ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
"ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا"

سلسلہ وار نمبر6

ناصرالدین مظاہری

21ذوالقعدہ 1443ھ

انتقال سے پہلے اذان اورتکبیرکہلوائی:

ان کانام نورحسن تھا،ترمت کھیڑی ضلع سہارنپورکے رہنے والے تھے، دبلے پتلے ،ہلکے جسم، گندمی رنگ ، چوڑی پیشانی اور بلندقامت انسان تھے۔

مدرسہ میں اُس وقت تک پانی کی بڑی ٹنکی نہیں بنی تھی، موٹر چلاکر ٹینک بھرنا پڑتا تھا،حوض بھی بھرتے تھے کیونکہ پانی کی ٹونٹیاں بھی نہیں تھیں،مسجدکی صفیں بھی درست کرنی پڑتی تھیں،اگردھوپ یاجمعہ ہوتا تو شامیانہ بھی لگانا پڑتاتھا۔ان تمام تر مشکل مراحل سے یہ نیک طینت اور بے نفس انسان اکیلا گزرتا تھا لیکن مجال ہے کبھی حرف شکایت زبان پرآیا ہو، یا کام کے بوجھ کا شکوہ کیا ہو.

یہ ساری خدمت آپ مسجد کلثومیہ میں انجام دیتے تھے جہاں طلبہ کی بڑی تعداد رہتی اور نماز پڑھتی ہے، بہت سے طلبہ مسجدمیں تکرار و مطالعہ میں مصروف رہتے ہیں،ظاہر ہے جو طالب علم جس جگہ مطالعہ یا تکرار یاسنتیں پڑھے گا اپنے اوپر والا پنکھا چالو کرلے گا، فارغ ہو کر اکثر طلبہ تو پنکھے بند کردیتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو پنکھا چلاتے تو بڑی ذمہ داری کے ساتھ ہیں لیکن بندکرنے میں نہایت غیر ذمہ دارواقع ہوتے ہیں،بلکہ مصروفیت کے دوران اگرلائٹ چلی جائے اورلائٹ کی غیبوبت میں نماز یا مذاکرہ سے فراغت ہوجائے تو اکثر ہوشیار لوگوں کاذہن بھی پنکھا بند کرنے کی طرف نہیں جاتا۔ملانورحسن مرحوم ایسے لوگوں اورطلبہ پر بہت غصہ ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ ان "سوہروں" نے ایک مشکل کھڑی کررکھی ہے کوئی ادھرسے پنکھا چلاکر بھاگ جاتاہے تو کوئی ادھر بٹن دباکر چلاجاتاہے۔

حضرت مولانا سیدوقارعلی بجنوری طلبہ کی نگرانی کے لئے عموماً اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے،مولاناجماعت ثانیہ اور مسبوقین کے بھی بہت خلاف تھے، طلبہ کو ہمیشہ ہدایت اور نصیحت فرماتے کہ مسجد کی جماعت میں شرکت کرو اور تاکید فرماتے کہ تکبیر اولی کا اہتمام بھی کرتے رہو۔

مسجدکلثومیہ کے داہنی جانب موذن کاحجرہ ہے،حجرہ کے برآمدے میں آٹھ دس لوگوں کے بقدر نمازیوں کی گنجائش ہے،جو طلبہ جماعت اولی سے محروم رہ جاتے ہیں وہ جماعت ثانیہ کرلیتے ہیں۔

ایسا ہی ایک موقع تھا،ملانورحسن امام کے بالکل پیچھے صف میں تھے ۔امام نے سلام پھیرا تو مولاناسیدوقارعلی ؒکوتکبیرات کی آوازیں سنائی دیں، مولانا نے مڑکر دیکھا توجماعت ثانیہ ہورہی تھی،امامت کے فرائض اشرف علی سیتاپوری نامی ایک طالب علم انجام دے رہاتھا، مولانا نے زورسے فرمایا:

’’ارے نورحسن!جتنے طلبہ جماعت ثانیہ میں شامل ہیں ان سب نالائقوں کے نام لکھو اور ان کاکھانا بندکرادو‘‘

ملاجی نورحسن ،پے چارے بوڑھے، کم پڑھے لکھے،بھلا کہاں قلم کاغذ لے کراس تکلف میں پڑتے پھربھی حکم تھا اٹھے،صفیں چیرکرسہ دری تک پہنچنے کی کوشش شروع کی،ادھر مولانا کی یہ آواز جماعت ثانیہ کے امام عالی مقام نے بھی سن لی تھی ،پہلی رکعت کا دوسراسجدہ تھاجب ملاجی سہ دری تک پہنچے تب تک دیر ہوچکی تھی ،امام صاحب نے اپنی قوم کوسجدہ کی حالت میں چھوڑا اپنے چپل اٹھائے اور بھاگ کھڑاہوا،جب سجدہ میں کچھ دیرلگی توایک طالب علم نے سراٹھاکرامام عالی مقام کودیکھا وہاں تو خالی مقام تھا،زور سے چلایاابے بھاگو! امام غائب ہوچکاہے،بس پھرکیاتھا دمادم سبھی طلبہ نے امام کی تقلیدکی اورملاجی آنکھیں ملتے رہ گئے انھیں توسجھائی بھی کم دیتاتھا، ملاجی ہنسنے لگے اورخودحضرت مولانا سیدوقارعلی بھی ہنسنے لگے۔
خیریہی ملانورحسن انتقال سے پہلے بسترپر لیٹے ہوئے تھے،نیم بے ہوشی کاعالم تھا،اپنے بیٹے ملاجی صداقت سے کہنے لگے کہ نماز کا وقت ہونے والاہے میری طبیعت کچھ خراب محسوس ہورہی ہے،گلے میں بھی خراش ہورہی ہے،ایساکرو تم اذان دیدو، پھرمیں خود کل سے اذان دیاکروں گا،دلجوئی کے لئے ایک لڑکے نے اذان دے دی،تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ پھرکہنے لگے بیٹے !جب تو نے اذان دے دی ہے توتکبیربھی کہہ دے میراگلا ساتھ نہیں دے رہاہے۔چنانچہ پھرایک لڑکے نے چارپائی کے پاس ہی تکبیرکہہ دی ۔اب ملاجی کے چہرے پربلاکا سکون طاری تھا جیسے کسی بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے ہیں۔اسی حالت میں آنکھیں بندکرلیں اور روح نے قفس عنصری سے نکل کر اپنی راہ لی۔انالّٰلہ واناالیہ راجعون۔
 
Top