کہانی نمبر 14: ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈ کی تباہ کاری

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
عالیہ اپنی امی کے ساتھ مل کر فرش کی صفائی کر رہی تھی۔ سرفیس کلینر پانی میں شامل تھا اس لیےاس نے شدید گرمی کے موسم میں ہاتھوں پر دستانے اور چہرے پر ماسک چڑھا رکھا تھا۔ اتنے میں اس کی چچی ان کے گھر میں داخل ہوئی۔
چچی نے عالیہ سے سوال کیا :
"بچے عالیہ یہ تم نے اتنی گرمی میں یہ احتیاطی تدابیر کیوں کر رکھی ہیں؟"
عالیہ نے جواب دیا :
چچی جان وہ بات یہ ہے کہ اس فرش پر میں ایک کیمیکل ڈال کر صفائی کر رہی ہوں۔ اس کیمیکل کا نام ہے "ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈ"۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک کیمیکل ہوتا ہے۔ اگر جلد کے ساتھ کنٹیکٹ میں آ جائے تو فورا چھالے نکل آتے ہیں اور ساتھ ہی اگر یہ سانس کے ذریعے اندر چلی جائے تو پھر سانس کی نالی میں بھی چھالے نکل آتے ہیں اور پھر پیپ سے بھر جاتے ہیں اور پھر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے"۔عالیہ نے مزید کہا کہ اگر آپ اس سے بچنا چاہتی ہیں تو فورا کرسی کے اوپر کھڑی ہو جائیں اور اپنے دوپٹے کو پانی سے گیلا کر کے سر اور چہرے پر لپیٹ لیں"۔
اس کی چچی نے ایسے ہی کیا ۔ مگر جلد ہی وہ وہاں سے نکل کر اپنے گھر پہنچ گئيں۔
جب وہ گھر پہنچی تو تھوڑی ہی دیر بعد ان کے گھر سے چیخ و پکار کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئيں۔
جلدی سے ایمبولینس منگوائی گئی اور چچی کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ عالیہ کی چچی ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈنامی کیمیکل کی ضد میں آ گئیں تھیں اور اپنی زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑ رہی تھیں۔
ہسپتال ایمرجنسی میں پہنچایا گیا۔ پہلے تو ڈاکٹر ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈ کا سانس کے ذریعے اندر جانے کا کوئی علاج نہ کر سکے۔
چچی کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اور پھر آخر کار وہ بے ہوش ہو گئيں۔ ڈاکٹرز نے بڑی مشکل نے ان کی جان بچائی۔
ایک رات ہسپتال میں رہنے کے بعد وہ صحیح سلامت گھر پہنچ گئیں تھیں۔
اس کے بعد انھوں نے ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈ سے بہت احتیاط کی اور اب وہ ٹھیک ہیں۔




ویسے آپ کو پتا ہے ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈ کیمیکل کا ایک اور نام بھی ہے اور وہ ہے

پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فاطمہ زہرا

وفقہ اللہ
رکن
اس کیمیکل کا نام ہے "ڈائی ہائڈروجن مونو آکسائیڈ"۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک کیمیکل ہوتا ہے۔ اگر جلد کے ساتھ کنٹیکٹ میں آ جائے تو فورا چھالے نکل آتے ہیں اور ساتھ ہی اگر یہ سانس کے ذریعے اندر چلی جائے تو پھر سانس کی نالی میں بھی چھالے نکل آتے ہیں اور پھر پیپ سے بھر جاتے ہیں اور پھر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے
پانی سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
 
Top