جنایت علی ما دون النفس (جان لینے سے کم تر) اور اس کی سزا پر مفصل بحث

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
جنایت علی ما دون النفس (جان ینے سے کمتر) کا مفہوم:

فقہاء جنایت علی ما دون النفس کی اصطلاح سے مراد وہ ایذاء لیتے ہیں جو انسانی جسم پر کسی دوسرے نے کی ہو لیکن اس کی جان نہ گئی ہو۔ اس میں ہر ممکنہ زیادتی اور ایذاء شامل ہے۔ چنانچہ اس میں جرح، ضرب، کھینچنا، دبانا، بال کاٹنا اور اس قسم کے تمام افعال شامل ہیں۔

جبکہ مصری قانون عقوبات میں ان افعال کو صرف جرح اور ضرب کہا گیا ہے جو ایک نامکمل تعبیر ہے جس میں جرح اور ضرب کے علاوہ ایذا رسانی کیا دیگر انواع شامل نہیں ہے۔ جس کی بناء پر مصری عدالتوں نے اس تعبیر کی تاویل میں توسیع کی اور اسے شریعت اسلامیہ کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ بنایا ہے۔ چنانچہ مصری اپیل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ضرب اور جرح کی تعبیر میں ایذاء رسانی کا ہر وہ فعل داخل ہے جو جسم پر واقع ہو اور اس کی ظاہری اور داخلی تاثیر پائی جائے۔ اس لیے اگر کوئی شخص کسی کی گردن دبا کر اس کھینچے اور زمیں پر گرا دے تو وہ جرم ضرب کا مرتکب عمد متصور ہو گا۔

ما دون النفس عمداً جنایات اور خطا جنایات:

عمدا جنایت یہ ہے کہ مجرم قصداً اور بطور ظلم کوئی زیادتی کرے۔ جیسے کوئی کسی کو مارنے کے ارادے سے پتھر مارے۔ اور خطا یہ ہے کہ مجرم عمداً ارتکاب فعل کرے مگر اس کا ارادہ ظلم کا نہ ہو، جیسے کوئی شخص کوئی پتھر اٹھا کر اپنی کھڑکی سے نیچے پھینک دے اور وہ کسی گزرنے والے کو لگ جائے۔ ایک مجرم کے قصد کے بغیر اس کی کسی کوتاہی کے نتیجے میں کوئی فعل سرزد ہو جائے۔ جیسے کوئی اپنے پاس سوئے ہوئے شخص پر الٹ جائے اور اس کی پسلیاں توڑ ڈالے۔

اگرچہ ماہیت فعل اور عقوبت کے لحاظ سے عمد خطا سے مختلف ہے لیکن چونکہ دونوں کے بیشتر احکام یکساں ہیں اس لیے فقہاء شریعت اسلامیہ ان دونوں قسموں کو جمع کر کے ان پر ایک ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ جبکہ جدید قوانین کے ماہرین جرائم عمد اور خطا میں نوعیت جرم کی اساس پر فرق کرتے ہیں اس لیے وہ ان پر جداگانہ گفتگو کرتے ہیں۔ دراصل شریعت اسلامیہ کے فقہاء کے نزدیک فرق کی اساس محل جرم (یعنی نفس یا ما دون النفس) ہے۔ کیونکہ نفس پر ہونے والے جرائم اپنی مختلف انواع کے باوجود بیشتر احکام میں یکسانیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ما دون النفس جرائی کے احکام بھی متحد ہیں۔

ما دون النفس جنایت کی اقسام:

ما دون النفس جنایت خواہ عمداً ہو یا خطاءً، فقہاء کرام اس کی پانچ اقسام بیان کرتے ہیں۔

1: اعضاء کاٹ دینا:

اس قسم میں ہاتھ، پیر، انگلی اور ناخن، ناک، کان، ذکر اور خصیتین، ہونٹ، آنکھ نکال دینا، بھنویں اور پلکیں تراش دینا، دانت اکھاڑ دینا اور توڑ دینا، سر کے اور داڑھی کے بال مونڈھ دینا اور اکھاڑ دینا وغیرہ جیسے افعال شامل ہیں۔

2: اعضاء کی منفعت ضائع کر دینا:

اس قسم میں وہ افعال داخل ہیں جن سے اعضاء ضائع نہ ہوں بلکہ ان کی منفعت جاتی رہے۔ اگر اعضاء بھی جاتے رہے تو یہ قسم اول کے افعال ہو جائیں گے۔ اور اس قسم میں سماعت، بصارت، سونگھنے، چکھنے، بات کرنے، جماع کرنے، بچہ پیدا کرنے، پکڑنے اور چلنے کی قدرت نہ رہنا ہے۔ اور دانت کا رنگ کالا، لال اور سبز ہو جانا اور عقل کا جاتے رہنا بھی اس میں شامل ہے۔

3: شجاج:

شجاج سے مراد سر اور چہرے کے زخم ہیں۔ سر اور چہرے کے علاوہ باقی زخم جراح کہلاتے ہیں اور جسم کے زخم کو شجاج کہنا غلط ہے۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک شجاج کی گیارہ قسمیں ہیں۔

  • خارصہ: ایسا زخم جس میں کھال پھٹ جائے مگر خون ظاہر نہ ہو۔
  • دامعہ: وہ زخم جس میں خون ظاہر ہو جائے لیکن بہے نہیں۔
  • دامیہ: وہ زخم جس سے خون بہہ نکلے۔
  • باضعہ: ایسا زخم جس سے گوشت کٹ جائے۔
  • متلاحمہ: یہ وہ زخم ہے جس میں گوشت اندر تک کٹ جائے۔ باضعہ سے زیادہ
  • سمحاق: ایسا زخم جس میں گوشت کٹنے کے بعد گوشت اور ہڈی کے درمیان باریک کھال ظاہر ہو جائے۔
  • موضحہ: اس زخم میں ہڈی کے اوپری کی کھال سمحاق بھی کٹ جائے اور ہڈی ظاہر ہو جائے۔
  • ہاشمنہ: ایسا زخم جس کے نتیجے میں ہڈی ٹوٹ جائے۔
  • منقلہ: اس میں ہڈی ٹوٹ کر اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔
  • آمہ: وہ زخم جو ام الدماغ تک پہنچ جائے۔ ام الدماغ دماغ کے اوپر اور سر کی ہڈی کے نیچے ایک کھال ہوتی ہے۔
  • دامغہ: ایسا زخم جو اس کھال کو پھاڑ کر دماغ تک پہنچ جائے۔
4: جراح:

سر اور چہرے کے علاوہ باقی تمام جسم پر آنے والے زخم جراح کہلاتے ہیں۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ جائفہ اور غیرہ جائفہ۔

جائفہ وہ زخم ہے جو جسم کے اندر تک پہنچ جائے خواہ وہ سینے، پیٹ یا کمر میں لگا ہو، یا پہلوؤں میں یا خصیتین یا سرین پر یا حلق میں۔ اور جو زخم اس طرح اندر تک نہ پہنچا ہو وہ غیر جائفہ ہے۔

5: جو مذکورہ چار اقسام کے علاوہ ہو:

اس قسم میں ہر وہ ایذا اور اعتداء داخل ہے جس سے نہ تو کوئی عضو ضائع ہوا ہو، نہ اس کی افادیت ختم ہوئی ہو، نہ شجہ ہو اور نہ جرح ہو۔ گویا اس قسم میں ہر وہ ایذا داخل ہے جس نے کوئی اثر نہ چھوڑا ہو یا اثر چھوڑا ہو لیکن وہ جرح یا شجہ نہ بنا ہو۔

جنایت ما دون النفس کی سزا:

جنایت ما دون النفس کی سزا کی تین اقسام ہیں:

ما دون النفس جرم عمد کی سزا

ما دون النفس شبہ عمد جرم کی سزا

ما دون النفس جرم خطا کی سزا

ما دون النفس جرم عمد کی سزا:

ما دون النفس جرم عمد کی سزاءِ اصلی قصاص ہے۔ امام مالک کے نزدیک قصاص اور دیت دونوں ہیں۔ دیت اور تعزیر دونوں متبادل سزائیں ہیں، جو قصاص کی جگہ دی جاتی ہیں۔ قصاص کے دیت اصلی قرار دینے اور دیت اور تعزیر کے متبادل سزائیں قرار دینے کا یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ دونوں کی سزائیں جمع نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ بدل اور مستبدل کو جمع کر دینا طبیعت استبدال کے منافی ہے اور اس تبادل کا ایک نتیجہ یہ بھی مرتب ہو گا کہ متبادل سزا کے اجراء کا حکم اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک سزاءِ اصلی کا نفاذ ممتنع نہ ہو جائے۔

اگر قصاص ممتنع ہو جائے یا کسی سبب کی بناء پر ساقط ہو جائے تو سزاءِ اصلی کے حکم کا اجراء بھی ممتنع ہو جائے گا۔

اعضاء کے کاٹنے کی صورت میں:

قصاص میں جو اعضاء کاٹا گیا ہے اس کے بدلے میں وہی اعضاء کاٹا جائے گا۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۝

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،لکھا گیا ہے اوپر تمہارے برابری کرنا مارے گیوں کے بیچ ، آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے ، تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی ہو، تو پیروی کرنا ہے ساتھ اچھی طرح کے، اور ادا کرنا ہے طرف اس کے ساتھ نیکی کے، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت، اس کے بعد جو زیادتی کرے، تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اے اہلِ عقل تاکہ تم (قتل و خون ریزی سے، یعنی ﷲ کے غضب سے کہ قتل و خون ریزی غضب کی ایک صورت ہے ) بچو۔ (سورۃ البقرۃ آیت 178)

اعضاء کی افادیت ختم ہو جانا:

اعضاء کی افادیت ختم ہو جانے میں خود اعضاء کا باقی رہنا ملحوظ ہے۔ چنانچہ اگر کسی عضو کی افادیت بھی جاتی رہی اور خود عضو بھی جاتا رہا، تو یہ صورت اعضاء کی علیحدگی کی ہو گی، کیونکہ اس صورت میں عضو کی افادیت خود اس عضو کے تابع ہے۔

اصول یہ ہے کسی عضو کی محض افادیت کے ختم ہونے پر قصاص نہیں ہے، کیونکہ قصاص کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ البتہ اگر قصاص کسی طور ممکن ہو تو بیشتر فقہاء کی رائے میں قصاص سے کوئی اور مانع موجود نہیں ہے، بلکہ مجنی علیہ کو اس کا حق دلایا جائے گا۔ اور اگر قصاص ممکن نہ ہو تو مجرم پر دیت عائد ہو گی۔

سر اور چہرے کے زخموں کے بارے میں:

فقہاء اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ سر اور چہرے کے زخموں میں موضحہ زخم جس میں ہڈی ظاہر ہو جائے میں قصاص ہے کیونکہ اس میں پوری مماثلت کے ساتھ قصاص لینا ممکن ہے اور اس زخم کی حد یعنی ہڈی ہے جس تک آلہ قصاص پہنچ سکتا ہے۔ موضحہ کے بعد والے زخموں میں بالاتفاق قصاص نہیں ہے کیونکہ ان میں پوری مماثلت کے ستھ قصاص لینا ممکن نہیں ہے۔

موضحہ سے کم درجے کے زخموں میں حکومت عدل ہے۔ کیونکہ اس قسم کے زخموں میں شریعت کی طرف سے کوئی دیت متعین نہیں ہے، لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ان زخموں کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا جائے لہذا اس کا اعتبار اور تعین صاحب عدل اور صاحب بصیرت لوگوں کی رائے اور فیصلہ کے مطابق ہی کرنا ہو گا۔

(جراح) زخموں میں قصاص:

زخموں کے قصاص میں فقہاء کا اختلاف بڑا واضح ہے۔ امام مالک اس کے قائل ہیں کہ جسم کے تمام زخموں میں قصاص ہے خواہ زخم منقلہ ہو یا ہاشمہ کیونکہ ان کے نزدیک زخموں میں پوری مماثلت کے ساتھ قصاص لینا ممکن ہے۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک زخموں میں بالکل قصاص نہیں ہے خواہ یہ زخم جائفہ ہوں یا نہ ہوں کیونکہ مکمل مماثلت کے ساتھ ان میں قصاص لینا ممکن نہیں ہے۔ البتہ اگر زخم سے موت واقع ہو جائے تو قصاص لازم آئے گا، بشرطیکہ مجرم نے قتل کا ارادہ کیا ہو، اس لیے کہ زخم سرایت کر کے جان کے ضیاع کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جسمانی زخموں میں قصاص لازم ہے۔ لیکن بعض شافعی مسلک کے فقہاء جسمانی زخموں میں سرے سے قصاص کے قائل نہیں ہیں۔

اگر قصاص لازم نہیں آتا تو تعزیر حکومت وقت کی طرف سے جاری ہو گی۔

ما دون النفس جرم خطا کی سزا:

خطاء ما دون النفس پر جنایت کی سزا دیت یا ارش ہے جو اس کی اصلی واحد سزا ہے اور دیت کی کوئی لازمی متبادل نہیں ہے۔ لیکن اگر قانون ساز ادارے اس کی سزا کی کوئی بدلی سزا مقرر کرنا چاہیں تو شریعت میں اس سے کوئی امر مانع نہیں ہے۔

امام مالک کے نزدیک عمد میں تو تعزیر لازم ہے لیکن خطاء میں لازم نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے انہوں نے خطا کی صورت میں تعزیر سے روک دیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے عمد کی صورت میں مجرم کو جرم کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے ان کے نزدیک سزاءِ تعزیر ناگزیر ہے جب کہ صورت خطا میں ناگزیر نہیں ہے۔ (اسلام کا فوجداری قانون جلد دوم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top