قرآن و سنت کی روشنی میں قذف کی حرمت پر نوٹ نیز قذف کے لازمی ارکان

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
قرآن و سنت کی روشنی میں قذف کی حرمت:

قذف کے لغوی معنی تیر چلانا، کنکریاں پھینکنا، باتیں بنانا، الزام تراشنا، تہمت لگانا، کسی چیز کو زور سے پھینکنا، اور مٹھی بھر کوئی چیز لے کر اسے پھینکنے کے آتے ہیں"۔

"قذف" کا لفظ بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قذف المحصنات کے معنی ہیں، پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کی تہمت لگانا۔

فقہاء کی اصطلاح میں کسی بے گناہ پر بدکاری کا صریح الزام لگانا یا ایسی بات کہنا جس کا مطلب اسی نوعیت کا ہو، قذف ہے۔ کسی بے گناہ پر بدکاری کی تہمت لگانے کو قذف (یعنی تیر یا پتھر پھینکنا ) اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس فعلِ بد (زنا)کی تہمت کسی پر لگانا ایسا ہی ہے۔ جیسے کوئی شخص غصہ میں آکر پتھر کھینچ مارے اور خیال نہ کرے کہ یہ پتھر کس کس پر جا کر پڑے گا۔

ایک بے گناہ عورت، اس کا باپ، ماں، بہن، بھائی، خاوند اور اس کا کنبہ اور اس کے رشتے دار سب اس کی اس تہمت درازی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور وہ ہنستا اور خوش ہوتا ہے اور اس ضرر سے جو ان سب کو پہنچا۔ بالکل آنکھیں بند کر لیتا ہے ایسے شخص کو مفتری کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جھوٹا الزام تراشتا ہے اور افترا سے کام لیتا ہے"۔

قذف زنا کے اس الزام کو کہا جاتا ہے جو کسی شریف یا پاک دامن عورت یا مرد پر کھلم کھلا یا ڈھکے چھپے الفاظ میں لگایا جاتا ہے۔

عزت و ناموس ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور جو کوئی کسی پر زنا کا جھوٹا الزام عائد کرتا ہے تو وہ دراصل اس کے اس بنیادی حق کو پامال کرتا ہے۔

شریعت میں قذف کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔ قاذف کے لیے دنیاوی سزاؤں کے علاوہ عذاب الٰہی کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔ اس جرم کی حساسیت اور معاشرے پر اس کے اثرات کے پیش نظر خالق کائنات نے خود قرآن مجید میں اس جرم کی سزا مقرر کر دی ہے۔

قذف کی حرمت قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۝

اور جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں۔ (سورۃ النور آیت 4)

اس جرم کو اتنی ہی اہمیت دی گئی ہے جتنی کہ زنا کے جرم کو حاصل ہے۔ اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیئے جائیں۔

شریعت کا اصل مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو اپنی آنکھوں سے بدکاری کرتے دیکھ لے لیکن اس چار گواہ دستیاب نہ ہوں تو وہ خاموش رہے تا کہ فواحش کی اشاعت نہ ہو۔ کیونکہ جو لوگ فواحش کو پھیلاتے ہیں اس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝

وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ النور آیت 19)

یہاں جو چند باتیں واضح ہوتی ہیں ان میں ایک امر تو یہ ہے کہ زنا ایسے فواحش میں شامل ہے جو ایک طرف شرک کے قریب ہے اور دوسری طرف مومنوں کے لیے قطع تعلقی کا حکم بھی دیتا ہے۔

چنانچہ ان احکامات کے بعد آیات تہمت میں یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکدامن عورتوں اور پرہیزگار مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا اس لیے بھی نازیبا ہے کہ یہ عمل کسی عورت یا مرد کی عفت میں عملاً مداخلت کے مترادف ہے۔ جس سے تمام معاشرہ بلاواسطہ متاثر ہوتا ہے۔

مفتی محمد شفیع اس آیت کے حوالے سے معارف القرآن میں رقم طراز ہیں کہ: "جو لوگ زنا کی تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر جن کا زانیہ ہونا کسی دلیل یا قرینہ شرعیہ سے ثابت نہیں اور پھر چار گواہ اپنے دعوے پر نہ لا سکیں تو ایسے لوگوں کو اسی درے لگاؤ۔ اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول مت کرو۔ یہ بھی تہمت لگانےکی سزا کا حکم ہے اور یہ لوگ آخرت میں بھی سزا کے مستحق ہیں۔ کیونکہ فاسق ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کے بعد خدا کے سامنے توبہ کر لیں۔ کیونکہ تہمت لگانے میں انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حق اللہ کو ضائع کیا اور جس پر تمہت لگائی گئی تھی اس سے معاف کرا کر بھی حالت کی اصلاح کر لیں۔ کیونکہ اس کا حق ضائع کیا تھا تو اللہ تعالیٰ ضرور مغفرت کرنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ یعنی سچی توبہ سے عذاب آخرت معاف ہو جائے گا اگرچہ شہادت کا قبول نہ ہونا جو دنیاوی سزا تھی وہ باقی رہے گی کیونکہ حد شرعی کا جز ہے اور ثبوت جرم کے بعد توبہ کرنے سے حد شرعی ساقط نہیں ہوتی"۔

قرآن مجید نے جرم قذف کی درج ذیل سزائیں گنوائیں ہیں:

  • قذف کے مجرم کو اسی (80) درے لگائے جائیں۔
  • اسکی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے۔
  • اسکا شمار فاسقوں، مجرموں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں میں کیا جائے۔
  • ﷲ تعالیٰ کے بزدیک وہ دروغ گو یعنی بلا کا جھوٹا شخص ہے۔
  • دنیا و آخرت میں اس پر لعنت ہے۔
  • قیامت میں دوزخ کاعذاب۔
  • روز محشر اسکے اپنے اعضاء اسکے خلاف شہادت دیں گے۔
  • قذف کی حرمت سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

سات مہلک (گناہوں) سے بچو، صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، اللہ نے جس جان کو حرام کیا اسے مار ڈالنا، سود کھانا، یتمیم کا مال کھانا، جہاد سے پیچھے ہٹ جانا اور محصن اور پاکباز مؤمن عورتوں پر تہمت لگانا

مسلم معاشرہ نیکی کا چمن، بدی کا مدفن ہوتا ہے۔ ازراہ تفنن بھی بدکاری کے چرچے شرعاً اچھے نہیں ہوتے کیونکہ اس طرح نیکی سکڑتی اور برائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔

شرع میں بدکاری کا بیان لذت زبان کے لیے کرنا بھی منع ہے۔ اسلام میں ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ کاذب کے حق میں باعث ہلاکت ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

جو شخص اس لیے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کے لیے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔

قذف کے لازمی ارکان:

پہلا رکن: زنا کی تہمت یا نسب سے انکار:


یہ رکن اس وقت متصور ہو گا جب مجرم مجنی علیہ (جس پر تمہت لگائی گئی ہو) کو زنا کی تہمت لگائے یا اس کے نسب سے انکار کرے اور اپنے دعویٰ کو ثابت نہ کر سکتے۔ الزام زنا سے کبھی مجنی علیہ کے نسب کی نفی لازم آتی ہے اور بسا اوقات نہیں آتی۔

مثال کے طور پر کسی کو "طفل زنا" کہنا اس کے نسب کا انکار کرنا اور اس کی ماں پر تمہت زنا عائد کرنا ہے۔ لیکن کسی کو زانی کہنا صرف اس پر الزام زنا عائد کرنا ہے اور نفی نسب نہیں ہے۔

اگر قذف بغیر تہمت زنا اور بغیر نسب کے انکار کے ہو تو اس میں حد نہیں جیسے کفر، چوری، دہریت، مے نوشی، سود خوری یا امانت میں خیانت کا الزام لگانا وغیرہ۔ اس طرح کے جرم قذف پر تعزیری سزا دی جائے گی۔ نیز تہمت زنا اور انکار نسب کے جرم میں شرائط حدود پوری نہ ہونے کی صورت میں بھی تعزیری سزا ہو گی۔

دوسرا رکن: مقذوف کا محصن ہونا:

مقذوف ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ محصن مرد یا عورت ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۝

اور جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں۔ (سورۃ النور آیت 4)

نیز ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ

بےشک وہ جو عیب لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے (سورۃ النور آیت 23)

پہلی آیت میں احصان کے معنی ایک رائے کے مطابق زنا سے پاکبازی کے ہیں اور ایک رائے کے مطابق آزادی کے ہیں اور دوسری آیت میں احصان کے معنی آزادی کے ہیں۔ چنانچہ المحصنات کے معنی آزاد عورتیں، الغافلات کے معنی پاکباز عورتیں اور المؤمنات کے معنی مسلمان عورتیں ہیں۔

فقہاء نے مذکورہ بالا آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ اسلام، حریت اور عفت کا حامل اور زنا سے پاکباز شخص محصن ہے۔ غرض یہ کہ ازروئے شریعت ایک بالغ، عاقل، آزاد مسلمان اور زنا سے پاکباز شخص محصن متصور ہو گا۔

رکن سوم: قصد جنائی:

جب قاذف مجنی علیہ کو زنا کی تہمت لگائے یا اس کے نسب کا انکار کرے یہ جانتے ہوئے کہ اس کی یہ تہمت درست نہیں ہے تو قاذف کا مجرمانہ ارادہ موجود متصور کی جائے گا اور اگر قاذف اپنی تہمت کو ثابت نہ کر سکے تو یہ متصور ہو گا کہ وہ اپنی تہمت کو غیر درست سمجھتا تھا۔

اور یہ عدم ثبوت اس کے اس علم پر کہ یہ تہمت وغیرہ درست ہے ایسا قرینہ سمجھا جائے گا جس کے بالمقابل کوئی دلیل قبول نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ قاذف یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے صحت قذف کی رائے کچھ معقول اسباب کی بنیاد پر اختیار کی تھی بلکہ قاذف پر لازم ہے کہ مجنی علہ پر اتہام عائد کرنے سے قبل ہی اس اتہام کو ثابت کرنے والی دلیل اس کے پاس موجود ہو۔ (قوانین الحدود و تعزیرات)
 
Top