محتسب کی شرائط شریعت اسلامیہ کی روشنی

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
محتسب ایک عہدیدار ہوتا ہے جسے وزارتوں، محکموں اور دیگر سرکاری اداروں کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لئے اس عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ شہریوں کی شکایات اور اپنے ہی اقدام دونوں پر عمل کرتا ہے اور نہ صرف قانون کے ذریعہ، بلکہ انصاف کے ذریعہ بھی رہنمائی کرتا ہے۔

فقہاء نے قرآن و سنت کی روشنی میں محتسب کے لیے کچھ شرائط کا ہونا لازمی قرار دیا ہے۔ دراصل یہ شرائط ہر اس عامل کی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض سرانجام دے۔

1: مکلف ہونا:

فقہاء کے خیال میں محتسب کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکلف ہو غیر مکلف کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ مکلف سے مراد بالغ اور عاقل ہونا ہے اور یہ فی الحقیقہ مسلمان پر احتساب کے واجب ہونے کی شرائط ہیں۔ اسی طرح محتسب کے لیے یہ بھی ضرروی ہے کہ وہ عقل رکھتا ہو اور اس کو معاملات کی سمجھ بوجھ ہو۔

2: رسمی طور پر حکومت کی طرف سے تعین ہونا:

محتسب کے لیے ضروری ہے کہ اس حکومت کی طرف سے باقاعدہ متعین کیا گیا ہو بغیر تعیین کے احتساب کا کام شروع نہیں کیا جا سکتا، احتساب کا کام حکومت کے اعمال میں سے ایک عمل ہے ۔ اس کام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کام کے لیے حکومت کی طرف سے باقاعدہ اجازت اور تعیین ہو۔ اگر کسی شخص کو حکومت نے احتساب کی ذمہ داری نہ لگائی ہو اور یہ کام کرنا چاہے تو اس کو محتسب نہیں بلکہ متطوع کہا جائے گا۔

3: علم:

محتسب کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے پاس علم ہو جس کے ذریعے وہ معروف کو جان لے اور معروف اور منکر میں فرق کرے، کیونکہ معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا اس کے فرائض میں شامل ہے۔

اسلام علم کو مختلف ذہنی، عقلی اور بدنی قدرات کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ علم ہی انسان کی برتری اور فضیلت کا سبب ہے۔ اسی کی وجہ سے ﷲ تعالیٰ نے انسان کو فرشتوں سے بالاتر قرار دیا ہے۔ جب فرشتوں نے ﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور تسبیح کی بنیاد پر فخر کا دعویٰ کیا تو ﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا حکم دیا:

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۝

اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔ (سورۃ البقرۃ آیت 31)

جب فرشتے عاجز آگئے اور حضرت آدم علیہ السلام علم کی بنیاد پر امتحان میں کامیاب ہو گئے تو ﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۝

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا۔ (سورۃ البقرۃ آیت34)

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ حصول علم کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من یرد ﷲ بہ خیرا یفقھہ فی الدین

جس سے ﷲ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطلا کرتا ہے۔

اسلامی مملکت کی انتظامیہ بشمول محتسب کی کارکردگی میں علم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ علم عمل کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لیے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ سے کام کو انبیاء کی سنت قرار دیا۔ ارشاد نبوی ہے:

اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کھانے والا کوئی نہیں۔ نبی ﷲ داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کماتے تھے۔

اسلامی سیاست کے اصولوں میں بھی عاملین حکومت کے لیے علم کے ہونے کو بہت ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی بناء پر علماء نے کہا ہے کہ

"اگر بادشاہ جاہل ہو اور اس کے وزراء عالم ہوں تو حکومت کا نظام احسن طریقے سے چلتا رہے گا، اور اگر وزرا جاہل ہوں اور بادشاہ عالم ہو تو اس کی حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گی۔

علم کی اسی اہمیت کی بنا پر فقہاء نے محتسب کے لیے عالم ہونا ضروری قرار دیا ہے، محتسب کے علم سے مراد یہ ہے کہ اس کو اپنے اختیارات کا علم ہو اس کو مختلف جرائم کی حدود، سزاؤں اور اسباب کا بھی ادراک ہو تاکہ وہ لوگوں کو ان کی حدود میں رکھے۔

4: العدالۃ:

محتسب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں عدالت اور امانت کی شرائط موجود ہوں۔ اسلامی انتظامی نظام میں العدالۃ یعنی معاملات میں سچا اور ایماندار ہونا بنیادی شرائط میں سے ہے۔ اس شرط کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ

بیشک آپ کا بہتر نوکر وہ ہوگا جو طاقتور اور امانتدار ہو۔ (سورۃ القصص آیت 26)

اگر کسی ذمہ دار فرد کے معاملات سچائی پر مبنی ہوں تو اسے حقیقت شناسائی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:

بے شک سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف، جب کوئی شخص سچ بولتا ہے تو سچا ہو جاتا ہے۔ جھوٹ نافرمانی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے کوئی شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ ﷲ کے ہاں جھوٹا بن جاتا ہے۔

اسی بناء پر امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ولی الامر کے لیے ضروری ہے کہ وہ عادل اور صادق عمال سے امور سلطنت چلانے میں مدد لے۔

5: قوت و شجاعت:

محتسب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسے ﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو۔ شجاعت اسلامی نظام میں انتظامی افسران کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ

بیشک آپ کا بہتر نوکر وہ ہوگا جو طاقتور اور امانتدار ہو۔ (سورۃ القصص آیت 26)

حضرت ابو ذر غفاری آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نامور صحابی ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں کسی منصب پر فائز کر دیا جائے لیکن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قوت و شجاعت کی شرط پوری نہ ہونے کی بناء پر فرمایا:

یا ابا ذر انکا ضعیف وانھا امانۃ و انما یوم القیامۃ خزیی الامن اخذ بحقھا، و ادی الذی علیہ فیھا

یہ حدیث ایسے لوگوں کو ذمہ داری نہ سونپنے میں اصل ہے جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ اسی بناء پر محتسب جو کہ لوگوں کے معاملات کو دیکھے گا اور اس پر کئی طرف سے دباؤ ہو گا کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس مناسب قوت و شجاعت ہو اس قوت و شجاعت سے مراد کسی کا جسمانی طور پر طاقتور ہونا نہیں۔ ابن تیمہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ہر منصب میں قوت کا مفہوم اس منصب کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ جنگ میں قوت سے مراد دل کی بہادری اور جنگوں کی مہارت ہے۔ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں قوت سے مراد عدل کا علم اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی فراہمی ہے

6: پیشہ ورانہ مہارت:

محتسب کے لیے انتظامی معاملات سے باخبر ہونا اور اس کا ماہر ہونا بھی ضروری ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف المارودی کرتے ہیں کہ:

الرای المفضی الی سیاسۃ الرعیۃ و تدبیر المصالح

یعنی وہ رائے سلیمہ جو لوگوں کے مصالح کی حکمت عملی سے تدبیر کرے۔

آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ میں سے صرف انہی کو مختلف عہدوں پر فائز کرتے تھے جو امور کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس لیے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری کی تقرری سے انکار کر دیا تھا۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو سپہ سالار مقرر کیا حالانکہ تقوی کے اعتبار سے وہ تمام صحابہ میں سے بہتر نہ تھے۔

سیرت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس ضمن میں تمام مسلمانوں کے لیے خاص طور پر اور پوری انسانیت کے لیے عام طور پر نمونہ کامل ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم عربوں کی عادات سے آگاہ تھے۔ ان کی طبیعتوں کو سمجھتے تھے اور تمام قبائل سے انہی کے لہجہ میں گفتگو کے فن میں ماہر تھے۔ اس عظیم ترین سیاسی مہارت کی بنا پر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم جزیرۃ العرب کی منتشر قوت کو جمع کرنے اور اسلام کے پرچم تلے لانے میں کامیاب ہو گئے۔

ابن تیمہ ذکر کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ ماہر فاجر اور کمزور متقی میں سے کس کو جنگ میں امیر بنایا جائے گا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ جہاں تک فاجر کا تعلق ہے تو اس کا فجور اس کی ذات کے لیے نقصان کا باعث ہے جبکہ اس کی طاقت اور مہارت کا فائدہ مسلمان کو پہنچے گا۔ جبکہ کمزور کے تقوی کا فائدہ اس کی ذات کے لیے ہو گا جبکہ جنگی معاملات میں اس کی کمزوری کا نقصان مسلمان کو ہو گا۔ اس لیے فاجر مگر اپنے شعبہ میں ماہر کے ساتھ لڑائی میں شرکت کی جائے گی۔

پیشہ ورانہ مہارت کی اہمیت کی بناء پر ہی فقہاء کہتے ہیں کہ محتسب مختلف کاموں میں بے ایمانی اور بددیانتی کا صحیح طور پر اس وقت تک اندازہ نہیں لگا سکتا جب تک کہ اسے ان کاموں کے متعلق ضروری امور کا علم نہ ہو۔ اسی بنا پر بعض فقہاء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ محتسب مختلف پیشوں کا کام کرنے والوں کا امتحان لے تاکہ کوئی عوام کو کسی ایسے پیشہ کے نام پر دھوکہ نہ دے جس کی ادائیگی کی وہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ (اسلامی قانون میں وسائل اثبات (دعوی اور نظام احتساب))
 
Top