کوئی اہلِ نظر نہیں لگتا

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
کوئی اہلِ نظر نہیں لگتا
اس لیے معتبر نہیں لگتا

سب دئیے ہم نے خود بجھا ڈالے
اب ہواؤں سے ڈر نہیں لگتا

خود بھی وہ اپنی قدر و قیمت سے
اس قدر بے خبر نہیں لگتا

تب پرندے بھی لوٹ جاتے ہیں
پیڑ پر جب ثمر نہیں لگتا

خوف وہ بام و در کے اندر ہے
جو پسِ بام و در نہیں لگتا

اجنبی اجنبی سے چہرے ہیں
یہ مجھے اپنا گھر نہیں لگتا

لے کے جائے گا عمر، وحشت کا
سلسلہ مختصر نہیں لگتا

واصف علی واصف
 
Top