سِتارے آ گِرے ہیں

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں

وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں

فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں

مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں

مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں

غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں

اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں

ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں


رشید حسرتؔ
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں

وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں

فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں

مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں

مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں

غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں

اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں

ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں


رشید ح
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں

وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں

فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں

مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں

مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں

غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں

اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں

ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں


رشید حسرتؔ
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشت فلک میں تارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں

وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں

فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں

مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں

مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں

غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں

اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں

ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں


رشید ح
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں

وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں

فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں

مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں

مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں

غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں

اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں

ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں


رشید حسرتؔ
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے

تم سے تھے جتنے استعارے تھے

تیرے قول و قرار سے پہلے

اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

جب وہ لعل و گہر حساب کیے

جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے

میرے دامن میں آ گرے سارے

جتنے طشت فلک میں تارے تھے

عمر جاوید کی دعا کرتے

فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں

وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں

فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں

مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں

مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں

غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں

اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں

ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں


رشید حسرتؔ
بہت خوب
 
Top