نفس نفس خوشی خوشی گذارتے چلے گئے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
نفس نفس خوشی خوشی گذارتے چلے گئے

(والدماجدکے بارے میں لکھی گئی چندیادیں اورباتیں)

(ناصرالدین مظاہری)

اے جوش الم کب تک گریہ!دل آج یہ ڈوباجاتاہے
موجیں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہیں ،طوفاں ہے کہ امڈاآتاہے

میرے والدماجد ۸؍جنوری ۲۰۱۲ء کی صبح تقریباًآٹھ بجے کم وبیش دوماہ علالت کے بعدکلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے مولائے حقیقی سے جاملے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون

بدعت وخرافات سے نجات:

والدماجدکانام نامی نظام الدین تھا،آپ نے بدعت زدہ علاقہ لکھیم پورکھیری کے ظلمت کدہ ’’مرزاپور‘‘ میں تقریباً۸۰؍ سال پہلے آنکھیں کھولیں ،اس وقت پوراعلاقہ کفروضلالت اوربدعت وگمراہی کی لپیٹ میں تھا،خودآپ کے آباء واجدادبدعت کے ہرموقع پرنام ونمودکافخریہ اظہاراورتعزیہ داری کامکمل اہتمام کرتے تھے ،ماحول کے اثرات سے آپ بھی محفوظ نہ رہے اورآپ نے بھی اپنی نوجوانی میں ان بدعات ورسومات میں خوب خوب حصہ لیا…اسی زمانہ میں علاقہ میں مولوی محمدرضانامی ایک بزرگ کواللہ تعالیٰ نے علماء دیوبندکی صحبت میں بیٹھنے سے دینی فہم عطاکیا اور انہوں نے بدعت وضلالت کے اس ظلمت کدہ کورشدوہدایت کے آفتاب عالم تاب سے روشن کرنے کی کوششیں شروع کیں۔دھیرے دھیرے بدعت کے بادل چھٹنے لگے اورسب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس خاندان کوان بدعات سے تائب ہونے کی توفیق بخشی اس میں میرے والدماجدکاخانوادہ بھی تھا۔

علاقہ کاحال:

آپ کے زمانہ میں سیکڑوں کلومیٹرتک کہیں بھی کوئی دینی مدرسہ نہ تھااورنہ ہی آج کل کی طرح پختہ سڑکیں تھیں،نہ ہی نقل وحمل کے اسباب وذرائع تھے اورنہ ہی آمدورفت کی سہولتیں مہیاتھیں،نہ توطلبہ تھے اورنہ ہی اساتذہ،نہ ہی کتابیں،ایسے وقت میں مولوی محمدرضاصاحبؒ نے للہ فی اللہ جن نوجوانوں کودینی تعلیم کی طرف راغب کیاان میں میرے والدماجدؒکانام نامی اسم گرامی بھی شامل ہے۔

مولوی محمدرضاؒاپنے وقت کے ولی اورعلاقہ کے پہلے ہردلعزیز بزرگ تھے،اوراپنی گھوڑی پربیٹھ کرقرب وجوارمیں جاجاکرمسلمانوں کوراہ راست پرلانے کی کوشش کرتے تھے،اس کی پاداش میں انھیں زدوکوب بھی کیاگیا، لہولہان بھی ہوئے اورہرطرح کی سختیاں بھی برداشت کیں اورپھرچشم فلک نے دیکھاکہ ان ہی کی محنتوں کاثمرہ اورنتیجہ ہے کہ آج خودان کے گاؤں میں پچاس سے زائدعلمااورحفاظ دین اسلام کانام روشن کررہے ہیں۔

نیک صحبت کانتیجہ:

میرے والدماجدؒزیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے البتہ علماء کی صحبتوں میں بیٹھنے کی برکت تھی کہ انھیں سیکڑوں آیات اورمسنون دعائیں یاد تھیں ،کس موقع پرکون سی آیت اوردعاپڑھی جائے گی اس کاملکہ حاصل تھا،شاعرنہیں تھے لیکن شعرسن کربتادیتے تھے کہ یہ شعرصحیح ہے یاغلط ،حالانکہ خوداس کی تصحیح پرقادرنہیں تھے،آپ کی اردودانی بھی بالکل ابتدائی تھی اسی لئے بارہامجھے تاکیداًفرمایاکرتے کہ تمہاری تحریروں میں مشکل الفاظ میری سمجھ سے بالاترہوتے ہیں۔

صرف صغیراورصرف کبیرکی گردانیں احقرنے والدصاحب ؒہی سے سن سن کراس وقت یادکرلی تھیں جب ناظرہ پڑھناشروع کیاتھا،والدصاحب ؒکودینی تعلیم سے نہایت دلچسپی تھی اور انگریزی تعلیم سے شایدبیرتھااسی وجہ سے اپنی کسی بھی اولادکونہ توانگریزی پڑھنے کی طرف راغب کیااورنہ ہی کبھی اسکولوں میں داخل کرانے کی کوشش کی۔

بھلائی کے کاموں میں دلچسپی:

چندہ دینے اورخیرکے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے،کبھی بھی کسی مدرسہ کے سفیرکومایوس نہیں کیااورہمیشہ چندہ دے کرخوشی کااظہارفرماتے تھے اورکبھی کبھی فرط مسرت میں فرماتے کہ چندہ کے نام سے جوبھی رقم یاغلہ دیاجاتاہے وہی اصل ذخیرہ ہے ۔

مسجدکی تولیت:

مساجدکے سنگ بنیادکے موقع پرقبلہ کارخ اورصحیح سمت کیاہوگی؟ اس کابھی ملکہ تھااورقرب وجوارمیں متعددمساجدکے سنگ بنیادکے موقع پرتشریف لے جاتے تھے۔تاحیات گاؤں کی مسجدکے متولی رہے لیکن کبھی بھی کسی کوشکوہ کاموقع نہ دیا،آپ کی امانت داری علاقہ میں مشہورتھی،متعددلوگوں کی امانتیں آپ کے پاس اتنی رازداری کے ساتھ جمع رہتی تھیں کہ گھروالوں کوبھی پتہ نہ چلتاتھا۔

زراعت میں مہارت:

آپ کاکاروبارزراعت تھااوراس فن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی مہارت عطافرمائی تھی،پورے گاؤں کے لوگ بلاتفریق مذہب وملت آپ کاادب واحترام کرتے اورآپ کے مفیدمشوروں سے فائدہ اٹھاتے تھے،مشورہ دینے میں بھی والدصاحب بے مثال تھے،خودمیں نے دیکھاکہ آپ کے حاسدین اورمعاندین بھی بوقت ضرورت آپ کے پاس پہنچتے اورمشورہ کے خواہاں ہوتے اوروالدصاحب المستشارمؤتمن کے مدنظرصحیح اوربہترمشورہ سے نوازتے۔اختلاف کرنے کی عادت نہیں تھی ،جب اورجہاںمناسب سمجھتے مشورہ دیدیتے ،آگے اپنی رائے کے تسلیم کرلینے پراصرارکبھی نہیں کرتے تھے ۔

حسن اخلاق:

آپ کی زندگی کاسب سے اہم پہلوآپ کااخلاق حسنہ تھا،چھوٹا ہویا بڑا،ہرشخص سے آپ غایت شفقت سے گفتگوفرماتے تھے،بات کوطول دینایاخودرائی کاشکارہونامعیوب تصورفرماتے تھے اسی لئے آپ کوعجب اور گھمنڈ والے لوگ پسند نہیں تھے،سلام میں پہل آپ کی عادت تھی،ملنساری اورتواضع آپ کی فطرت تھی،خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگوکرناآپ کی طبیعت ثانیہ اورجھگڑے کی جگہوں سے دوررہناآپ کی نصیحت تھی،پوری زندگی میں کبھی کسی کوسخت اورسست نہیں کہا،دشمنوں کی ہدایت کی دعاکرتے اورہم لوگوں کوہمیشہ ایک نصیحت فرماتے کہ
’’دشمنوں سے مقابلہ مت کرو،اگرتمہارادشمن کوئی بھی ناجائزکام کررہاہے تواس کوپہلے توسمجھاؤ اوربعدمیں پورامعاملہ اللہ کے سپردکردد،صبرسے کام لوکیونکہ میں نے صبرسے زیادہ آنچ کسی چیزمیں نہیں دیکھی،مجھے اللہ تعالیٰ نے جوعزت بخشی ہے اس میں بھی اسی صبرکودخل ہے کیونکہ میں نے کبھی بھی پیمانۂ صبرکولبریزنہیں ہونے دیاہے جس کانتیجہ تم لوگ دیکھ رہے ہو‘‘۔

کبھی بھی کسی سے ہاتھاپائی کی نوبت نہیں آئی اورنہ ہی اس مزاج کے لوگوں کوپسندکیا،ہمیشہ ایسے جھگڑالو لوگوں سے دوررہنے کی نصیحت فرماتے اورکہتے کہ جھگڑالولوگ بہت جلدمعاشرہ میں اپناوقارکھودیتے ہیں۔

قوت فیصلہ:

والدماجدؒقرب وجوارمیں فیصلوں اورمیٹنگوں میں بھی بلائے جاتے اورآپ کی رائے ہی حرف آخراورآپ کا قول ہی قول فیصل ہوتا۔

آپ حکیم تونہیں تھے لیکن جڑی بوٹیوں اوران کے خواص کااچھاخاصاعلم رکھتے تھے،کس مرض میں کون سی جڑی بوٹی مفیدرہے گی اس کاعلم رکھتے تھے ،یہی وجہ سے کہ قرب وجوارکے ہندو اورمسلمان سبھی اس سلسلہ میں بھی مشورہ کے لئے آتے رہتے تھے۔

آپ اپنی تمام اولادکوزیورعلم سے آراستہ کرنے کا خواب دیکھتے رہے اوراس سلسلہ میں ممکنہ کوششیں بھی فرمائیں لیکن باضابطہ اورباقاعدہ فراغت اورفضیلت کے مقام تک پہنچنے کی سعادت راقم الحروف کے حصہ میں آئی ،میرے والدصاحبؒنے بڑی عسرت اورتنگدستی میں مجھے تعلیم دلوائی،کبھی کبھی سہارنپورآتے وقت اگرنقدرقم نہ ہوتی توفوراً غلہ فروخت کرکے روپوں کانظم فرماتے۔

علم دین سے محبت:

1988ء میں مدرسہ امدادالعلوم زیدپور میں میراداخلہ کروانے کے لئے بہ نفس نفیس تشریف لے گئے ،اس وقت احقرصرف گیارہ سال کاتھا، والدصاحب جب واپس گھرجانے لگے تومیں روپڑا،والدصاحب ؒنے اپنے چہرے پربشاشت طاری کرکے میری ہمت بندھائی اورفرمایاکہ دوماہ کی بات ہے قربانی میں تعطیل ہوگی توگھرآجاؤگے،یہ کہتے کہتے خودوالدصاحب کی آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے۔

کیابتاؤں اورکیسے بتاؤں کہ اس وقت میرے والدصاحبؒ نے کتنی مشقتیں میری تعلیم کی خاطربرداشت کیں، میرے گاؤں سےتقریباً۱۵؍کلومیٹرکے فاصلہ پر’’سسیاچوراہا‘‘نامی ایک جگہ ہے جہاں سے بسیں ملتی تھیں ، والد صاحبؒ مجھے اپنی سائیکل کے اگلے حصے پربٹھالیتے اورسائیکل کے پچھلے حصہ پرمیراصندوق رکھ لیتے(اس وقت اچھابیگ یامعیاری سوٹ کیس خریدنا میرے تصورسے بالاترتھا) اوراس طرح والدصاحب ہربار۱۵؍کلومیٹرکایہ سفرسائیکل سے طے فرماتے۔

اسی طرح میں جب بھی وطن سے مظاہرعلوم آتاتووالدصاحبؒ خندہ پیشانی سے الوداع کہتے،والدہ سے بھی کہہ رکھاتھاکہ جاتے وقت اپنی آنکھوں میں آنسومت آنے دینا،اسی طرح میرے سفرکے دوران مسلسل دعافرماتے کہ سفربخیروخوبی مکمل ہو،تاکیدبھی فرماتے کہ پہنچتے ہی فون پرمطلع کرنا۔

ترجمہ قرآن کامطالعہ:

آپ صوم وصلوۃ اوراورادووظائف کے توپابندتھے ہی فجرکے بعدتلاوت قرآن کامعمول میں نے زندگی بھردیکھااوراس معمول میں کوئی بھی خانگی یاخارجی پروگرام کبھی بھی حائل نہ ہوا،اسی طرح حضرت شیخ الہندؒ کاترجمہ اورحضرت علامہ شبیراحمدعثمانی کی تفسیرکامعمول بعدنمازعصرتا مغرب کم وبیش بیس سال سے تھا،آپ کے ہم عمراورحضرت مولوی محمدرضاؒکے صاحب زادے محترم مولوی ضیاء اللہ صاحب مدظلہ ایک دن بعدنمازظہرمسجدہی میں والدصاحب کاتذکرہ کرتے ہوئے رونے لگے اورپھرفرمایاکہ میری بینائی کمزورہے اس لئے تمہارے والدصاحب عصرکے بعدپہلے توقرآن کریم کی آیت پڑھتے پھرترجمہ شیخ الہندؒپڑھ کرسناتے اورپھراس کی تفسیراورتشریح جواس کے حاشیہ میں ہے سناتے ،اس طرح ہم دونوں نے مکمل قرآن اس کے ترجمہ اورتفسیرکے ساتھ بالاستیعاب تین بارختم کیاہے ۔

دینداری:

سادگی کایہ عالم تھاکہ تقریباً۱۵؍سال سے گھرمیں فون ہونے کے باوجودکبھی بھی ازخودفون نمبرنہیں ملاپاتے تھے۔آپ کالباس، بودوباش اورکھاناپیناسب کچھ سادگی سے عبارت تھا۔

ایک نصیحت خاص کرمجھے فرماتے تھے کہ

’’ کوشش یہ کرناکہ مدرسہ تمہیں اپنے لئے بارمحسوس نہ کرے اورتم مدرسہ کی جوبھی خدمت کرواس کاصلہ دنیامیں پانے کی کوشش مت کرنا،مدرسہ کے مال کومال غنیمت مت سمجھنااورذاتی ضروریات کے لئے مدرسہ کوکبھی بھی زیربارمت کرنااورکوئی بھی کام جس سے مدرسہ کے وقارپرحرف آتاہومت کرنا‘‘۔

شکارسے دلچسپی:

شکارکھیلناآپ کاخصوصی ذوق تھاچاہے مچھلیوں کاشکارہویاچڑیوں کا،چاہے نیل گائے کاشکارہویاہرن کااس سلسلہ میں جب بھی شکارکی نوبت آتی توبڑھاپے کے باوجودجوانوں کاساعزم اورجوش نظرآتا۔

’’خفقان قلب‘‘

’’خفقان قلب‘‘جوایک مرض ہے شروع ہی سے آپ اس کاشکار رہے،انتقال سے تقریباًدوماہ پہلے کمزوری بڑھ گئی اورپھرچلنے پھرنے سے ہی معذورہوگئے لیکن آپ کادل،آپ کی زبان،آپ کادماغ اورآپ کی آنکھیں اخیرلمحہ تک پورے طورپرکام کرتی رہیں۔

کبھی اپنے پوتے حافظ محمدلئیق سلمہ کوبلاتے اورحکم دیتے کہ یسین شریف پڑھ کرسناؤ،کبھی اپنی پوتیوں کوبلاتے اوریسین شریف پڑھنے کاحکم دیتے،فارغ وقت میں خودہی ہمہ وقت کلمہ طیبہ اورعاؤں کاورد رکھتے، اخیرعمرمیں کوئی بیماری نہیں تھی،نہ ہی کوئی تکلیف تھی محض کمزوری تھی،آپ کی آخری تمناجوپوری نہ ہوسکی یہ تھی کہ میں کچھ دن اورمسجدمیں جانے کے لائق ہوجاؤں!

غیبی بشارت:

انتقال سے تقریباًتین ہفتہ پہلے غنودگی کے عالم میں آپ نے کچھ ہرے بھرے خوبصورت لہلہاتے ہوتے باغات دیکھے جس میں طرح طرح کے پھل اورپھول نظرآرہے تھے پھرآنکھ کھل گئی ،میری بہن آپ کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھیں ،والدصاحب انھیں دیکھ کررونے لگے ، بہن بھی اباجی کوروتا دیکھ کررونے لگی ،توفرمایاکہ ابھی ابھی میں نے خواب میں خوبصورت باغات دیکھے ہیں جس میں طرح طرح کے پھل اورپھول ہیں، اور میرے سامنے جودیوارہے اس پرخوبصورت نقش ونگاربنے ہوئے ہیں،اِس سے اندازہ ہوتاہے کہ اب زیادہ دن کی زندگی نہیں ہے ۔

سفرتمام ہوانیندآئی جاتی ہے:

کلمۂ طیبہ کاوردتومستقل تھالیکن جوں جوں وقت موعودقریب آتاجارہا تھا،اس میں اورکثرت ہوتی جارہی تھی ،آپ بلاکسی کی تلقین وہدایت کے خودہی کلمۂ طیبہ پڑھتے رہے اوردعاکرتے رہے کہ یااللہ !میری اولاد کوظالموں کے ظلم سے محفوظ رکھنا،انھیں رزق حلال عطافرما! انتقال سے چندساعت قبل پانی پیش کیاگیاتوپینے سے منع فرمادیالیکن جب بہن نے بتلایاکہ یہ زمزم کاپانی ہے توفوراًپانی پینے کے لئے تیارہوگئے اورمنہ کھول دیا،پانی پلایاجانے لگا،ایک صاحب سرہانے سورۂ یٰسین شریف پڑھنے لگے ،اِدھرپانی کاسلسلہ ختم ہوا،اُدھرسورۂ یٰسین مکمل ہوئی اوروالدصاحبؒ نے پھرکلمہ پڑھااورصبح آٹھ بجے کے بعدروح مبارک قفس عنصری سے پروازکرگئی۔

نفس نفس خوشی خوشی گذارتے چلے گئے
ترے مریض غم تجھے پکارتے چلے گئے

(آپ سے درخواست ہے کہ میرے اباجی کے لئے دعائے مغفرت ضرورفرمائیں)
 
Top