ یبدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذلک اضعف الایمان

تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اپنے ہاتھ سے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہو گا۔

حضرت ابو بکر صدیق سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ-اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝

اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو جب تم ہدایت پر ہو تو گمراہ ہونے والا تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا ﷲ ہی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو تم کرتے تھے۔ (سورۃ المائدۃ آیت 105)

گویا اسلام کی دعوت یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ سارا معاشرہ فساد کی زد میں آجائے افراد ایک دوسرے کو معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں کیونکہ اسلامی معاشرے کا ہر فرد ذمہ دار ہے اور اس اپنی ذمہ داری کا جواب دینا ہو گا جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:

كلكم رَاعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ: والأمير رَاعٍ, والرجل رَاعٍ على أهل بيته, والمرأة رَاعِيَةٌ على بيت زوجها و ولده, فكلكم راَعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ». وفي لفظ: كلكم رَاعٍ، وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ: الإمام رَاعٍ ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ، والرجل رَاعٍ في أهله ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ، والمرأة رَاعِيَةٌ في بيت زوجها ومسؤولة عن رَعِيَّتِهَا، والخادم رَاعٍ في مال سيده ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ، فكلكم رَاعٍ ومسؤول عن رَعِيَّتِهِ

تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ امیر نگہبان ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کا کی نگہبان ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا"۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: ’’تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا

یعنی حکمران وقت سے لے کر خادم بیت تک اسلامی معاشرہ کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے حکمرانوں کی اطاعت کو معروف سے پابند کیا ہے۔

نافرمانی میں ان کی اطاعت نہیں ہو گی جیسا کہ حدیث الرسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ہے:

انما الطاعۃ فی المعروف

اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کلا واللہ لتامرون بالمعروف و لتنھون عن المنکر

سن لو ﷲ تعالیٰ تمہیں بھلائی کا حکم اور برائی سے روکتا ہے

آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام یعنی احتساب قائم کرنا اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ معروف کے منافی کام کرنے والے سے اسلامی ریاست میں باز پرس ہو گی۔

آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من غشنا فلیس منا

جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے

(اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب))
 
Top