افسانہ: کیا وقت بدل گیا؟

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
اس نوجوان نے سن رکھا تھا ایک دن آئے گا یہ حالات بدل جائیں گے،ایک دن آئے گا وقت بدلے گا ،تاریک بادل چھٹ جائیں گے، ہر طرف اجالا ہو گا، مگر وہ وقت کب آئے گا؟؟؟
وقت کیسے بدلے گا؟ چلو ہم وقت کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔۔۔
کیا گھڑی سے سیل نکال دوں؟ اس وقت کو آگے کر دوں؟ شاید آنے والا وقت اچھا ہو۔
یا پھر خود ہی گھڑی کے اندر چلا جاتا ہوں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اسے خود آنکھوں سے دیکھوں گا۔ وقت کیسے بدلے گا۔۔۔۔۔
یہ کیا وقت جہاں سے شروع ہوتا وہیں واپس آ جاتا،گھڑی کے اندر لمحے، منٹ، گھنٹے، دن، ہفتے، مہنیے اور پھر سالوں گزر گئے۔۔۔۔۔۔
وقت نہیں بدلہ پھر ایک دن اس شخص نے سوچا اب گھڑی سے باہر نکل جاتا ہوں۔ یہاں تو وقت نہیں بدلے گا۔۔۔۔
یہ کیا باہر کی دنیا تو یکسر ہی بدل گئی۔ ۔۔۔۔
لوگ بدل گئے۔۔۔۔۔
ماحول بدل گیا۔۔۔۔۔
وقت بدل گیا۔۔۔۔۔
وہ شخص ضعف کے باعث لڑکھڑا کر گرنے والا تھا کہ ایک لڑکے نے اسے آ کر سہارا دیا۔
اس شخص نے پوچھا کیا وقت بدل گیا؟؟؟
لڑکے نے جواب دیا بابا جی یہ وقت نہیں بدل سکتا۔۔۔ اسے کوئی نہیں بدل سکتا
وہ شخص حیران تھا۔ کیونکہ اس کے لیے وقت بدل چکا تھا، وہ بدل چکاتھا۔۔۔
وہ یہی کہہ رہا تھا وقت کیسے بدل گيا؟ وقت کیسے بد ل گیا؟
 
Top