میرا حرمین شریفین کا سفر

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میرا حرمین شریفین کا سفر
صادق مظاہری

کافی عرصے سے دل میں یہ امنگ تھی کہ ہمیں بھی حرمین شریفین کی زیارت اور روضہ اطہر پر حاضری نصیب ہوجائے اس لئے بارہا اس کے للئے رب تعالی کے سامنے دست دعا بھی اٹھائے ، بحمد اللہ رمضان کے مبارک ماہ کے آخری عشرے میں یہ شرف حاصل ہوا۔ دور دور تک یہ خیال نہیں تھا کہ یک دم بلاوا آجائے گا اور تین چار ایام میں ہی ویزا اور ٹکٹ وغیرہ کی تمام کاروائیاں مکمل کرکے باری تعالی کی تجلی گاہ میں حاضر ہوجاؤیں گے ۔
ہندوستان سے مکہ کا سفر
ہندوستان کے صوبہ یوپی میں موجود شہر سہارن پور سے ١٨ رمضان ١٤٤٤٣ ھ ١٩ اپریل ٢٠٢٢ کو کار کے ذریعے دلی ایئر پورٹ پہنچے ،احرام دلی ائیر پورٹ سے ہی باندھ لیا تھا اس لئے جہاز میں احرام کی حالت میں ہی بیٹھے،کچھ ہی وقفے کے بعد سعودی ائیر لائنس کے جہاز نے اڑان بھری اور سعودی کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔۔۔۔تقریباً ساڑھے تین گھنٹے میں جدہ پہنچ گئے ، وہاں ہمیں لینے کے لئے ہمارے دوست حاجی عبد العظیم صاحب مکہ سے تشریف لائے اور ٹیکسی کے ذریعے ہم مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔ہماری ٹیکسی سو ایک سو پچاس کی اسپیڈ سے سفر کو تیزی کے ساتھ سمیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی ، چونکہ ہمارا یہ پہلا سفر تھا اس لئے سب چیزیں نئی معلوم ہورہی تھیں ، ہم کبھی اِدھر دیکھتے اور کبھی اُدھر دیکھتے ۔۔۔۔۔دل میں یہ خیال باربار آتا تھا کہ رب تعالی نے اس ملک کو کیا خوش نصیبی بخشی ہے کہ محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ملک میں بعثت ہوئی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی چیزیں ذہن میں گردش کرنے لگتیں، راستے میں ایک مسجد میں صلاة عصر ادا کی،باہر دیکھا تو افطار کے لئے ایک دسترخوان لگا ہے جس پر کھجور وپانی کی بوتلیں رکھی ہیں،ہم نے عربوں کی مہمان نوازی کے بارے میں جو سن رکھا تھا اس کی کچھ جھلکیاں یہاں نظر آئیں ۔۔۔۔۔۔ افطار کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کو ٹیکسی کی رفتار بڑھانے کو کہاگیا ۔بہ ہر حال ہم ریتیلی زمین اور اس پر بڑے چھوٹے پتھریلے وریتیلے پہاڑوں کو تیزی کے ساتھ پیچھے چھوڑ تے ہوئے شاندار روڈ سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے یہاں تک کہ دور سے مکہ ٹاور دکھائی دیا ۔۔۔۔ دل مارے خوشی کے جھوم اٹھا مزید قریب گئے تو کچھ بلڈنگیں اور ان کے آس پاس کچھ پہاڑیاں نظر آئیں ، وہ نظارہ کچھ الگ ہی تھا ( جس کی منظر کشی مستقل عنوان کے تحت کی جائے گی) غرضیکہ جیسے جیسے مکہ کی طرف بڑھتے رہے ، بے تابی پہلے ہی تھی مزید بڑھتی چلی گئی بس اس حال کو کیا بیان کروں ۔۔۔۔ دل میں کبھی حضرت آمنہ کا خیال آتا تھا اور کبھی حضرت عبد اللہ کی یاد آتی تھی کبھی نبی پاک علیہ الصلاة والسلام کا وہ بچپن جو سیرت نگاروں نے بیان کیا ذہن میں گردش کرتا تھا ، کبھی عہد شباب یاد آتا تھا اور کبھی وہ تکلیفیں وپریشانیاں جو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار ومشرکین کی طرف سے پہنچائی گئیں تھیں ان کی طرف دل مائل ہوتا تھا اور لبوں پر یہ دعا جاری تھی اللھم اجعل لی بھا قراراً وارزقنی فیھا رزقاًحلالاً ۔ دل مارے خوشی کے پھولے نہ سمارہا تھا اور حاضری کی اس نعمت پر شکریہ ادا کر رہا تھا ورنہ ہم کہاں اور یہ باعزت وشرف والی ، اعلی بلند وبالا جگہ کہاں ۔۔۔۔ہماری کیا مجال کہ وہاں حاضر ہوجائیں ۔۔۔یہ تو میرے رب کا کرم تھا کہ یہاں پہنچا دیا ۔خیر ہمارا دل محبوب کی یاد میں عشق ومستی کے گلیاروں کا چکر لگاتے ہوئے کبھی کسی شاعر کا کلام یاد کرتا اور کبھی کسی شاعر کی نعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، در اصل طالب علمی کے زمانے میں جب ہم مظاہر علوم میں پڑھتے تھے تو ہم نے سیرت پر انجمن کے پروگراموں میں خوب تقریریں کیں ۔ علامہ ضیافاروقی ؒکی ’’ جواہرات فاروقی‘‘ نامی کتاب ( جو ان کے خطبات ہیں) ہم نے تقریباً پوری حفظ یاد کرلی تھی ان میں کئی تقریریں سیرت کے موضوع پے ہیں ان میں بہت سے اشعار ہیں وہ ہم نے رٹے تھے بعد میں پھر شاعروں کے اصل کلام بھی ہماری نظروں سے گزرے ۔۔۔۔۔۔ اورفراغت کے بعد سالانہ جلسوں اور مسجدوں کی دینی محفلوں میں سیرت پر بحمد اللہ خوب تقریریں کی ہیں تو ذہن میں کچھ چیزیں موجود ہونے کی وجہ سے تحریک پیدا ہوگئی اس لئے ہمیں ماہر القادری کا یہ کلام جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہے بہت پسند ہے ۔۔۔۔۔
وہ آئے جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی
وہ آئے جن کی آمد کے لئے بے چین فطرت تھی
وہ آئے نغمہ داد میں جن کا ترانہ تھا
وہ آئے گریہ یعقوب میں جن کا فسانہ تھا
وہ آئے جن کی خاطر مضطرب تھی وادی بطحی
وہ آئے جن کے قدموں کے لئے کعبہ ترستا تھا
وہ آئے جن کو حق نے گود کی خلوت میں پالا تھا
وہ آئے جن کے دم سے عرش اعظم پر اجالاتھا
یہ پورا کلام بار بار ذہن میں آرہا تھا اور دل کی کیفیت کچھ اس طرح تھی جیسے بہت زیادہ خوشی میں انسان زبان سے کچھ کہتا ہے اور آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں ،اسی طرح علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ کلام بھی:
ہو نہ یہ پھول تو کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
چمن دہر میں بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
ہو نہ یہ ساقی تو مئے بھی ہو نہ خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے
چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے
پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنالک ذکرک دیکھے
ایسے اور بھی اشعار ذہن میں گھوم رہے تھے جیسے شیخ الہند رحمة اللہ کے یہ اشعار :
اے جنت تجھ میں حوروقصور رہتے ہیں
میں نے مانا ضرور رہتے ہیں
میرے دل کاطواف کر جنت
میرے دل میں حضور رہتے ہیں
بس انہی خوابوں وخیالوں کی وادیوں سے گزرتے ہوئے اور مکہ کی ان پہاڑیوں کا نظارہ کرتے ہوئے جن پر کبھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پڑے ہونگے اپنے ہوٹل تک پہنچے جو مکہ ٹاور کے نیچے ہی تھا گاڑی میں لسی ( جس کو وہاں لبن کہا جاتا ہے ) سے روزہ افطار کیا اور وہاں سے قریب ہی حرم ہے اس لئے جلدی سے گاڑی سے اتر کر سامان ہوٹل میں رکھا اور مغرب کی نماز ادا کی ۔
مکة المکرمة میں :
مکہ کی حسین سڑکوں پر سے ہمارا گزر ہوا تو دل فرحت وشادمانی کے نغمے گارہا تھا کیونکہ جب انسان کو وہ چیز مل جائے جس کے لئے وہ سالوں سے تڑپ رہا ہو تو اس کے دل کی کیفیت کیا ہوتی ہے اس کے بارے میں وہی جانتا ہے جس کو وہ حاصل ہوئے ہو ،ہم نے دور سے مکہ کی عمارتیں دیکھنی شروع کیں بہت زیادہ بلند وبالا عمارتیں نہیں تھیں ہاں مناسب اونچائیوں والی عمارتیں ہیں لیکن دوچار عمارتوں کے چرچے تو نہ صرف مکہ بلکہ دنیا بھر میں ہیں ان میں پرانا ’’مکہ ٹاور‘‘اور نیا ’’مکہ ٹاور‘‘ ہے ،نیا مکہ ٹاور تو قابل دید ہے اس سے مکہ کی عمارتوں کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے ہیں ، جب ہم مکہ میں داخل ہورہے تھے تو دور سے ہی محسوس ہوا کہ ہم کسی وادی کی طرف بڑھ رہے ہیں چنانچہ جب ہم نے کچھ جغرافیہ نویس لوگوں کی تحریریں پڑھیں تو معلوم ہوا ۔۔۔کہ مکہ وادی فاران میں واقع ہے ۔۔۔جو سطح سمندر سے ٢٧٧ میٹر بلندی پر واقع ہے ۔بہ ہرحال یہ شہر اپنے آپ میں نشانی باری تعالی بھی ہے اور تاریخی مقام بھی نشانی باری تعالی اس معنی کر کہ رب ذوالجلال نے ایک ایسی جگہ کو جو پہاڑوں کے درمیان ، وادی میں موجود ہے جہاں ایک زمانے میں نہ پانی تھا نہ کھانے کا کوئی سامان ،نہ آدم نہ آدم زاد،نہ کوئی درخت تھا نہ کوئی پودا ، بس ایسی جگہ جہاں وحشت ہی وحشت ، دہشت ہی دہشت ، ہریالی یا اس کے جیسے کوئی چیز موجود نہیں ، وہاں پر اپنا تجلی گاہ بنایا اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت اسماعیل علیہ السلام اور ہاجرہ علیھا السلام کی قربانیوں کے ذریعے اس کے دیگر مقامات کو مقدس بنادیا اور زم زم کا ایسا چشمہ جاری کردیا جس کے ذریعے اس میں مزید جان پڑگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دنیا کے لئے ارض خدا پر سب سے زیادہ قیمتی تحفہ بنادیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو شفا بھی بنایا اور غذا بھی ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شہر کے مکرم ومحترم ہونے کا چرچا نہ صرف یہ کہ زمین پر بلکہ آسمانوں پر اس وقت کرایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میرے محبوب صلی اللہ علیہ کی آمد آمد ہوئے ۔۔۔۔۔۔ چرچا تھا محبوب کبریا کا ، چرچا تھا سرکار دوجہاں کا ، چرچا تھا سرورکونین کا ، چرچا تھا آمنہ کے لال کا ، چرچا تھا عبد اللہ کے لاڑلے کا ، چرچا تھا عبد المطلب کے پوتے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ساتھ میں نام اس شہر ومقام کا بلند ہورہا تھا جس میں اس کے آنے کی خوشیاں منائی جارہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہر طرف اس کی خوشی میں گیت گائے جارہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔چرند و پرند ، حیوان وجماد ، انسان وجن ، حورو ملک میں بس یہ ہی چرچا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ آیا ۔۔۔۔۔۔محبوب دوجہاں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا یہ شہر نصیبہ ور نہیں تھا ؟ کیا یہ خطہ دیگر زمینی خطوں کے مقابلے کچھ جدا مقام لے کر دنیا میں آباد نہیں ہوا تھا ؟ کیا اس خطہ میں ایسا کچھ الگ نہیں تھا جو دوسرے خطے میں موجود نہیں تھا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھا ۔۔۔۔۔۔ اسی لئے اللہ نے اس کو وہ مقام بلند عطا کیا کہ اس کا نام لوگ جب لیتے ہیں ۔۔۔۔۔تو ” مکة المکرمة “ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بظاہر یہاں ریتیلے اور پتھریلے پہاڑ ہیں ، ہرا گھاس اور ہریالی نہیں ہے ۔۔۔۔ ایک ہے زمین کی ہریالی اور ایک ہے اس پر آباد انسانوں کی ہریالی ۔۔۔۔۔۔اور اس کا تعلق انسانیت سے ہے جب زمین ہری بھری ہو اور اس میں وہ انسان رہتا ہو جس میں انسانیت نہ ہو ، ایمان نہ ہو ، توحید نہ ہو ، رب کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا شعور نہ ہو تو ایسی ہریالی میں انسان نما درندے بستے ہیں اور جب چٹیل میدان ہو ، بیابان جنگل ہو ، کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ ہو لیکن اس میں ایسے انسان رہتا ہو جس میں ایمان وایقان ہو ، رب کی بندگی واطاعت ہو ، حق تعالی کی وفاداری ووفاشعاری ہو تو پھر وہیں سے سچائی واچھائی کی وہ ہوائیں چلتی ہیں جن سے دنیا کو نور ملتا ہے ، روشنی ملتی ہے ، راہ حق نصیب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔اس چیز کا اندازہ مکہ مکرمہ کی تاریخ سے آسانی سے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک ایسے غیر آباد ، بے آب وگل والے زمین کے ٹکڑے کو اس قدر مکرم ومحترم بنادینے والی ذات کون ہے ؟ جس کی محبت دل میں بٹھادی گئی ، دنیا اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہے ۔۔جواب ہوگا ۔۔اللہ ۔۔۔ بس اللہ کی عظمت وبڑائی کو پہچاننے کے لئے یہ ہی کافی ہے ۔ دوسرے یہ کہ تاریخی یہ مقام ہے کیونکہ یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیھا السلام کی یادوں کے علاوہ رب کعبہ کی تجلی گاہ ( خانہ کعبہ ) بھی موجود ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے وہاں موجود ہے بعض علما نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ دنیا کے آباد ہونے سے پہلے جب دنیا میں پانی ہی پانی تھا اس وقت بھی خانہ کعبہ کی جگہ پر کچھ نشانات ہوا کرتے تھے جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی خاص مقام ہے ۔ پھر یہ کیا کچھ کم تاریخی جگہ ہے کہ اس شہر میں وہ نبی علیہ الصلاة والسلام تشریف لائے جن کے صدقے میں کائنات کو بنایا گیا اور بسایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔اور یہاں پر وہ غار موجود ہے جہاں سے قرآن مقدس کے نزول کا آغاز ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب چیزوں کو ذہن میں بٹھائے ہوئے ہم مکے کی سڑکوں ، گلیوں وگلیاروں کا نظارہ بھی کرتے رہے اور وہاں کی پر نور فضا کا لطف بھی اٹھاتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم مکہ کی حسین راہوں ، اونچی پہاڑیوں ، خوبصورت عمارتوں ، صاف ستھری سڑکوں اور اس پر چاند کی طرح چمکتے حرم ، خانہ کعبہ کی نورانی وروحانی فضا کو اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ جیسے کوئی حسن وجمال کا پیکر انسان ہو اور اس کی ہر ادا میں نزاکت ہو ، رنگت صاف وستھری ہو ، اس کے یہاں ہر چیز ادب وسلیقہ ، شستہ وشائستہ انداز میں موجود ہو ، بے ادبوں کا اس کے یہاں کوئی کام نہ ہو ، اس کے چہرہ پر نور ہو ، پیشانی بھی نورانیت سے چمک رہی ہو ، دل بھی روحانی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرضیکہ اللہ نے اس کو ظاہری وباطنی بے شمار خوبیوں سے نوازا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ جو اس کو دیکھ لے باربار دیکھنا چاہے ، جو اس سے بات کرلے باربار بات کرنے کی تمنا کرے ، جو اس کے کرشموں وکرامتوں کا نظارہ کرلے وہ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مختصر یہ کہ لوگ اس کے حسن سے مرعوب ، باتوں سے متأثر ، انداز رفتار وگفتار سے شاد ، کردار واخلاق سے خوش ہوتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب دیکھیں مکہ کا حال کچھ ایسا ہی نہیں ہے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ دل پر چھاپ چھوڑنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا حسن وجمال یہ ہے ترتیب سے بنی بلڈنگیں ، سلیقے سے روڈوں وسڑکوں پر دوڈتی گاڑیاں ۔۔۔۔۔۔ٹریفک پولیس اتنی سخت کہ ٹریفک قانون کو توڑنے کی بالکل اجازت نہ دے ۔۔۔اس سے اس کا حسن دوبالا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔پھر پہاڑیاں جن کا منظر اس کو کچھ جدا ہی کردیتا ہے شام میں کچھ اور ہی اچھا لگتا ہے ، پھر اس کا نورانی چہرہ حرم ہے اور خانہ کعبہ نورانیت سے پر نور پیشانی ہے جس کی وجہ۔سے اس کے آس پاس بھی نورانی فضا کا ماحول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے اس میں کچھا ہے جو نہیں آیا وہ آنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔باربار آنے کی خواہش رکھتا ہے یہ اس کا کمال وخوبی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں حاجی ومعتمر خود بہت سی کرامتوں وکرشموں کا نظارہ کرتا ہے اور بہت سے واقعات وقصے لوگوں سے بتاتا وسناتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا دل روحانی ہے کیونکہ وہاں پر کلام اللہ نازل ہوا ۔
حرم میں
ہم اپنے ہوٹل کے کمرے سے سب سے پہلے عمرہ کرنے کے لئے حرم کی طرف بڑھے تو دل میں ایک عجیب کیفیت تھی جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا وجہ یہ ہے کہ ہم ہیں ہی اتنے گناہ گار ۔۔۔۔۔باری تعالی نے بے شمار انعامات سے نوازا ہے پھر بھی اپنے اعمال وفعال سے اس کی ناشکری کرتے رہتے ہیں اس لئے اپنے جرموں پر نادم ، معاصی ومعائب پر شرمندگی کا احساس دل میں لئے ہوئے حرم کی طرف چلے جارہے تھے یہاں تک کہ حرم کے صحن میں پہنچ گئے ، یہاں ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ خانہ کعبہ کے سامنے کیسے جائیں تاکہ نظر پڑے تو دل سے دعائیں نکلیں ، اپنے لئے بھی کچھ رب سے مانگا جائے اور دوسروں کے لئے بھی کچھ فریاد کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ساتھ حاجی عبد العظیم صاحب تھے انھوں نے کہا کہ آپ اس گیٹ سے داخل ہوجائیں سامنے خانہ کعبہ ہے ، عمرہ کرکے آجائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے نظریں جھکائیں ، حال یہ تھا کہ دل کہہ رہا تھا کہ دیکھ اس تجلی گاہ کو جس پر تجلیات باری تعالی کا نزول ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن دوسری طرف یہ بھی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دیکھوں اور درمیان میں کچھ حائل ہوجائے اور مزا پھیکا پڑجائے ۔۔۔۔۔۔۔لہذا کچھ قدم چلا تو دل خوش بھی تھا اور شرمندہ بھی ۔۔۔۔۔۔خوش اس معنی کر کہ وہ دن بھی آیا کہ اللہ نے یہاں پہنچا دیا اور شرمندہ اس لئے کہ ہم گناہ گاروں کے ایسے اعمال کہاں کہ اس مقدس مقام کی زیارت نصیب ہو یہ تو میرے رب کا کرم تھا اس کی زیارت نصیب ہورہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور اس حالت میں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے دل نکل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے جو نظر اٹھائے تو سامنے خانہ کعبہ تھا ، ہمیں محسوس ہوا جیسے انوارات وبرکات کی بارش ہورہی ہو ، پھر مغرب کا بعد تھا بس مت پوچھیئے کہ کیا سماں تھا ، اس کو ہم ایسے بھی بیان کرسکتے ہیں کہ جیسے ایک حسینہ وجمیلہ عورت ہو اس کو دلہن بنایا گیا ہو ، خاص قسم کے پھول بوٹے وہ بھی سونے کے سنہرے سنہرے اس کے لباس پر بنائے گئےہوں ، اس کا سنگار اس انداز سے کیا گیا ہو کہ وہ حسینہ تو پہلے ہی تھی مزید حسین ہوگئ ہو پھر اس کو مختلف قسم کی لائٹوں وقمقموں میں بٹھادیا گیا ہو جس سے اس کا حسن اور چمک اٹھا ہو اور اس کے پوشاک کی جھلملاہٹ میں اضافہ ہوگیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا ہی کچھ خانہ کعبہ کا حال تھا کہ حرم ہر طرف سے چمک رہا تھا اس کی لائٹوں نے اس کے حسن کو بڑھادیا پھر اس پر جگہ جگہ پر سنہری سنہری رنگ کی پٹیاں اور کمال کا رنگ وروغن جس کو انسان کی نظر باربار دیکھنے سے بھی نہ اکتاہٹ ، اور درمیان میں خانہ کعبہ ، اس پر کالا غلاف ، بس سنہری سنہری روشنی کے درمیان خانہ کعبہ کا حسن غضب ڈھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو اس کو دیکھے تو دل ہی نہیں بھرتا ، ایسا ہو بھی کیوں نہ ؟ جب کہ وہاں میرے پروردگار کی تجلیاں نازل ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس حسین ماحول کے درمیان ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھے ، دیکھا کہ یہاں مختلف رنگ ونسل کے چہرے ہیں ۔۔۔۔۔۔ایسا لگا جیسے یہاں دنیا بھر کے لوگ سمٹ آئے ہوں اور ایک چھوٹی سی دنیا بس گئی ہو ، ہر جگہ کی انسانی شکل کا سیمپل یہاں موجود ہو ، سیاہ و سفید ، سانولے وگورے ، عربی وعجمی ، یوروپین وایشین سب طرح کے انسان یہاں جمع تھے ایک مطاف میں سب جمع ، سب ایک ہی کعبے کا طواف کررہے ہیں سب کا لقب ایک ، سب کا کلمہ ایک ، سب کا مشن ایک ( ہمارے خیال میں اس سے بہتر انسانی مساوات کا درس نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں سب برابر ہیں اونچ نیچ کا فرق ختم ، کالے گورے کا جھگڑا مٹ گیا ) ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی اپنی زبانوں میں کوئی رو رو کر اللہ سے فریاد کررہا ہے ، کوئی طواف میں مشغول ہے ، کوئی خانہ کعبہ کو عشق بھری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ، کوئی نماز پڑھ رہا ہے ، گویا سب اپنے اپنے کاموں سے اللہ کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس مقام پر انسان کے دل میں صرف یہ ہی خیال آتا ہے اس سے اچھی جگہ دنیا میں اور کہاں ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہ ہر حال ہم نے بھی دعائیں مانگنا شروع کیں ، آنسو بھی آئیں ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ مطاف میں پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔۔مطاف میں ۔۔۔۔۔خانہ کعبہ کا طواف شروع کیا ، طواف کر رہا تھا اور دل میں سوچ رہا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب جاہلیت عروج پر تھی اور ہر طرف کفر وشرک کی آندھیاں چل رہی تھیں ، ضلالت وگمراہی عام تھی اس وقت یہاں پر شرک وبت پرستی داخل ہوگئی تھی اور خانہ کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب کہ یہ بت خانہ نہیں بیت اللہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن بیت اللہ کا یہ بھی کمال رہا ہے کہ ایسے حالات میں بھی اس کی تمام عرب عزت کرتے تھے ، بت پرستی کے بے پناہ شوق ، لامحدود عقیدت وگرویدگی کے باوجود اس کے احترام سے ان کے دل ودماغ کبھی خالی نہیں ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے ایک بار جب مکہ میں زور دار سیلاب آیا اور گلیوں وگلیاروں ، سڑکوں وراستوں میں پانی بہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے مکان گرگئے، خانہ کعبہ بھی سیلاب کی اسی زد میں آگیا ، دیواریں گرپڑیں ، حجر اسود بھی اپنی جگہ سے زمین پر گرگیا اہل مکہ نے سب سے پہلے اپنے مکانوں وٹھکانوں کو درست کرنے کے بجائے مکہ کی تعمیر کو مقدم سمجھا ، تمام لوگوں نے اس میں جوش عقیدت ودلچسپی سے حصہ لیا ۔۔۔۔۔۔۔میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قریش کے ساتھ پتھر لانے میں حصہ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر جب مکہ فتح ہوا اور خانہ کعبہ میں رکھے بتوں کو توڑ دیا گیا اور وہاں سے ایمان وایقان کی باد بہاری چلی ۔۔۔۔۔۔تو اس کا اثر یہ ہوا کہ عہد رسالت سے لے کر آج تک اہل ایمان اس کا طواف کرتے چلے آرہے ہیں بحمد الہ جس کا شرف ہمیں بھی حاصل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح ہمارے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ جب صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین طواف کررہے تھے اور کفار پہاڑ پر بیٹھ کر مذاق اڑارہے تھے تو ان کو دیکھ کر نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا تھا کہ رمل کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی بہت سی چیزوں نے ذہن کو گھیر رکھا تھا ، دوسری طرف مطاف کا دلکش منظر اور کعبہ کا حسن ، پرنور وپر رونق فضا اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ کچھ سوچا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں دل نے یہ کہا کہ بس رب تعالی کو حاضر وناظر سمجھ کر طواف مکمل کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چناں چہ ہم نے طواف کیا اور پھر سعی بین الصفا والمروة کے لئے روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفا ومروہ پر
ہم سعی کے لئے مسعیٰ پہنچے ،صفا ومروہ پر مخصوص انداز میں سات چکر لگانے کو سعی کہا جاتا ہے،ایک زمانے میں دوپہاڑیاں تھیں جو نظر آتی تھیں اب ان کی ایک لمبے ہال کی شکل بنادی گئی ہے لیکن ہال کے دونوں سروں پر اونچائی ہے جو در اصل صفا ومروہ کی چوٹی ہے اس لئے وہاں پر بطور نشان کے کچھ پہاڑی شکل باقی بھی ہے اور اس کو ایسے بنایا گیا ہے جیسے یہاں پر پہاڑی موجود ہے جب انسان اس کے پاس پہنچتا ہے تو اس کو لگتا ہے کہ میں پہاڑی پر کھڑا ہوں یہ سعی در اصل حضرت ہاجرہ علیھا السلام کی سنت ہے جو اللہ کو اتنی پسند آئی کہ قیامت تک آنے والی حاجیوں وعمرہ کرنے والوں کے لئے ضروری قرار دے دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعہ یہ تھا کہ جب اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ اپنے ننھے سے بچے اسماعیل اور بیوی حضرت ہاجرہ علیھا السلام کو اس بے آب وگیاہ ( جو اس وقت پہاڑیوں کے درمیان دہشت ناک جنگل تھا ) زمین پر چھوڑ کر چلے جائیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ حکم نامہ حضرت ہاجرہ علیھا السلام کو سنایا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرے رب کریم کا حکم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر دونوں نے لبیک کہا تھا اور بلاچون وچرا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بچے اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئےتھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جگہ حضرت ہاجرہ علیھا السلام اپنے بچے کو لئے یہاں رہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اس معصوم بچے کو پیاس لگی ۔۔۔۔ چھوٹے بچے کو جب بھوک وپیاس کی شدت تڑپاتی ہے تو وہ روتا ہے اسی طرح یہ اسماعیل علیہ السلام بھی رونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ماں کی ممتا سے رہا نہ گیا ، پانی تلاش کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔۔دور دور تک نظر ماری ، کہیں کوئی چشمہ یا پانی کا کنواں نظر نہ آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر کے بعد جہاں زم زم کنواں ہے وہاں سے صفا ومروہ پر پہنچی جو وہاں پر اونچی جگہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ اس اونچائی سے کوئی پانی کا چشمہ یا پانی والا دکھائی دے اور اس سے پانی لا کر فوراً اپنے جگرکے ٹکڑے کے منہ میں ڈا لدوں ۔۔۔۔۔وہ جو پیاس کی وجہ سے بلک رہا ہے رونا بند کردے اور اس کی پیاس بجھ جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لئے حضرت ہاجرہ علیھا السلام کبھی صفا کی طرف دوڑتی مروہ کی چوٹی پر آکر رکتی اور ہر طرف نظر دوڑاتی کہ کہیں پانی نظر آجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے ہی مروہ کی طرف دوڑتی اور چوٹی پر آکر رکتی ۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے بھی پانی کے لئےاپنی للچائےآنکھوں سے پانی تلاش کرتی ۔۔۔۔۔۔۔صفا ومروہ کے درمیان جو ڈھال ہے اس میں تیزی سے چلتی ( جہاں حضرت ہاجرہ علیھا السلام تیزی سے دوڑی تھی اتنی جگہ میں اب ہال کی چھت پر گرین لائٹ لگادی گئی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں حضرت ہاجرہ علیھا السلام نے اپنی چلنے کی رفتار تیز کرلیا کرتی تھی ) اس طرح کے جو دوڑنے کے قریب قریب ہو کیونکہ نیچے ہونے کی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نظر نہ آتے تھے پھر اس اجنبی و بیابان جگہ میں یہ بھی خطرہ تھا کہ کوئی درندہ بچے کو نہ اٹھاکر لے جائے جب اس آزمائش میں حضرت ہاجرہ علیھا السلام کھری اتر گئی ۔۔۔۔۔۔۔اور یہ ساری قربانیاں اللہ دیکھ رہا تھا تو اللہ کو رحم آیا اور پیار بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ نے کہا کہ اب ہم ایک ایسا چشمہ جاری کریں گے جس کے پانی کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ہوگی ( اور بعض علما کے مطابق تو یہاں تک ہے کہ یہ زم زم جنت کے پانی سے بھی افضل ہے کیونکہ جب نبی علیہ الصلاة والسلام کا شق صدر ہوا اور قلب اطہر دھویا گیا زمزم سے دھویا گیا تھا باقی سب چیزیں ( طشت اور سینہ چاک کرنے کے لئے اوزار وغیرہ ) جنت سے لائے گئے تھے لیکن دھونے کے لئے پانی زمزم تھا اس سے معلوم ہوا کہ زمزم جنت کے پانیوں سے بھی افضل ہے ورنہ پانی بھی جنت کا لایا جاتا ) ۔۔۔۔۔آج ہزاروں سال بعد بھی وہ چشمہ ویسے ہی جاری ہے اور بے شمار عقیدت مند اہل اسلام اس کو پیتے بھی ہیں اور لے کر بھی آتے ہیں لیکن یہ نہ کبھی خالی ہوا اور نہ یہ شکایت آئی کہ اس میں پانی کم پڑگیا ۔۔۔۔۔۔۔یہ چشمہ وہاں جاری ہوا تھا جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیر کی ایڈیاں لگ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔جب بچہ بہت چھوٹا ہو وہ رو رہا ہو تو وہ روتے روتے اپنے ہاتھ پیر ہلاتا ہے اور اس کی پیروں کی ایڑیاں اگر وہ زمین پر لیٹا ہو زمین پر لگتی ہیں اسی طرح اسماعیل علیہ السلام کا حال تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے چشمہ جاری ہوا اور پانی نکلنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اس وقت کہا گیا تھا زم زم۔۔۔۔ یعنی رک جا ۔۔۔۔۔اسی سے اس کے نام ۔۔۔زم زم ۔۔۔۔سے مشہور ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو حضرت ہاجرہ علیھا السلام کی اس ادا کی یاد میں سعی بین الصفا والمروة کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کو قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان الصفا والمروة من شعائر اللہ فمن حج البیت اوعتمر فلاجناح علیھما ان یطوف بھما ومن تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم ۔ بحمد اللہ ہمیں بھی سعی کا شرف حاصل ہوا ۔۔۔جب ہم سعی کر رہے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت اسماعیل السلام اور حضرت ہاجرہ علیھا السلام کے متعلق جو پڑھ رکھا تھا اور سن رکھا تھا خوب یاد آیا اور دل میں یہ بھی خیال آیا ۔۔۔۔۔۔۔کہ یہ کیسے لوگ ہوں گے کہ اللہ کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے اور ہر طرح سے اللہ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے اللہ نے ان کی ہر ادا کو محفوظ کرکے لوگوں کو اسی طرح کرنے کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ قربانی پیش کرنے کا طریقہ آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی جوش وجذبے کے ساتھ ہم نے بھی یہ رکن ادا کیا ۔۔۔۔۔۔۔ایک نکتہ جو میرے ذہن میں لکھتے لکھتے آیا وہ یہ ہے کہ اللہ کو اس زمین کو مقدس بنانا تھا اور یہ سب تیاریاں ابتدائے آفرینش سے نبی علیہ الصلاة والسلام کے لئے ہورہی تھیں ۔۔۔۔۔ اس لئے اس مقام کو پہلے ہی اتنا مقدس ومحترم بنادیا تھا کہ جو قومیں بھی دین حنیف کا دعوی کرتی تھیں خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ ، عرب میں بسنے والے مشرک ہوں یا کفار سب اس کو مکرم ومحترم سمجھتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ سب حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیھما السلام اور حضرت ہاجرہ علیھا کی قربانیوں کی وجہ سے قابل احترام سمجھتے تھے ۔۔۔۔۔۔جب کہ ان کی قربانیوں کو بھی اس قدر محترم اس لئے بنایا گیا تھا کہ اس سرزمین پر میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو آنا تھا۔
حلاق کی دکان پر
سعی سے فراغت کے بعد ہم حلاق کی دکان پر پہنچے چوں کہ عمرے کا ایک رکن سر کا حلق یا قصر کرانا بھی ہے ان دونوں میں بھی حلق افضل ہے اس لئے ہم حلق کرانے حلاق کے یہاں پہنچے اور حلق کرایا ، زندگی میں ایک بار جب ہم چھوٹے تھے اس وقت استاذ نے مدرسے میں حلق کرایا تھا یا پھر عمرے پے حلق کرایا ہمیں اپنے بالوں سے بہت محبت تھی ، غسل کرتے وقت ان میں شیمپو کرنا ، سنوارنا اور پھر ہر طرح سے ان کا خیال رکھنا ہمارا مزاج بن چکا تھا ویسے بھی بالوں کے بارے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ بال خوبصورتی کی علامت ہیں ان کو رکھنا منڈوانے سے بہتر ہے اسی لئے نبی علیہ الصلاة والسلام سے وفرہ ، لمہ ، جمہ تین طرح کے بال عام زندگی میں ثابت ہیں ۔۔۔۔۔حضور اکرم علیہ السلام بھی اپنے بالوں کی بڑی دیکھ بھال کرتے تھے اسی لئے شمائل میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تیل میں تر رہتے تھے ان کی وجہ سے وہ کپڑا جو پیچھے گردن پر لگا کے رکھتے وہ بھی تر رہتا تھا ۔سر کے بال رکھنے کے سلسلے میں بعض فقہا نے تو سر منڈوانے کو مکروہ قرار دیا ہے وجہ بیان کی کہ خوارج کی علامت ہے اور ہم نے شاید کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ سرمنڈانا مثلہ میں داخل ہے ( یعنی ایسے جیسے انسان کے جسم کا کوئی عضو کاٹ دیا گیا ہو اس کے بغیر انسان کا جسم نامکمل ، بد صورت ، ادھورا محسوس ہوتا ہے جو یقیناً عیب ہے ) محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ اور امام نوویؒ وغیرہ نے فرمایا ہے کہ اگر بال کی اچھی طرح دھونے اور تیل وغیرہ کے ذریعے خیال رکھا جاسکتا ہو تو رکھنا افضل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اکثر علما فرماتے ہیں منڈوانا افضل ہے ۔ہم محدث دہلویؒ و امام نوویؒ اور ان لوگوں کی بات پر عمل کرتے ہیں جو بال کی حفاظت کے ساتھ رکھنے کو افضل قرار دیتے ہیں رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حلق کرانے والا عمل وہ ان لوگوں کے لئے دلیل بنے گا جن کے بال زیادہ گھنے ہوں یا پھر کوئی پراگندہ بال رکھتا ہو ان کی صفائی وستھرائی کا خیال نہ رکھتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب عمرے کا رکن حلق یا قصر ہے اور حلق افضل ہے اسی کے لئے زیادہ فضائل احادیث شریفہ میں بیان بھی کئے گئے ہیں لہٰذا ہم نے بھی حلق کرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے سوچا کہ جب کسی چیز سے انسان محبت کرتا ہے اور پھر اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردے تو اس کا ثواب زیادہ ملتا ہے پھر یہ سارے مقدس مقامات جن کی زیارات ہم یہاں کر رہے ہیں سب ہمیں قربانیوں کا ہی درس دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو اپنے پیارے بالوں کا حج کے موقعے پر حلق کرایا پھر ہم کیوں نہ کرائیں ؟ ہمارے جسم وجان کی کوئی چیز ان سے افضل کیسے ہوسکتی ہے ؟ ہماری کوئی قربانی ان سے بڑھ کر کیسے ہوسکتی ہے ؟ ہمارا کوئی نیت ان سے اچھی کیسے ہوسکتی ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے ہم نے بھی یہ سوچا کہ ہوسکتا ہے اللہ کو ہمارا یہ ہی عمل پسند آجائے ورنہ ہر ہمارے اعمال کہاں ایسے کہ ان کو قبول کیاجائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کمزور،ہمارے اعمال کمزور، ارادے کمزور،نیت کمزور ،ذرا سی قربانی کا وقت آیا چھوڑکر چل دیتے ہیں ،اس سے یہ سبق ملا کہ اللہ کی راہ میں جان ، مال اس کے علاوہ جیسی بھی قربانی مانگی جائے،دینی چاہئے اور ہر مسلمان کو اس کے لئے تیار رہنا چاہئے ، اس سے دل چرانا ، بھاگنا اللہ کے دئے ہوئے انعاموں کی ناقدری ہے ۔ ہمارے ذہن میں حلق کراتے ہوئے جہاں دوسری کچھ چیزیزیں گردش کر رہی تھیں وہیں پر یہ بھی تھی کہ جب اتنی معمولی سی چیز ( جو کچھ دنوں کے بعد دوبارہ اگ آئیں گے ) کی قربانی سے ہمارے دل پر اتنا اثر پڑا ۔۔۔۔۔۔تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے رب کے لئے کیسی جانثاری ہوگی کہ اللہ کا حکم ہوا اور حکم کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی قربانی دینے کے لئے گردن پر چھری چلادی ۔اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرنے کے لئےخود کو حاضر کردیا ۔۔۔۔۔۔ایسی قربانیاں ایک نبی ہی دے سکتا ہے ۔یہاں باپ بھی نبی ویسے ہی بیٹا بھی بننے والا نبی ۔اس لئے ان کے قلوب میں نیک جذبات ، صالح خیالات ، پاکیزہ افکار ان کے اندر رگوں میں خون کی طرح دوڑتے تھے اور حکم ربی ہوتے ہی فوراً سرخم تسلیم کرلیتے تھے بہ ہر حال انہی خیالوں وجذبوں کو دل میں لئے ہوئےتقریباً رات کے ایک بجے ہم اپنے ہوٹل کے کمرے پر پہنچ گئے ۔
حرم میں جمعہ کی نماز
ہم جمعہ کی نماز سے کافی دیر پہلے حرم میں پہنچے ، کیا خوب ماحول تھا ، ہر طرف عطر وخوشبو کی مہک ، لوگوں نے زیادہ تر سفید کپڑے پہنے ہوئے ، لوگوں کی بڑی تعداد قرآن پاک پڑھ رہی تھی،کوئی نماز میں مشغول تھا ، کوئی ذکر الہٰی کر رہا تھا ۔۔۔۔یہاں سکون تھا ، سب اپنے اپنے طور پر عبادت وریاضت میں مشغول تھے ، دنیا کے جھمیلوں وجنجالوں سے نکل کر اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے میں لگے تھے ۔ظاہر ہے اب اس میں اولیا بھی ہوں گے ، اتقیا بھی ہوں گے ، صلحا وصدیقین بھی ہوں گے ۔ حرم ہے ہی پرنور وپر رونق ، اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ لیکن ان بندگان خدا کی حاضری سے مزید نورانی ہوجاتا ہے ۔ہم نے عربوں کو تو اکثر دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھے قرآن ہی پڑھتے رہتے ہیں ،تسبیح اکا دکا کسی کے ہاتھ میں دیکھی ہو تو یاد نہیں ۔۔۔۔۔۔پھر وہ قرآن پاک بھی عربی لہجے ، تجوید وقرآت کی رعایت کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے یہاں اکثر حفاظ کی طرف سے جیسے قرآن پاک کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ( تجوید وقرآت کی رعایت نہ اچھا انداز ولب ولہجہ ۔ الفاظ چباجاتے ہیں ، حروف کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔جس سے معانی تک بدل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ایسے قرآن پاک کی تلاوت کرنا اس کی ناقدری وبے ادبی ہے ) اس سے تو ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر کچھ دیر کے بعد اذان ہوئی پھر خطبہ کا وقت ہوگیا اور پھر نماز ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہمارے لئے بڑے قیمتی لمحات تھے ۔۔۔رمضان کا مہینہ اور پھر جمعے کا دن ، حرم میں نماز جمعہ کی توفیق ہورہی تھی ۔(جاری)
 
Top