شہادۃ علی الشہادۃ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
گواہی پر گواہی (شہادۃ علی الشہادۃ)

اس گواہی سے مراد یہ ہے کہ گواہ یہ گواہی دے کہ فلاں حق کے ساتھ گواہی دیتا ہے۔ اموال کے بارے میں فقہاء کا اجماع ہے کہ ان میں ایسی گواہی جائز ہے۔ تاہم حدود میں ایسی گواہی قبول نہیں کی جاتی یہ امام نخعی، شعبی، حنابلہ اور حنفیۃ کا قول ہے۔

جبکہ امام مالک، امام شافعی، ابو ثور وغیرہ کا کہنا ہے کہ حدود میں بھی اس گواہی کو قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ امور جب اصل گواہی سے ثابت ہوتے ہیں تو شہادۃ علی الشہادۃ سے بھی ثابت ہوں گے۔

پہلی رائے دینے والوں کا موقف یہ ہے کہ حدود شبھات سے ساقط ہو جاتی ہیں شہادۃ علی الشہادۃ میں شبہ کی گنجائش ہوتی ہے کیونکہ اس میں غلط، سہو، وغیرہ کا احتمال زیادہ ہوتا ہے جب کہ اصل گواہی میں یہ احتمال نہیں ہوتا اور یہ گواہی اس وقت قابل قبول ہوتی ہے جب اصل گواہی موجود نہ ہو اسی بناء پر اس گواہی کو ان معاملات میں قبول نہ کیا جائے گا جن میں شبھات سے سزائیں ساقط ہو جاتی ہیں۔

امام احمد کا قول یہ ہے اور یہی حنابلہ کی رائے ہے کہ قصاص میں شہادۃ علی الشہادۃ قبول نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ بدنی سزا ہے اور شبہ سے ساقط ہو جاتی ہے اور یہی امام ابو حنیفہ کی بھی رائے ہے۔

امام مالک، امام شافعی، اور امام ابو ثور کہتے ہیں کہ قصاص میں شہادۃ علی الشہادۃ قبول کی جائے گی کیونکہ یہ بندوں کا حق ہے اور اگر کوئی اس کا اقرار کر کے رجوع کر لے تو اس سے حد ساقط نہ ہو گی۔

شہادۃ علی الشہادۃ کی شروط:

جن صورتوں میں شہادۃ علی الشہادۃ قبول کی جاتی ہے ان میں اس کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں۔

پہلی شرط:

اصل گواہی موت یا گواہ کے غائب ہونے یا مریض ہونے یا حبس میں ہونے یا حکمرانوں کے خوف کی وجہ سے ممکن نہ ہو۔ یہ امام مالک، حنابلہ، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کی رائے ہیں۔

امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد اس گواہی کو اس وقت بھی قبول کرنے کے قائل ہیں جب اصل گواہی ممکن ہو اور اس ضمن میں وہ روایت قبول نہ کرنے پر قیاس کرتے ہیں۔

پہلی رائے کی دلیل یہ ہے کہ اصل گواہ کو سننا بھی مقصود ہے جب کہ گواہ پر گواہ تو ظن میں سے ہے جبکہ اصل گواہی یقین پر دلالت کرتی ہے۔ پس یقین کی موجودگی میں ظن کی کوئی اہمیت نہ ہو گی۔

دوسری شرط:

دوسری شرط یہ ہے کہ اصل گواہ بھی عادل وہ اور جو اس کی گواہی پر گواہ ہو وہ بھی عادل ہو۔ چنانچہ اصل اور فرع میں عدالت کا وجود لازم ہے کیونکہ فیصلہ دونوں گواہیوں پر ہو گا اس لیے ان دونوں کا درست ہونا لازمی ہے۔

تیسری شرط:

گواہی پر گواہی قبول کرنے کی تیسری شرط یہ ہو گی کہ اصل گواہی پر دو شخص یا ایک شخص اور دو عورتیں گواہی دیں کیونکہ قاضی کے سامنے اصل گواہی کا اثبات درکار ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک گواہی کا نصاب مکمل نہیں ہو گا۔

چوتھی شرط:

اصل گواہ اس کی شہادۃ علی الشہادۃ دینے والے کو یہ کہے کہ "اشھد علی شھادتی" کہ میرے گواہ پر گواہی دو کیونکہ گواہ پر گواہی دینے والا اس کا نائب ہے اور ضروری ہے کہ اس کو نیابت سونپی جائے۔

پانچویں شرط:

گواہ پر گواہی دینے والے اصل گواہ کا نام بتائیں اور اس کی مکمل شناخت سے عدالت کو آگاہ کریں۔ یہ اس لیے ہے کہ اصل گواہ کی عدالت کو جانچہ جا سکے۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار)
 
Top