اقرار کا حکم اور شرائط

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اقرار کا مفہوم:

اقرار کے لغوی معنی ثابت کرنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے "قرا الشی یقر قرارا" جبکہ کوئی چیز ثابت ہو جائے اور شرع میں اقرار سے مراد کسی دوسرے کے حق کا اپنے پر واجب ہونے کا اعتراف کرنا ہے۔

فقہاء کرام نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ

اخبار ثبوت الحق للغیر علی نفس المقر و لو فی مستقبل

کسی غیر کے حق کو اپنے حق پر تسلیم کرنے کی خبر دینا چاہے یہ حق مستقبل میں ہی کیوں نہ ہو

اقرار کی خبر محض خبر نہیں ہے بلکہ وہ ایک طرح سے خبر بھی ہے اور دوسری طرح سے انشاء یعنی بیان کرنا ہے اور دونوں میں سے ایک صورت دوسری صورت پر غالب بھی آ سکتی ہے اور اسی کی بنیاد پر احکام مرتب ہوں گے۔ مثلاً اگر کسی عورت نے کسی مرد کی زوجیت کا اقرار کر لیا تو یہ اقرار درست ہو گا اور دونوں کے درمیان رشتہ زوجیت ثابت ہو جائے گا اور اسی بناء پر احکامات مرتب ہوں گے حالانکہ اقرار کے وقت دونوں کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ تھے۔ چونکہ یہ اقرار اپنی صورت کے اعتبار سے خبر ہے لہذا اس مثال میں اقرار خبر ہے اور اگر ہم اس اقرار کو انشاء سمجھ لیں تو اقرار درست نہ ہو گا اور نہ انکار درست تسلیم ہو گا کہ اس کے لیے گواہوں کا ہونا لازمی ہے۔

اقرار کی حجیت:

اقرار کی حجیت قرآن، سنت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اجماع سے ثابت ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ۝

اور یاد کرو جب ﷲ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں (سورۃ ال عمران آیت 81)

اگر اقرار حجیت نہ ہوتا تو ﷲ تعالیٰ یہ طلب نہ کرتا۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمیں بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۝

اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ ﷲ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال ﷲ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیر و تو ﷲ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے (سورۃ النساء آیت 135)

مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس میں اپنے اوپر گواہی دینا دراصل اقرار کرنا ہے۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ۝

بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے۔ (سورة القيامة آیت 14)

روایت سے ثابت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ماعذ اور الغامدیۃ کے بارے میں اقرار قبول کیا اور اسی بناء پر ان پر حد قائم کی گئی۔

قرآن و سنت کے انہی دلائل کی بناء پر علماء امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اقرار وسائل ثبوت میں اہم ترین وسیہ اور ثبوت کا مصدر ہے اور قیاس کی رو سے اقرار ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب گواہی کی بنیاد پر اقرار کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اقرار براہ راست تسلیم کرنا اس سے اولی ہو گا۔

اقرار کا حکم:

اقرار کا حکم یہ ہے کہ اس سے اقرار کیے جانے والی چیز کا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص نے یہ اقرار کی لیا کہ میرے ذمے زید کے ایک ہزار دینا ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اقرار نے ہمارے لیے یہ واضح کیا کہ اقرار کرنے والے کے ذمہ زید کا قرض ہے پس اگر اقرار کرنے والے میں مطلوبہ شرائط پوری ہیں تو جو کچھ اس نے اقرار کیا ہے وہ اس کے ذمے آ جائے گا چاہے یہ مال کا اقرار ہو یا قصاص کا اور اقرار کرنے کے بعد رجوع کرنا جائز نہیں ہو گا۔ تاہم اگر کسی حد کا اقرار کر لیا تو وہ پھر رجوع کر سکتا ہے۔

اقرار کے درست ہونے کی شرائط:

اقرار کے درست ہونے کے لیے کئی شرائط ہیں ان میں سے کچھ شرائط کا تعلق اقرار کرنے والے سے ہے اور کچھ کا تعلق المقرلہ یعنی جس چیز کا اقرار کیا جائے اس سے متعلق ہیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1) شروط المقر (اقرار کرنے والے کے لیے شرائط)

1: اقرار کرنے والے میں یہ شرط لگائی جاتی یہے کہ وہ بالغ اور عاقل ہو۔ اسی بناء پر مجنون اور بچے کا اقرار درست نہیں ہو گا۔ تاہم وہ بچہ جسے تجارت کی اجازت دے دی گئی ہو اگر اقرار کرے تو اس کا اقرار تجارتی معاملات میں کرنا درست ہو گا۔ ان معاملات کے علاوہ باقی چیزوں میں اس کا اقرار درست نہ ہو گا۔ مکرون چیز کا اقرار بھی درست نہیں ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

رفع عن امتی الخطاء و النسیان و ما اسنکرھوا علیہ

دور کر دیا گیا میری امت سے بھول چوک اور وہ جسے وہ مکرون سمجھیں اور اگر (المقرر) مکروہ اقرار کرتا ہے تو وہ اسی نوع میں سے ہے جو امت کے لیے ناپسندیدہ ہے۔

2: اقرار کرنے والے میں یہ بھی شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ اچھی صحت کی حالت میں ہو اور نشہ کی حالت میں نہ کیونکہ جمہور کے نزدیک سکران کا اقرار کرنا ہرگز درست نہیں۔ چاہے اس نے مکروہ طریقے سے شراب پی ہو یا اسے بطور دوا پیا ہو۔

جبکہ احناف کہتے ہیں کہ جو شراب پینے والا شراب پینے کے باوجود اپنے اعصاب پر قابو رکھتا ہو تو اسی صورت میں اس کا کیا ہوا اقرار درست ہو گا تاہم مرتد ہونے یا حدود میں شامل جرائم کے ارتکاب کا اقرار بھی ایسی حالت میں درست نہ ہو گا۔ اسی طرح الوکیل بالطلاق اگر نشے کی حالت میں طلاق دے یا اقرار کرے تو اس کا اقرار متعبر نہ ہو گا۔

3: اقرار کرنے والے پر اس سے پہلے کہ کسی اقرار کی وجہ سے کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو کیونکہ تہمت کی وجہ سے سچ کے رجحان پر جھوٹ کا رجحان غالب آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مرض الموت میں مبتلا مریض نے اپنے ذمے قرض لیا جو کہ اس کے وارث دیں گے تو یہ اقرار درست نہیں ہو گا اور وہی قرضہ لازم آئے گا، کیونکہ اس پر یہ الزام ہو سکتا ہے کہ وہ بعض کے ذمہ قرض ڈال کر دوسروں کو فائد پہنچانا چاہتا ہے۔

2) المقربہ (یعنی وہ چیز جس کا اقرار کیا جائے)

اس میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ یہ عقلاً اور شرعاً ناممکن نہ ہو کیونکہ جو کام عقلی طور پر ہونا ممکن نہ ہو اس کا اقرار کرنا بھی درست نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے اقرار کیا کہ میں فلاں کو فلاں دن 100 دینا کا قرض دیا تھا اور پتہ چلا کہ جس کو قرض دینے کی بات کی گئی ہے وہ اس دن سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔

اور شرعاً ناممکن سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہو گیا اور بیٹا یا بیٹی ورثاء چھوڑ گیا اور بیٹا یہ اقرار کرے کہ جائیداد ان دونوں کے درمیان برابر تقسیم ہو گی تو یہ درست نہ ہو گا کیونکہ شرع میں لڑکے کو لڑکی پر دگنا حصہ دیا گیا ہے۔

3) شروط المقرر لہ (جس کے لیے اقرار کیا گیا ہو)

اس کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جس کا حق ثابت ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے لیے کیا گیا اقرار درست نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر کسی جانور یا گھر کے لیے مال کا اقرار کرنا جس کی کوئی ملکیت نہیں ہوتی تو ایسا اقرار کرنا درست نہ ہو گا۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار)
 
Top