دعویٰ اور جواب دعویٰ داخل کرنے کا طریقہ کار

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
1) دعویٰ دائر کرنا

1: دعویٰ کس عدالت میں دائر کیا جائے گا:


دعویٰ اس عدالت میں دائر کیا جاتا ہے جو اس قسم کے دعویٰ جات کی سماعت کرنے کے لیے مختص ہے۔ عادۃً دعویٰ اس شہر کی دعالت میں دائر کیا جاتا ہے جس میں مدعی علیہ مقیم ہو۔ فقہ حنفیہ میں ہے کہ:

اگر ایک شہر میں دو قاضی ہوں اور دونوں کی حدود مقرر ہوں اور دو اشخاص کے درمیان تنازعہ واقع ہو تو ان میں سے ایک ایک قاضی کی حدود میں رہتا ہو اور دوسرا دوسرے قاضی کی حدود میں، مدعی اپنی حدود کے قاضی کے پاس مقدمہ کرنا چاہتا ہو اور مدعی علیہ اپنی حدود کے قاضی کے پاس تو امام ابو یوسف کے نزدیک مدعی کی بات کا اعتبار ہو گا۔ امام محمد کہتے ہیں کہ مدعی علیہ کی بات مانی جائے گی اور اسی پر فتوی ہے

اسی طرح فقہ حنفیہ میں روایت ہےکہ اگر کسی سپاہی اور عام شہری کے درمیان تنازعہ ہو جائے اور دونوں میں سے ہر ایک اپنے ہاں مقدمہ چلانا چاہتا ہو تو مقدمہ مدعی علیہ کے شہر میں دائر ہو گا۔

البتہ مگر مقدمہ منقول یا غیر منقول جائیداد کے متعلق ہو تو دعویٰ اس جگہ دائر کیا جائے گا جس جگہ جائیداد موجود ہو گی۔

2: دعویٰ دائر کرنے کی فیس:

اس بارے میں اسلام؛ نظام قضاء کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دعویٰ پر حکومت اسلامیہ کوئی اجر حاصل نہیں کرتی کیونکہ قضاء خلافت کے امور میں سے ہے اور قاضی کے ساتھ فیصلہ کرنے والا ہے اور یہی اسلام کا حکم ہے اس لیے اس پر کسی قسم کا معاوضہ لینا درست نہ ہو گا۔ فقہ اسلامی کی تاریخ میں کوئی مثال ایسی نہیں کہ دعویٰ دائر کرنے سے مخصوص مالی مبلغ بطور فیس طلب کی گئی ہو۔ فقہاء نے کہا ہے کہ قاضی اور اس کے عملہ کی تنخواہ بیت المال میں سے ہوں گے۔

3: دعویٰ دائر کرنے کا طریقہ:

دعویٰ قاضی کے پاس پیش کیا جاتا ہے۔ جب دعویٰ دائر کرنے والے لوگ آئیں تو حاجب ان کو ترتیب سے قاضی کی عدالت میں پیش کرتا ہے۔ اس بارے میں الکاسانی کہتے ہیں:

میرے شہر میں رواج یہ ہے کہ قاضی کا کاتب لوگوں کے دعویٰ جات مدعی اور مدعی علیہ کے ناموں کے ساتھ درج کرتا ہے۔ اسی طرح وہ موضوع دعویٰ اور گواہوں کا بھی اندراج کرتا ہے اور ہر ایک دعویٰ کو علیحدہ تھیلے میں ڈالتا ہے۔ پھر ہر شہر اور اس کے ہر علاقے کے دعویٰ جات کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے اور پھر ان کو قاضی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ پھر قاضی ہر دعویٰ کی سماعت کرتا ہے اور مقدمات کی سماعت سے پہلے گواہوں کا تزکیہ کرتا ہے۔

دعویٰ کی سماعت کا طریقہ کار ان اجتہادی امور میں سے ہے جن کو قاضی یا ولی الامر اپنی رائے سے طے کر سکتے ہیں۔ بہتر صورت یہ ہے کہ دعویٰ کے نسخے، جن میں مدعی اور مدعی علیہ کے نام درج ہوں، موضوع دعویٰ درج ہو اور دعویٰ کے اثبات کے لیے شواہد موجود ہوں عدالت میں جمع کروائے جائیں۔ قاضی ان پر اپنے دستخط کر کے اور اپنے کاتب کو ان کے اندراج کا حکم دے اور اسی اندراج کو دعاوی کے سماعت میں ترتیب کا درجہ حاصل ہو گا۔

تاہم استثنائی صورتوں میں قاضی کو اختیار ہو گا کہ وہ ایسے دعاوی کی سماعت کرے جو انتظار نہ کر سکتے ہوں۔ یا جن میں کوئی فوری مسئلہ ہو۔ جیسے مسافروں کے دعاوی۔

4: دعویٰ کون دائر کرے گا؟

اصل یہ ہے کہ صاحب حق ہی دعویٰ دائر کرے اگر وہ اس حق کے طلب کا اہل ہو اور اس میں اس کی ضروری شرائط موجود ہوں یعنی یہ کہ وہ مدعی ہو اور عاقل وبالغ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ مدعی کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ کسی دوسرے کو دعویٰ دائر کرنے کے لیے وکیل کر دے جو اس کی نیابت سے دعویٰ دائر کرے۔ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس مدعی کی طرف سے دعویٰ دائر کرنے کا مکمل اختیار ہو۔

5: الوکیل بالمخصوصۃ:

فقہاء کے نزدیک مدعی یا مدعی علیہ کی وکالت تنازعات میں کرنا جائز ہے۔ یہ وکالت بالاجر بھی ہو سکتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔

فقہاء نے وکیل فی الخصوصۃ کے بارے میں کہا ہے کہ ان کا جواز موجود ہے کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے عمر بن امیہ کو ام المؤمنین ام حبیبہ سے نکاح کے لیے اپنا وکیل کیا تھا اور انہوں نے آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ام حبیبہ سے کروایا اور یہ کہ تمام شہروں میں اس وکالت پر عمل ہوتا ہے۔

2) جواب دعویٰ

جہاں تک دعویٰ اور اس کے متعلقہ مسائل کا تعلق ہے تو ان کا حکم یہ ہے کہ مدعا علیہ پر اس کا جواب داخل کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ جھگڑا اور مقدمہ بازی کو ختم کرنا بہرحال واجب ہے اور یہ کام جواب داخل کیے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا یہ بھی واجب ہو گا کہ اب جب مدعا علیہ کے ذمہ جواب دعویٰ پیش کرنا ضروری ٹھہرا تو یا تو وہ اقرار کر لے گا یہ خاموش رہے گا یا انکار کر دے گا۔ اگر وہ دعویٰ کی صحت کا اقرار کر لیتا ہے تو اس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ مدعی کو اس کا حق دے دے اس لیے کہ مدعی کا دعویٰ سچا ثابت ہو گیا ہے۔ لیکن اگر مدعا علیہ دعویٰ کی صحت سے انکا کر دے تو دیکھا جائے گا کہ کیا مدعی کے پاس ثبوت ہے تو اس کو پیش کرے۔

یہاں ایک ضمنی سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مدعی پہلے یہ کہے کہ میرے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں اور بعد میں ثبوت پیش کر دیا تو کیا یہ ثبوت قبول کر لیا جائے گا؟ اس سلسلہ میں حسن بن زیاد کی روایت امام ابو حنیفہ سے یہ ہے کہ یہ ثبوت کر لیا جائے گا۔ اس کے برعکس امام محمد کی رائے یہ ہے کہ قبول نہ کیا جائے۔ امام محمد کی دلیل یہ ہے کہ اس شخص کا یہ بیان کہ میرے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں اپنے بارے میں اقرار کے مترادف ہے اور اصول یہ ہے کہ انسان اپنے بارے میں جو اقرار کرے اس میں اس کو جھوٹا نہ سمجھا جائے لہذا اس اقرار کے بعد اس کا کوئی ثبوت پیش کرنا اقرار سے رجوع کرنے کے ہم معنی ہو گا جو صحیح نہیں۔ مدع کے پاس سرے سے کوئی ثبوت نہ ہو اور وہ مطالبہ کرے کہ مدعا علیہ کو قسم دی جائے تو ایسے معاملہ میں جس میں قسم دی جا سکتی ہے، مدعا علیہ سے کہا جائے گا کہ وہ قسم کھائے۔

1: جواب دعویٰ کب دیا جائے؟

جب دعویٰ داخل کر دیا جائے تو حکم یہ ہے کہ مدعا علیہ کے ذمہ اس کا جواب دینا واجب ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ خصومت اور جھگڑے کا ختم کرنا واجب ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک جواب دعویٰ داخل نہ کیا جائے، لہذا جواب دعویٰ داخل کرنا واجب ہو گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قاضی مدعی کے مطالبہ کے بغیر ہی جواب دعویٰ طلب کرے، ادب القاضی میں بیان کیا گیا ہے کہ قاضی خود ہی جواب دعویٰ طلب کرے گا۔ لیکن زیادات میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تک مدعی یہ مطالبہ نہ کرے کے اس دعویٰ کا جواب مدعا علیہ سے مانگا جائے اس وقت تک قاضی از خود جواب دعویٰ طلب نہ کرے۔

اسی طرح جب فریقین قاضی کے سامنے پیش ہوں تو کیا وہ از خود مدعی سے سوال کرے کہ اس کا دعویٰ کیا ہے۔ ادب القاضی میں لکھا ہے کہ از خود سوال کرے جبکہ زیادات میں لکھا ہے کہ قاصی از خود سوال نہ کرے۔

2: مدعا علیہ کو جوابی ثبوت پیش کرنے کا قوقع دیا جائے:

اگر مدعی کے ثبوت پیش کرنے کے بعد مدعا علیہ یہ دعویٰ کرے کہ میں بھی اس کے خلاف اپنا موقف مضبوط کرنے کے لیے ثبوت پیش کر سکتا ہو تو قاضی کو چاہیے کہ مدعا علیہ کو کچھ مہلت دے اس لیے کہ حضرت عمر نے اپنے مشہور مراسلہ نظام عدالت میں ارشاد فرمایا:

جو شخص جوابی ثبوت رکھنے کا دعویٰ رکھتا ہو اس کو وقت دو جس میں وہ اپنا جوابی ثبوت پیش کر سکے

یہاں حضرت عمر کے اس قول میں دعویٰ رکھنے والے سے مراد وہ شخص (مدعا علیہ) ہے جس کا بیان یہ ہو کہ میرے پاس مدعی کے دعویٰ کا توڑ موجود ہے جو میں پیش کر سکتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر حضرت عمر لکھتے ہیں۔ اگروہ یہ جوابی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے تو تم اس کے خلاف فیصلہ دینے کو جائز سمجھو۔

مزید برآں اگر قاضی اس کام کے لیے مدعا علیہ کو مہلت نہیں دے گا اور محض مدعی کے پیش کردہ ثبوت کی بنا پر فیصلہ کر دے گا تو ممکن ہے کہ آگے چل کر خود ہی اپنا فیصلہ بدلنا یا واپس لینا پڑے اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ مدعی علیہ کسی وقت جوابی ثبوت فراہم کر دے۔ اس لیے فیصلہ بار بار بدلنے یا واپس لینے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مدعا علیہ کو یہ مہلت دے دی جائے۔ جہاں تک مہلت کا سوال ہے کہ یہ کتنی ہو تو یہ بات عدالت کی صوابدید ہے، وہ چاہے تو اسی روز شام تک کی مہلت دے دے۔ چاہے تو اگلے دن تک کی اور چاہے تو تیسرے دن کی مہلت دے دے۔ لیکن تیسرے دن سے زیادہ مہلت نہ دے۔ اس لیے کہ اب جب کہ مدعی اپنا حق ثابت کر چکا ہے تو محض ایک امکان کے پیش نظر، اس کے نفاذ میں اس سے زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔

اگر مدعا علیہ یہ کہے کہ میرے پاس ثبوت تو ہے لیکن وہ یہاں موجود نہیں یا میں اس کو یہاں پیش نہیں کر سکتا تو عدالت کو چاہیے کہ اس کے اس بیان کی طرف توجہ نہ دے اور مدعی کے حق میں فیصلہ کر دے۔

3: فریقین کی پیشی کا طریقہ کار:

قاضی کو چاہیے کہ مختلف فریقوں کو عدالت میں طلب کرنے میں ترتیب قائم رکھے۔ جو پہلے آیا ہے اس کو پہلے طلب کیا جائے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جائز چیزوں میں جو شخص پہلے آئے اس کا حق مقدم ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ بات مشتبہ ہو جائے کہ کہ کون پہلے آیا تھا اور کون بعد میں تو پھر قرعہ ڈالنا چاہیے اور قرعہ میں جس کا نام نکلے اس کو پہلے پیش ہونے کا موقع دینا چاہیے۔

اسی طرح پیشی میں اس شخص کو مقدم رکھنے کی کوشش کی جائے جو اپنے ہمراہ گواہ لے کر آیا ہے اور ان کو پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ گواہوں کا احترام کرنا فرض ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

گواہوں کا احترام کرو اس لیے کہ ﷲ تعالیٰ ان کے ذریعے لوگوں کے حقوق زندہ رکھتا ہے

اب ظاہر ہے کہ اگر گواہوں کو عدالت کے دروازے پر روک کر کھڑا کر دیا جائے تو یہ بات ان کے احترام کے منافی ہو گی۔ یہ حکم تو اس صورت میں ہو گا جب گواہ پیش کرنے والا ایک ہی شخص ہو۔ اگر ایک سے زائد لوگ ایک ہی وقت میں اپنے اپنے گواہوں کو پیش کرنے آ جائیں تو پھر قرعہ اندازی کی جائے۔

4: پیشی کی تاریخ:

اگر قاضی مقدمات کی قلت و کثرت کے پیش نظر جس طرح مناسب سمجھے ہر مقدمہ کے فریقوں کی پیشی کا ایک دن مقرر کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ اگر لوگوں کو بغیر تاریخ مقرر کئے ویسے ہی چھوڑ دیا گیا تو وہ عدالت کے دروازہ پر ہجوم کر لیں گے اور ممکن ہے وہاں ان میں مار پٹائی بھی ہونے لگے۔

5: عورتوں اور مردوں کی الگ الگ پیشی:

قاضی کو چاہیے کہ خواتین کو علیحدہ پیشی کا موقع دے اور مردوں کو علیحدہ اس لیے کہ عموماً کمرہ عدالت میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس ہجوم میں مرد اور عورت ایک ساتھ پیش ہوں گے تو اس سے جو فتنے اور برائیاں پیش آئیں گی وہ مخفی نہیں لیکن یہ ان مقدمات میں تو ہو سکتا ہے جو صرف عورتوں کے مابین ہوں۔ رہے وہ مقدمات جن میں عورتیں اور مرد دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہوں تو ان میں عورتوں کو مردوں کے ہمراہ بلائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

6: آغاز مقدمہ:

بعض قاضی صاحبان خود خاموش رہنا پسند کرتے ہیں تاکہ فریقین میں سے کوئی گفتگو کا آغاز کر سکے۔ اس لیے کہ اگر مقدمہ کا آغاز قاضی کی گفتگو سے ہو تو یہ گویا قاضی کی طرف سے مقدمہ بازی کو شہہ دینے کے مترادف ہے۔ جبکہ قاضی وہاں مقدمہ بازی کو نمٹانے کے لیے بیٹھا ہے نہ کہ اس کو بھڑکانے کے لیے۔ لیکن ہماری رائے میں یہ معاملہ قاضی کی اپنی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بعض اوقات کمرہ عدالت کا رعب فریقین کو بات کا آغاز کرنے سے روک دیتا ہے۔ اور جب تک قاضی خود گفتگو شروع نہ کرے وہ نہیں بول سکتے۔

7: دوران سماعت قاضی کے لیے ہدایات:

  • قاضی کو مقدمہ کی سماعت کے دوران پوری سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ اپنی تمام تر صلاحیتیں فریقین کی گفتگو پر مرکوز رکھنی چاہیۓ تا کہ کسی کے حقوق ضائع نہ ہوں۔
  • قاضی فیصلہ کے وقت کسی پریشانی کا شکار نہ ہو۔
  • قاضی کو چاہیے کہ تنگ دلی یا گھبراہٹ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔
  • قاضی کو غصہ کی حالت میں فیصلہ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
  • نشتوں کی ترتیب میں فریقین کے درمیان مکمل مساوات قائم رکھے۔ دونوں کو اپنے سامنے بٹھائے۔ نہ کسی کو دائیں اور نہ کسی کو بائیں۔
  • کسی ایک فریق کے ساتھ سرگوشی، کسی ایک فریق کو چھوڑ کر دوسرے کو کوئی اشارہ نہ کرے۔
  • فریقین سے ہدیہ قبول نہ کرے۔
  • لوگوں کی شخصی دعوتیں قبول نہ کرے۔ اس لیے کہ اس صورت میں قاضی پر طرفداری کا الزام آ سکتا ہے۔
  • فریقین میں سے کسی ایک کو کوئی دلیل سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔ اس لیے ایک تو اس سے دوسرے فریق کی دل شکنی ہو گی اور دوسرا یہ چیز فریق ثانی کی کھلم کھلا مدد کے مترادف ہے۔ اس سے قاضی کی ذات پر جانبداری کا الزام آ سکتا ہے۔
  • گواہوں سے غیر ضروری، غیر متعلق اور لغو باتیں نہ کرے۔
  • حدود و قصاص کے علاوہ دوسرے تمام مقدمات میں گواہ کے مال کے حال کی تحقیقات کرے، چاہے فریق مخالف اس پر کوئی اعتراض نہ کر رہا ہو۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top