ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا (۹)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ذکرمظاہرعلوم کے دربانوں کا
سلسلہ علم وکتاب(۹)
ناصرالدین مظاہری
’’لگتی ہیں گالیاں بھی منہ سے ترے بھلی‘‘
اِن واقعات کے لکھنے کامیراکوئی ارادہ نہیں تھانہ ہی میں اس پہلوپرکچھ لب کشائی کروں گاتاہم چونکہ دونوں واقعات کاتعلق براہ راست دربانوں سے ہے اس لئے بلاکم وکاست نقل کرنامناسب سمجھتاہوں ۔
حضرت مولاناخلیل محدث سہارنپوری کاطمانچہ:
محدث کبیرحضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ بہت نرم دل اورخلیق طبیعت کے مالک تھے لیکن بے اصولی پرغصہ آنابہرحال فطری بات ہے چنانچہ ایک بارحضرت ؒ کسی کام سے مدرسہ پہنچے ،دروازہ بندتھا، دروازے پردستک دی ،دربان نے دروازہ کھولنے میں تھوڑی دیرکی، جب دروازہ کھلاتوحضرت نے دربان کوطمانچہ رسیدفرمادیا، پورا واقعہ فقیہ الامت حضرت مفتی محمودحسن گنگوہیؒ کی زبانی:
’’حضرت سہارنپوریؒ ایسے بھی تھے کہ ۱۹۲۴کے ہنگامہ میں جب مظاہرعلوم کے دارقدیم کادروازہ بندکرلیاگیاتوتشریف لائے ،ساتھ کے آدمی نے کہاکہ حضرت تشریف لارہے ہیں دروازہ کھولو،دربان نے دروازہ کھولنے میں تاخیرکی،جب دروازہ کھلاتواندارداخل ہوئے اوردربان کے زورسے ایک طمانچہ رسیدکیاکہ دروازہ کھولنے میں اتنی تاخیرکی۔(ملفوظات فقیہ الامت ۱۱۹جلددوم)
حضرت مولاناثابت علی پورقاضویؒ کاطمانچہ:
احقر نے اپنی کتاب’’یہ تھے اکابرمظاہر‘‘میں حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ کی آپ بیتی اورحضرت مولانانسیم احمدغازی مظاہریؒ کی ’’حیات اسعد‘‘کے حوالہ سے حضرت مولاناثابت علی پورقاضویؒ کے دوایک واقعات لکھے ہیں ان ہی کاایک واقعہ حضرت شیخ ؒنے آپ بیتی میں لکھاہے :کہ
’’مولانا کی زندگی بڑی عجیب وغریب تھی ۔مدرسہ کے اوقات کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔رمضان وبقرعید کی تعطیلات کے علاوہ مدرسہ کے حرج کی وجہ سے اپنے گھر تشریف نہ لیجاتے تھے۔آپ مدرسہ مظاہرعلوم کے مدرس دوم تھے مگر نظم ونسق کی درستگی میں کوشاں رہتے تھے ایک مرتبہ گھنٹہ بجانے والے ملازم نے ۲منٹ دیرسے گھنٹہ بجایا،آپ فوراً اپنی درسگاہ سے اٹھے اوراس ملازم کے پاس پہنچ کر اس کے دوتھپڑرسید کیے اورفرمایا کہ ’’گھنٹہ وقت پرنہیں بجایاجاتا،سارے اسباق گڑبڑ کردئے‘‘استاذ الکل ہونے کی حیثیت سے بھی آپ کا سب پرکنٹرول تھا اورسب ہی حضرات آپ کا لحاظ واحترام کرتے تھے‘‘۔
بہر حال وہ دوتھپڑ جس شخصیت نے مارے تھے اس کانام نامی حضرت مولاناثابت علی پورقاضویؒ تھا اورجس کومارے تھے وہ ملاجی زاہد تھے جومدرسہ میں تاحیات جراس رہے اورہمیشہ جراسی(گھنٹہ بجانے )کی ذمہ داری انجام دیتے رہے ۔
کھچڑی کاواقعہ:
چلتے چلتے کھچڑی کاایک واقعہ بھی پڑھتے چلیں جوحضرت شیخ الحدیث ؒنے آپ بیتی میں ہی تحریرفرمایاہے:
’’مدینہ پاک میں بھی سردی میں خوب کھچڑی پکی اورجب کھانے پرکھچڑی آتی تومولاناسیداحمدؒجلدی سے اٹھتے اوپرکی منزل میں تشریف لے جاتے جہاں ان کازنامہ مکان تھااوربہت بڑے پیالے میں گھی گرم کرکے لاتے اورایک دم اس کوکھچڑی کی رکابی میں الٹ دیتے اورفرماتے کہ اس کانام گھی چری ہے اورگھی اس میں شوربے کی طرح بہہ جاتا،حضرت بھی ناراضی کااظہارفرماتے اورمیں بھی ان کے سرہوجاتاکہ آپ نے کھانے کے قابل نہیں چھوڑی،اوپرکے حصہ کوتوہم کھالیتے اورنیچے کاحصہ جس میں گھی کاشوربابہتاہواہوتاملااللہ بندہ ، ملانذیر (کہ یہ دونوں خادم بھی اس وقت ساتھ میں تھے)ان کے حوالے کردیتے کہ اس میں کھچڑی اورملاکرکھالیں۔ان کے توبہت مزے آتے ،گھی بہتی کھچڑی کھاتے ‘‘(آپ بیتی جلداول صفحہ ۴۱۳)
خانہ کعبہ میں داخلے کی سعادت:
کہاں ایک مدرسہ کی دربانی اورکہاں خانۂ کعبہ میں داخلے کی سعادت،جو بھی سنے گاحیرت کی انگلی اپنے دانتوں تلے دبالے گالیکن سچ یہی ہے کہ بڑوں کی خدمت وصحبت سے خداملتاہے ۔اس کہاوت کانظارہ اللہ بندہ اورملانذیرمرحوم سے زیادہ بہترکون کرسکتاہے جن کے وسائل نہایت کم اورمسائل نہایت زیادہ،مشاہرہ قلیل اوراخراجات کی فہرست بہت طویل ،اتنی کم آمدنی میں حج بیت اللہ کی سعادت میسرہوجائے یہی کیاکم ہے چہ جائے کہ مدینہ منورہ میں طویل قیام،مقامات مقدسہ کی زیارت اورسب سے بڑھ کرخانۂ کعبہ میں داخلے کی سعادت،سبحان اللہ۔
اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی خدمت کے طفیل میں حج بھی مفت کرادیا، مدینہ منورہ میں طویل قیام بھی مفت اورمزید اہم بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کعبۃ اللہ میں داخلے کی سعادت بھی عطافرمادی۔پوری تفصیل مجھ سے نہیں خودحضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ سے سنئے:
اوران سبھی کی خوش قسمتی اورسعادت پرعش عش کیجئے:
’’اسی سفرمیں حضرت کی برکت سے خانۂ کعبہ کی داخلی بھی نصیب ہوئی کہ شیبی صاحب نے تعلقات کی وجہ سے مخصوص خدام کےلئے کعبہ شریف کوکھولا‘‘(آپ بیتی جلددوم)
 
Top