قرآن و سنت کی روشنی میں قتل عمد کی سزاوں پر تفصیلی نوٹ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قتل عمد کی تعریف:

قتل عمد کی تعریف یہ ہے کہ مجنی علیہ قتل کے ارادے سی کسی جان لینے والے فعل کا ارتکاب کرے۔ یعنی ایسا فعل جس سے موت واقع ہوتی ہے صرف مجرم کا اس فعل کا ارادہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کو قاتل عمد قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے قتل کا بھی قصد کیا ہو۔ اور اگر اس کا ارادہ محض زیادتی کا تھا تو وہ قتل عمد نہیں ہے۔

اگرچہ اس سے مجنی علیہ کی موت واقع ہو جائے بلکہ وہ فقہاء شریعت کی تصریح کے مطابق شبہ عمد اور مروجہ قوانین کے ماہرین کی تعبیر کے لحاظ سے موت پر منتج ہونے والی ضرب ہے۔

قرآن سنت میں قتل عمد کی حرمت:

قرآن و سنت میں بہت سی نصوص ایسی ہیں جو کہ قتل عمد کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۝

اور جس جان کی ﷲ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو اور جو مظلوم ہو کر مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تو وہ وارث قتل کا بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے۔ بیشک اس کی مدد ہونی ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 33)

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝

اے ایمان والو تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت 178)

اسی طرح سنت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ایسی نصوص موجود ہیں جو کہ حرمت قتل پر دلالت کرتی ہیں۔ اس ضمن میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

"مسلمان کا قتل تین حالتوں کے سوا جائز نہیں ہے۔ ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا ہو، احصان کے بعد زنا کیا ہو، بلا وجہ کسی کو قتل کیا ہو"

نیز آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"ایک مؤمن کا قتل خدا کے نزدیک پوری دنیا کے ختم ہونے کے مترادف ہے"

سنت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہوا کہ جس شخص نے کسی مؤمن کو مظلومانہ قتل کر دیا وہ اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا سوائے اس کہ ولی مقتول راضی ہو جائے۔

مثالیں:

1: الف ب کو تلوار کے لٹھ سے مار دینے کی نیت سے زخم پہنچائے اور وہ اس زخم سے مر جائے تو الف قتل عمد کا مجرم ہو گا۔ کیونکہ ب کو ہلاک کرنا اس کی نیت میں تھا۔

2: الف لوگوں کے مجمع پر کسی آتشیں اسلحہ یعنی بندوق، پستول، کلاشنکوف وغیرہ چلائے اور ان میں ایک شخص کو ہلاک کرے تو الف قتل عمد کا مرتکب ہو گا۔

3: الف یہ جان کر کہ ب ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ ایک ضرب سے اس کے ہلاک ہو جانے کا احتمال ہے ضرر جسمانی پہنچانے کی نیت سے ب کو مارے اور ب اس ضرر کے سبب مر جائے تو الف قتل عمد کا مجرم ہو گا۔

4: جب کوئی شخص کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کا قصد ہو یا وہ علم رکھتا ہو کہ اس سے موت کا واقع ہونا امکان ہے کسی ایسے شخص کی موت کا باعث بن جائے جس کی موت کا باعث بننے کا نہ تو اس نے ارادہ کیا ہو اور نہ وہ جانتا ہو کہ اس کے باعث بننےکا امکان ہے تو مجرم کی طرف سے کیا گیا ایسا کوئی فعل قتل عمد کا مستوجب ہو گا۔

قتل عمد کی سزائیں:

شریعت اسلامیہ میں قتل عمد کی متعدد سزائیں ہیں۔ ان میں سے کچھ سزائیں اصلی ہیں اور کچھ تبعی ہیں۔

1: قصاص:

شریعت اسلامیہ میں جرم قتل عقد کے ارتکاب پر سزاءِ قصاص لازم آتی ہے۔ قصاص کے معنی مماثلت کے ہیں۔ یعنی مجرم کو اس کے فعل کے مثل بدلہ دیا جائے اور اس کو قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے۔ اس سزا کے نفاذ میں یہ امر برابر ہے کہ قتل کے جرم کے ارتکاب سے پہلے سے کوئی ارادہ کرے اور گھات لگائے اس قسم کی کوئی بات پہلے سے موجود نہ ہو۔

جیسا کہ یہ امر بھی برابر ہے کہ قتل کے ساتھ کوئی اور جرم بھی کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ غرض ہر حالت میں قتل عمد کی سزا قصاص قتل کر دینا ہے سوائے حرابہ (رہزنی) کی صورت میں یعنی جب کہ جرم قتل اور چوری یکجا ہو گئے ہوں اس صورت میں سزا قتل اور پھانسی ہے۔ مگر مجرم پر اس سزا کا اجراء اس کے قاتل عمد ہونے کی حیثیت سے نہیں ہوتا بلکہ اس سزا کا اجراء اس کے راہزن ہونے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔

2: دیت و تعزیر:

دیت اور تعزیر کی دونوں سزائیں قصاص کے بدل کی حیثیت سے دی جاتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی شرعی سبب کی موجودگی کی بناء پر قصاص کا اجراء ممنوع ہو جائے تو قصاص کی جگہ دیت کی سزا لے لیتی ہے اور اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مناسب خیال کریں تو تعزیری سزا بھی دی جا سکتی ہے اور جب کسی وجہ سے دیت کی سزا ممنوع ہو جائے تو اس کی جگہ سزاءِ تعزیر لے لیتی ہے۔

دیت اور تحریر دونوں سزاؤں میں فرق یہ ہے کہ تعزیر بھی قصاص کا بدل ہوتی ہے اور بھی قصاص کے بدل (یعنی دیت) کا بدل ہوتی ہے۔ جب کہ سزاءِ دیت صرف قصاص ہی کا بدل ہوتی ہے۔

ایک ہی جرم میں جرم کی عقوبت اصلیہ اور عقوبت متبادلہ کا جمع کرنا درست نہیں ہے جبکہ دو متبادل سزاؤں کا جمع کر دینا درست ہے جیسا کہ دو اصلی سزاؤں کا جمع کر دینا درست ہے۔ یعنی دیت اور تعزیر (جو دونوں سزاءِ قصاص کا بدل ہے) کو جمع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ قصاص اور کفارہ کو جمع کیا جا سکتا ہے۔

3: قصاص کے موانع:

قتل عمد کی سزاءِ اصلی قصاص ہے۔ اس لیے ارکان جرم مکمل ہونے کی صورت میں سزاءِ قصاص ہی جاری کی جائے گی سوائے اس کے کہ کوئی ایسا مانع (شرعی) موجود ہو جو قصاص کے اجراء میں رکاوٹ بنے۔

قصاص کے اجراء میں مانع بننے والے اسباب تمام فقہاء کے نزدیک متفق علیہ نہیں ہیں بلکہ ان میں اختلاف ہے۔ کچھ اسباب تو ایسے ہیں جنہیں بیشتر فقہاء نے اختیار کیا ہے اور بعض ایسے ہیں جن کو چند فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ ان سب اسباب کا بیان حسب ذیل ہے

مقتول قاتل کا جزء ہو: مانع اول یہ ہے کہ مقتول قاتل کا جزء ہو۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کی رائے یہ ہے کہ اگر مقتول قاتل کا جزء ہو تو قصاص کا حکم منقطع ہو جائے گا۔ مقتول کے قاتل کا جزء ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مقتول قاتل کا بیٹا ہو۔ چنانچہ اگر باپ نے عمداً اپنے بیٹے کو قتل کر دیا تو اس پر سزاءِ قصاص جاری نہ ہو گی۔

مانع دوم: امام مالک، امام شافعی اور امام احمد یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ مجنی علیہ مجرم کے ہمسر Equal ہو۔ اگر مجنی علیہ مجرم کا ہمسر نہیں ہے تو قصاص کا فیصلہ منع ہو جائے گا اور مجنی علیہ اور مجرم کو باہم مساوی اس وقت تصور کیا جائے گا جب دونوں حریت اور اسلام میں مساوی ہوں یعنی دونوں آزاد اور مسلمان ہوں۔ ان دو امور کے علاوہ اور کسی فرق کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

4: مستحق قصاص:

امام مالک کے نزدیک قصاص کا مستحق مذکر عصبہ ہے۔ اس لیے اس سلسلہ میں شوہر، ماموں اور نانا کا دخل نہیں ہے۔ بلکہ پہلے بیٹا، پھر پوتا اور عصبہ میں قریب ترین اور پھر دادا کا بھائی۔ ولایت قصاص میں برابر ہیں اور دونوں ایک درجے میں ہیں اور بھتیجے دادا کے بعد ہیں کیونکہ دادا باپ کے درجے میں ہے۔ دادا سے مراد قریب ترین جد ہے اور درجے بھائیوں کے برابر ہے۔ مگر جد اعلی بھائیوں کے برابر نہیں ہے جیسا کہ بھتیجے بھی جد قریب کے برابر نہیں ہیں۔

امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک قصاص کے متسحق وہ تمام عورت اور مرد ورثاء جو مقتول کے مال کے وارث بنتے ہوں اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ علاوہ کسی شے کے وارث بھی ہو گئے ہوں، بلکہ اگر مقتول کے ذمے اتنا قرض ہے کہ اس کی ادائیگی کے بعد اس کی میراث میں سے کچھ نہیں بچتا تو بھی اس کے وارث جو اگر وہ کچھ چھوڑتا تو اس اس میں حصہ پاتے قصاص کے مستحق قرار پائیں گے۔

5: قصاص کا سقوط:

سزاءِ قصاص کے سقوط کے اسباب درج ذیل ہیں:

1: محل قصاص کا فوت ہو جانا: جرم قتل میں قصاص کا حامل خود قاتل کی جان ہے، اس لیے اگر قاتل ہی مرجائے تو قصاص کا محل فوت ہو جائے گا۔ یعنی جس پر قصاص لازم آیا تھا اس کے مر جانے سے محل قصاص ہی معدوم ہو جائے گا اور اس طرح سزا ساقط ہو جائے گی اور محل قصاص کے معدوم ہو جانے کے بعد تنفیذ سزا کا کوئی تصور باقی نہیں رہے گا۔

2: معافی: اس امر پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ قصاص کا معاف کر دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ قصاص لینے سے بہتر ہے۔

3: صلح: قصاص پر صلح کرنے کے باب میں فقہاء کرام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صلح سے سزا ساقط ہو جاتی ہے۔

پاکستانی قانون دفعہ 302 کے تحت قتل عمد کی سزا:

1: قصاص کے طور پر سزاءِ موت دی جائے گی۔

2: مقدمہ کے حالات و واقعات کا لحاظ رکھتے ہوئے تعزیر کے طور پر موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

3: یا جہاں قصاص نہ بنتا ہو وہاں 25 سال تک سزا دی جائے گی۔ (قانون فوجداری مع قصاص و دیت)
 
Top