میری نظرمیں: ”یہ تھے اکابرمظاہر “

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میری نظرمیں:
”یہ تھے اکابرمظاہر “
مولانامحمدمشیرمظاہری سہارنپوری
حضرات انبیاءکرام علیہم السلام کےبعد چشم فلک نے انسانی جسم و جاں کیساتھ اگر کسی مقدس گروہ وجماعت کا بچشم خود کا مشاہدہ کیا ہے تو وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بابرکت جماعت تھی، جنہوں نے بحالت ایمانی رب العالمین کے سب سے چہیتے ولاڈلے حبیب، احمدمرسل ختم رسل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بچشم خود دیکھا ہے، آپ کی صحبت صالح سے مستفید ہوتے رہے، اس طور پر کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اگر کوئی ذات محبوب تھی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی، آپ کی تعلیمات پر بایں طور عمل پیرا ہوئے کہ اپنے اخلاق واعمال اور احکام الٰہی و تعلیماتِ رسول پر محافظت کے ذریعے پورے عالم کو روشن ومنور کردیا۔
حضراتِ صحابہ کرام نے رسول اللہ کی حیات طیبہ میں نمونہ تلاش کیا تو دنیا ومافیہا میں سرخروئی ان کا مقدر ٹھہری، اب جو بھی اس نسخہ کیمیا پر عمل پیرا ہوکر بابرکت وباعظمت جماعت کی قدم بوسی کرےگا تو وہ ہی دونوں جہاں کی پونجی حاصل کرلے گا۔
عادت اللہ یہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے دین فطرت سے انحراف کرتی، ظلم وستم کو حرزجاں بناتی ہے تووہ قوم کی رہنمائی کے لیے ان ہی میں کے چنندہ افراد کو ان کی اصلاح وتربیت کےلیے پیدا فرماتارہتاہے اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، جو دین میں ہورہے بگاڑ وخرافات،بدعات ورسومات کو درست کرتے اور دین حق کی درست رہنمائی کرتے،حال آں کہ دین اسلام کی صحیح تعبیر وتشریح پیش کرتے ہیں۔
ماضی قریب وبعید میں اِسی "مقدس گروہ" کے نام لیوا انکے ایک ایک عمل کو اپنے لیے حرزجاں بنانے والے،انکی عظمت وتقدس پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے؛ جو قرن اول کی یاد تازہ کرنے والے اور زاویہ خمول و گمنامی میں زندگی بسرکرنےوالے؛درانحالیکہ وہ علم وتقدس، تقویٰ وطہارت سے مالا مال، سادگی وقناعت انکا اوڑھنا بچھونا، شرافت ومروت، تواضع وفروتنی انکی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔
جی ہاں! ایک ایسی مبارک متبرک جماعت جنہوں نے اس دنیا میں سانس لیا تو مگر اپنے زندہ رہنے کےلیے نہیں؛ بلکہ رب العزت کی مخلوق کی صلاح وفلاح، تعلیم وتربیت، اصلاح وتربیت کرنے اور تعلیماتِ اسلام کی جانب بلانے کے لیے اس حال میں کہ ان کے دل کی طمانیت، روح کی نظافت بھی ہو ؛ ان کا مقصد یہی تھا کہ مخلوق خدا، خالق کے سامنے ہی سجدہ ریز ہو اسی سے ہی اپنی ہر ایک مراد مانگے، وہی انکا ماوی وملجا ہو، ا ن کی یہی کوشش رہتی تھی کہ مخلوق خدا میں خوش اخلاقی، خوش کلامی، خوش فکری، خوش عقیدگی پیدا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ آج سینکڑوں سال گذر نے کے بعد ان کی یادیں ،انکی باتیں، انکی عادات واخلاق ان کے ایمان افروز واقعات ذہن ودماغ میں ایسے ہی ترو تازہ ہیں گویاکہ وہ ہمارے سامنے چل پھر رہے ہیں، محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کو گزرے ہوئے ایک نہیں کئی سال بیت چکے ہیں۔
مدت مدید سے ہی کسی ایسی کتاب کا متلاشی تھا، جس میں علماءواکابرِمظاہر کے وہ تمام واقعات و مشاہدات اور تجربات ہوں، جن کوہم عرصہ دراز سے سنتے آرہے تھے؛ مظاہر علوم میں داخلے لیتے ہی ہم جولیوں کی زبان سے جن اکابر مظاہر کے تقویٰ ورع، خلوص وللہیت، فنا فی اللہ، سادگی وقناعت، عنداللہ مقبولیت ومحبوبیت، مضامینِ قرآنی واحادیث پر تدبر، عقیدہ توحید میں تصلب اور سلوک وتصوف، بیعت وارشاد، دل کی طمانیت، روح کی نظافت کے دلچسپ واقعات روز بہ روز سنا کرتے تھے،اور کبھی کبھی جب اساتذہ کرام دورانِ درس ان زاویہ خمول اور گمنامی میں زیستِ فانی کو بسرکرنے والے اکابرمظاہر کے دلدوز ودل سوز واقعات کان بگوش کرتے تو آنکھیں اشکبار ہوجاتیںاور ان کی سادگی ومعصومیت، حزم و احتیاط، دانش وبینش، تقویٰ وتدین،بصیرت وفراست شرافت ومروت کو جان کر ازحد مسرت ہوتی اور ایک شوق وجذبہ سا پیدا ہوتاکہ یہ اکابر بھی تو اسی مادرعلمی کے خوشہ چیں ہیں،اسی دریا سے تو وہ موجیں اٹھی ہیں، جنہوں نے چہار دانگ عالم میں عابد وزاہد، صابروقانع، عاشق قرآن؛ خادم اسلام، محافظ شریعت کا نمونہ بن کر عنداللہ وعندالناس قبولیت کا پروانہ حاصل کیاہے، وہ جب اللہ کے ہوئے تو ساری کائنات ان کی ہوگئی، وہ دنیا اور حب جاہ سے کوسوں دور بھاگتے تو دنیا ان کےلیے سمٹ وچمٹ جایا کرتی تھی اور ایک ہم ہیں کہ ان کی جوتیوں کے برابر بھی نہیں ہیں، بس یہ تو اللہ کافضل کرم اور لطف وعنایت ہے کہ اس نے دین اسلام کو سیکھنے کے لیے قبول فرمالیاہے۔
ان دلچسپ ،دلدوز ودل سوز واقعات کو سن کر خواہش ہوتی تھی کہ کاش کوئی ایسی کتاب ہو، جس میں علماءواکابرمظاہر کے وہ تمام واقعات درج ہوں، جو طویل زمانے سے سنتے چلے آرہے ہیں۔
ازحدمسرت اور قلبی خوشی ہوئی جب اس بابت معلوم ہوا کہ مظاہر علوم (وقف) سہارنپور یوپی کے استادِ محترم، ماہنامہ "آئینہ مظاہرعلوم"کے مدیر: ادیب اریب، صاحب اسلوب نثر نگار مولانا مفتی ناصرالدین مظاہری مدظلہ العالی نے اس جانب پیش رفت فرمالی ہے،یوں تو حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی کی ذات عالی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں، تقریباً دو دہائی سے ان کے قلم سے دین اسلام کے مختلف ومتنوع موضوع پر تحریرات لکھی گئی ہیں، کئی کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ وپیراستہ ہوکر عوام وخواص میں یکساں قبولیت حاصل کرچکی ہیں، ”آئینہ مظاہر“ کے ادارئیے اس کا بین ثبوت ہیں،ایسے ہی جب نامور علمی ادبی واصلاحی شخصیات پر قلم اٹھایا تو حق ادا کرکے ہی دم لیا،اور کیوں نہ حق ادا ہو کہ آپ کو تصنیف وتالیف میں کامل ملکہ حاصل ہے،ایسا لگتاہے کہ گویا آپ کاوجود ہی تحریر وتالیف کے لیے ہواہے، تبھی تو مظاہر علوم جیسا معتبر دینی ادارہ آپ کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے؛جب بھی آپ کسی بھی موضوع پرقلم اٹھاتے ہیں تو الفاظ وکلمات، تشبیہات واستعارات، بکھری ونکھری تمثیلات؛ ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں کہ کب حضرتِ ناصر! ان کو زیرِ قلم لائیں،مگر قربان جاو¿ں! مولانا موصوف پر کہ جب الفاظ وکلمات کاچن چن کر انتخاب کرتے ہیں تو طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتاہے کہ گویا ان الفاظ کا محل استعمال یہی ہے اور یہ اسی مقام کے لیے ایجاد ہوئے ہیں۔
مولانا موصوف نے کتاب لکھی بھی تو خوب لکھی! حضرت ناصر! نے کتاب کا نام بھی البیلا اور جاذب نظر متعین کیاہے،کہ بے ساختہ کتاب پڑھنے کے لیے دل بےتاب وماہی بے آب ہوجاتا ہے اور پڑھے بغیر سکون وقرار نہیں پاتا ہے۔
کتاب کا ٹائٹل بھی نہایت ہی عمدہ، اور جاذب نظر ہے، کتاب کی ابتداءبایں طور ہوتی ہے کہ اولاً فہرست کتاب درج کی گئی ہے، جس میں ابتدائی چوّن صفحات میں ”انتساب “اور مقدمہ جات ہیں،انتساب لکھا بھی تو کیا ہی خوب لکھا، اس لکھنے کو جس ہستی کی جانب منسوب کیا ہے توقاری پڑھتے ہی رہ جاتے ہیں، اولاً عام طورپراس عظیم ہستی کو فراموش ہی کرجاتے ہیں، چوں کہ ان کا تعلق الف سے اللہ، ب سے بسم اللہ کہلوانے سے ہوتاہے، جب طالب علم سے لکھنے آتا اور قلم کے اندر روانی پیدا ہوجاتی ہے تو اکثر وبیشتر ان کو فراموش کرجاتے ہیں، مگر مو¿لف محترم نے اس کتاب کو ان ہی کی جانب بایں طور منسوب کیا ہے۔
” لکڑی کے قلم سے............ لکڑی کی تختی پر
سب سے پہلے................الف سے اللہ
لکھنے کی مشق کرانے
استاذِمکرم حضرت مولانا حفظ الرحمٰن نعمانی مدظلہ (خیری) کے نام! “
بعدازاں ”باتیں ہماریاں“ کے عنوان سے معنون چند ابتدائی کلمات مو¿لف محترم نے تحریر کئے ہیں، جس کو پڑھ کر کتاب اور وجہ تالیف کی بابت مکمل آگاہی ہوجاتی ہے، اور کئی سوالات کا مسکت مگر ادبی لہجے اوراسلوب میں جواب دیا گیا ہے، اس کے بعد”فکرعالی“ کا عنوان قائم کرکے جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہ ناظم ومتولی مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی ادبی وعلمی تحریر کو جگہ دے کر کتاب میں ایک بہترین اضافہ کردیا گیاہے، بعدہ ”اکابرمظاہر کا ذکرِ جمیل“ کو جلی حروف میں لکھ کر حضرت مولانا بدرالحسن قاسمی مدظلہ سابق استاذ ونائب ایڈیٹر ”الداعی“ دارالعلوم دیوبند کے خیالات و حوصلہ افزا کلمات کو شاملِ کتاب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ”زباں میری ہے بات ان کی“کو جلی حروف میں نقش کرکے مولانا محمدساجدکھجناوری مدرس جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ، سہارنپور نے نہایت ہی وقیع اور جاندار ادبی پیرائے میں ڈھال کر ایک حوصلہ افزا کلمات پر مشتمل تحریر لکھی ہے، اس کو بھی کتاب میں جگہ دی گئی ہے، بعد ازاں حضرت مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر مدظلہ استاد دارالعلوم وقف دیوبند نے کتاب پر مقدمہ ادبی ذوق وشوق کے ساتھ کیا ہی خوب لکھا ہے۔”عرض ماشر“کے عنوان سے معنون ایک تحریر مولانا عبیدانور شاہ قیصر استاذ جامعہ امام محمدانورشاہ، دیوبند و ڈائریکٹر مکتبہ الانور دیوبند بھی شامل کتاب کی ہے۔
اس کے بعد ”یہ تھے اکابرمظاہر “ پر دو منظوم کلام کو بھی بطورِخاص جگہ دی گئی ہے،بعدہ سہارنپور کی مختصراً تاریخ کا ذکرِ خیر کرکے ”مظاہر علوم“کے تحت علم وہنر کے آفتاب وماہتاب کا ذکرِ جمیل کیا گیا ہے
پھر ”آنکھ جو دیکھتی ہے“کا عنوان قائم کرکے اس جانب اصلاح ذات واصلاح نفق پرتوجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔
اس کتاب کے مطالعہ کے لیے جب آپ گوشہ نشین ہوں گے تو آپ اس میں پائیں گے کہ مو¿لف محترم نے کس قدر عمدہ اور رواں دواں اسلوب کے ساتھ اکابرمظاہر کی عالمانہ وزاہدانہ زندگی کو قلمی جامہ پہنایا ہے،یہ تحریریں جذبہ¿ خالص اور طلب صادق کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں، ان تحریروں کو انہوں نے بڑی محبت اور چاو¿ کیساتھ سپرد قرطاس کیا ہے تبھی تو سوزعقیدت، محبت و الفت خود بخود جگہ بناتے چلے گئے ہیں...
کتاب کی اہمیت وافادیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عرصہ¿ دراز سے اس کی کمی علمی وادبی حلقوں میں محسوس کی جارہی تھی، یوں جیسے ہی یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ وپیراستہ ہوکر آئی تو ہر دو حلقے میں خوشی ومسرت کا سماں بندھ گیا ہے، کافی جگہ علمی واصلاحی مجالس میں یومیہ پڑھاجانے لگاہے، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہی ایک ہی ماہ کے اندر ہی اسکاپہلا ایڈیشن قریب الختم ہے،اور ”مملکتِ خداداد “میں تو کبھی کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوچکا ہے، اس کتاب کو جس نے بھی دیکھا تو خریدے بغیر رہ نہیں پایا، چونکہ کتاب کا موضوع ہی ایسا دلچسپ ودلنواز ہے کہ نظر انداز کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ بھی بھی تو نہیں ہے۔
اپنے نزدیکی کتب خانے سے رابطہ کیجیے ،مناسب دام میں اردو ادب کے قالب میں ڈھلی اورشاندار تعبیرات کے سانچے میں مڑھی”یہ تھے اکابرمظاہر“نامی اس انمول تحفہ کوخریدئیے ....پڑھیے ....اور....آگے.... بڑھیے۔
 
Top