اسلامی قانون کی روشنی میں دعویٰ کی تعریف، عناصر اور اقسام

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
دعویٰ کا مفہوم:

لغوی اعتبار سے

"وہ قو ل جس سے انسان کسی شخص کے مقابلے میں اپنا حق ثابت کرے۔ اقرار اس کا عکس ہے۔ یعنی اپنے خلاف کسی غیر کے حق کو ماننا "

دعویٰ سے مراد وہ نام ہے جس سے پکارا جائے۔ یعنی اگر کہا جائے کہ "دعویٰ فلان کذا" تو اس کا مطلب ہو گا اس نے فلاں کی بات کی۔ دعویٰ جمع دعاوی ہے۔

"مجلۃ الاحکام العدلیہ" میں دعویٰ کا مفہوم اس طر ح بیان ہوا ہے

"کسی شخص کا کسی دوسر ے آدمی سے حاکم کے سامنے اپنا حق طلب کرنا"

اسی طرح اس مقدمے کو بھی جو فیصلہ کے لیے کسی ثالث کے سامنے پیش کیا جائے دعویٰ کہتے ہیں۔

اصطلاح میں دعویٰ سے مراد وہ قول ہے جو قاضی کے ہاں قبول ہوتا ہے اور اس کے کہنے والا دوسرے سے متنازعہ امور میں حق کا طالب ہوتا ہے۔ یا کسی دوسرے کی طرف سے ایسے ہی دعویٰ میں اپنے حق کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔

ابن قدامہ دعویٰ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

الدعویٰ فی الشرع اضافۃ الانسان الی نفسہ اتسحقاق شیء فی ید غیرہ او فی ذمتہ

شرع میں دعویٰ سے مراد انسان کا کسی ایسی چیز سے تعلق کے استحقاق کو ظاہر کرنا ہے جو کسی دوسرے کے پاس ہوں یا اس کے ذمے ہوں۔

دعویٰ کے عناصر:

دعویٰ کے در ج ذیل عناصر ہیں۔ جو کہ ان تعاریفات سے معلوم ہوتے ہیں۔

مدعی: جو طلب کر ے یا مقدمہ دائر کر نے والا مدعی ہے۔

مدعی علیہ: جس سے حق طلب کیا جا ئے وہ مدعی علیہ ہے۔

وہ حق جس کو مدعی طلب کرتا ہے اس کو حق المدعی بہ کہا جاتا ہے۔

وہ قول جو مدعی قاضی کے سامنے کہتا ہے اور اس کے ذریعے مدعا علیہ سے اپنے حق کا طلب گار ہوتا ہے۔ اس قول کو الدعویٰ کہا جاتا ہے۔

ان عناصر کی تفاصیل درج ذیل پیش کی جاتی ہیں

مدعی اور مدعا علیہ کی تعریف:

مدعی اور مدعا علیہ کی جو تعریفات بیان کی گئیں ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں

1: مدعی وہ ہے جو اگر خصومت سے دستبردار ہو جائے تو اس کو اس کے جاری رکھنے پر مجبور نہ کیا جائے جبکہ مدعا علیہ وہ ہے جو اگر جواب دعویٰ داخل نہ کرے تو اس کو اس پر مجبور کیا جائے۔

2: مدعی وہ ہے جو دوسروں کے مقابلہ میں اپنے لیے کسی چیز، کسی قرضہ یا کسی حق کو طلب کرے اور مدعا علیہ وہ ہے جو اپنے لیے اس حق کا دفاع کرے۔

3: بعض کے خیال میں یہ دیکھنا چاہیے کہ فریقین میں سے کون انکاری ہے پس انکاری کے تعین کے بعد دوسرا شخص مدعی اور پہلا مدعا علیہ ہو گا۔

4: بعض کے نزدیک جو دوسرے کے قبضہ میں موجود کسی چیز کو اپنا بتائے اور مدعا علیہ وہ ہے جو اپنے قبضہ میں موجود کسی چیز کو اپنا ہی بتائے۔

5: مدعی وہ ہے جو کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر کسی چیز کا مستحق قرار نہ پا سکے۔ مثال کے طور پر وہ شخص جو کسی دوسرے کے قبضہ میں موجود چیز کی ملکیات یا استحقاق کا مدعی ہو اور مدعا علیہ وہ ہے جو بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے محض اپنے بیان کی بنیاد پر کسی چیز کا متسحق ہو مثال کے طور پر وہ شخص جس کو عملاً قبضہ حاصل ہے۔

6: مدعی وہ ہے جو ظاہری صورتحال کے علاوہ کسی اور صورت حال کا علمبردار ہو جبکہ مدعا علیہ وہ ہے جو ظاہری صورت حال کو حق قرار دیتا ہو۔

7: امام محمد کے کہتے ہیں کہ مدعا علیہ وہ ہے جو انکاری ہو۔

8: مدعی وہ ہے جو اپنے ارادہ اور اختیار سے عدالت میں اپنی بات کہے اور مدعا علیہ وہ ہے جو مجبورا اس کا جواب دے۔

9: مدعی وہ ہے جو ثابت کرے اور مدعا علیہ وہ ہے جو مدعی کے دعویٰ کا انکار کرے

10: مدعی کی دلیل ثبوت اور بینہ ہے اور مدعا علیہ کی دلیل قسم ہے۔ اس لیے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

البینۃ علی المدعی والیمیں علی المدعی علیہ

بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعا علیہ کے ذمہ ہے۔

المدعی بہ:

اس سے مراد وہ حق ہے جو مدعی طلب کرتا ہے۔ یہ دعویٰ کا موضوع ہوتا ہے۔ فقہاء کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ اگر قاضی کو تمام مقدمات سننے کا اختیار ہو تو وہ ایسے دعویٰ کو سن سکتا ہے اور قاضی مدعی علیہ کے تمام مالی اور غیر مالی حقوق کی سنوائی کر سکتا ہے۔

ابن رشد اس بارے میں کہتے ہیں

اور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قاضی تمام حقوق میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ چاہے یہ حقوق العباد میں سے ہو یا حقوق ﷲ میں سے اور ان کے بارے میں خلیفہ یا حکمران وقت کا نائب ہے۔

اس بارے میں علماء کی کئی آراء منقول ہیں جن میں قاضی کا ذکر کیا گیا ہے۔

دعویٰ کی اقسام:

دعویٰ کے درست اور درست نہ ہونے کے اعتبار سے کئی اقسام ہیں۔ اگر دعویٰ میں درستگی کی تمام صفات پائی جاتی ہیں تو دعویٰ درست ہو گا اور دعویٰ فاسد بھی ہو سکتا ہے جب اس میں کچھ شرائط موجود نہ ہوں اور دعویٰ باطل بھی سو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دعویٰ کی چار قسمیں ہیں

1: صحیح دعویٰ:

جب دعویٰ میں درج ذیل شرائط موجود ہوں تو وہ درست یا الدعوی الصحیۃ ہوتا ہے۔

1: مدعی اور مدعا علیہ کا عاقل ہونا: لہذا مجنون اور ناسمجھ بچہ کا نہ تو خود دعویٰ کرنا صحیح ہے اور نہ دونوں کے خلاف دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان دونوں کے خالف دعویٰ کر بھی دیا جائے تو دونوں جواب دعویٰ داخل کرنا ضروری نہ ہو گا اور نہ ثبوت طلب کیا جائے گا۔

2: وجہ دعویٰ یا بنائے دعویٰ کا معلوم و معروف ہونا: اس لیے کہ ایک غیر معلوم اور انجان چیز پر نہ تو گواہی دی جا سکتی ہے اور نہ ہی فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ بنائے دعویٰ کا علم دو طرح حاصل ہو سکتا ہے یا تو وہ چیز خود موجود ہو اور اس کی طرف اشارہ کر کے بتا دیا جائے یا اس کی تفصیل بیان کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں مختصراً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ بنائے دعویٰ یا تو کوئی چیز (عین) ہو گی یا کوئی دین۔ (financial liability claim or debt)۔ اب اگر وہ کوئی معین چیز ہے تو یا تو وہ منقولہ ہے یا غیر منقولہ، اگر وہ کوئی منقولہ شے ہے تو اس کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے تا کہ دوعی اور گواہی کے وقت اس کی طرف اشارہ کر کے بتایا جا سکے اور اس کی نوعیت معلوم ہو سکے۔

البتہ اگر وہ کوئی ایسی چیز ہے جو لائی تو جا سکتی ہے لیکن اس کا لے کر آنا بہت مشکل اور وقت کا کام ہے جیسے چکی کا بڑا پتھر یا ایسی ہی کوئی اور چیز تو اگر قاضی مناسب سمجھے تو اس کو عدالت میں حاضر کرنے کا حکم دے سکتا ہے اور اگر چاہے تو کسی دیانتدار شخص کو وہیں بھیج کر دکھلا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ چیز غیر منقولہ یعنی جائیداد ہے تو پھر اس کی حدود بیان کرنا ضروری ہے تاکہ وہ معلوم و متعین ہو سکے۔ اس لیے کہ جائیداد اس وقت تک معلوم و متعین نہیں ہو سکتی اب تک اس کی حدود نہ بیان کی جائیں۔ اس بارے میں فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں کہ صرف ایک طرف کی حدود بیان کرنا کافی نہیں ہو گا۔ جہاں تک کہ دو طرف کی حدود کا تعلق ہے تو امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس کے بیان کرنے کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ امام ابو یوسف کافی نہیں سمجھتے۔ رہا یہ سوال کہ کیا تین طرف کی حدود بیان کر دینا کافی ہو گا تو مذکورہ تینوں فقہاء کرام کی رائے میں کافی ہو گا اور امام زفر کی رائے میں کافی نہ ہو گا۔ اسی طرح اس جائیداد غیر منقولہ کا محل وقوع بھی بیان کرنا ضروری ہے جس کے حدود اربعہ بیان کیے جا رہے ہیں اسی طرح وہ شہر یا گاؤں بھی بتانا چاہیے جہاں وہ واقع ہے۔

3: جائیداد غیر منقولہ کے دعویٰ میں مدعی کا یہ ذکر کرنا کہ وہ مدعی علیہ کے قبضہ میں ہے اس لیے کہ دعویٰ کسی فریق کے مقابلہ ہی میں ہوتا ہے اور یہاں مدعا علیہ فریق اس وقت قرار پائے گا جب جائیداد اس کے قبضہ میں ہو۔ اس لیے دعویٰ میں یہ بات ضرور شامل ہونی چاہیے کہ جائیداد متنازعہ مدعا علیہ کے قبضہ میں ہے تاکہ وہ مقدمہ کا فریق قرار پا سکے۔

4: دعویٰ میں یہ بات شامل ہونا کہ مدعی بنائے دعویٰ کا مطالبہ کر رہا ہے، اس لیے کہ انسان کے کسی حق کی ادائیگی کا بندوبست کرنا عدالت کے ذمہ اسی وقت واجب ہو گا جب وہ اس کا مطالبہ کرے۔

5: دعویٰ کا خود مدعی کی زبان سے ہونا، سوائے یہ کہ کوئی عذر ہو۔

6: دعویٰ کا کمرہ عدالت میں پیش کیا جانا، چنانچہ کوئی بھی دعویٰ صرف اسی قاضی کے روبرو ہی پیش کیا جا سکتا ہے اسی طرح گواہی بھی قاضی کے روبرو ہی پیش کی جا سکتی ہے۔

2: غیر صحیح دعویٰ:

اصل میں تو یہ دعویٰ درست ہوتا ہے۔ لیکن اس میں بعض ایسی چیزیں داخل کر دی جاتی ہیں جو غیر مشروعہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی دعویٰ کا مدعی مجہول ہو۔ ایسی صورت میں قاضی اس دعویٰ کی سماعت نہیں کرے گا۔ فاسد دعویٰ دائر ہونے کی صورت میں مدعی سے دعویٰ درست کرنے کے لیے کہا جائے گا اور اس میں شامل فاسد چیز یا شرط کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا یا تو قاضی اس کو سنے گا ورنہ اسے لوٹا دیا جائے گا۔

3: غلط دعویٰ:

یہ دعویٰ اصولی طور پر ہی غلط ہوتا ہے۔ اس کی سماعت بھی نہیں ہوتی کیونکہ اس کو درست کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی فقیر یہ دعویٰ دائر کر دے کہ فلاں امیر ہے تو اس کے مال میں سے مجھے حصہ دے دیا جائے۔ تو یہ دعویٰ چونکہ اصولی طور پر غلط ہے اس لیے اس کو سنا نہیں جائے گا۔

4: دعویٰ کی خاص قسم:

عام دعویٰ میں مدعی اپنا خاص حق طلب کرتا ہے۔ جبکہ دعویٰ احسبۃ میں حق ﷲ کو مدعی طلب کرنے والا ہوتا ہے۔ ایک ہی وقت میں مدعی بھی ہوتا ہے اور گواہ بھی مثلاً اگر کوئی یہ دعویٰ دائر کرے کے فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور اس کے باوجود وہ آپس میں شادی شدہ لوگوں کے طرح رہ رہے ہیں۔ اس قسم کا دعویٰ دائر کرنا جائز ہے کیونکہ یہ امر بالمعرف و نہی عن المنکر کے باب میں سے ہے اور یہ فروض کفایہ میں سے ہے۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار)
 
Top