نوجوان، جرائم کی دہلیز پر کیوں؟

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
ہم ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں اور اسلام ہمیں مساوات، محبت، امن، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے لیکن عدم معاشی حالات، غربت، حق تلفی، نچلے درجہ کا شہری نے ایک تفریق پیداکردی ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کے رویئوں میں بھی بہت زیادہ تبدیلی رونما ہورہی ہے۔آج کا نوجوان جب اپنا موازنہ مالی طور پر خود سے بہتر لوگوں سے کرتا ہے تواس کے دل میں بھی وہ سب کچھ حاصل کرنے کی خواہشات کروٹیں لینے لگتی ہیں، جس کے باعث وہ ذہنی خلفشار اور خلجان کا شکار ہوجاتا ہے۔ اضطرابی کیفیت بسا اوقات غلط راہوں کے انتخاب اور زندگی کے سکون کو برباد کرنے کا باعث بنتی ہے۔

نوجوانوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس وقت پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد تقریباََ20فیصد اور غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد80 فیصد ہے، پھر جو تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ان میں بھی دوفیصد ذہنی طور پر بیمار اور پس ماندہ ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان کے طور طریقے ہی عجیب و غریب ہیں۔ والدین سے لاپروائی، رات گئے گھروں سے باہر رہنا، دوستوں کی محفلیں، اسکول، کالج اور تدریسی مراکز سے غائب رہنا، انٹرنیٹ، موبائل اور کمپیوٹر کا غلط استعمال، سگریٹ نوشی، پان، گٹکا ، نشہ آور اشیاء کا استعمال، مختلف قسم کے کیفے جوائن کرنااور اخلاقیات سے گری ہوئی غیر معیاری گفتگو کرنا عام ہے۔یہ ہے 2 فی صد پڑھے لکھے طبقہ کا مختصر سا احوال ۔

معاشرے کے ان 80فیصد ان پڑھ نوجوانوں کی طرف دیکھیں تو جو معاشی حالات کی بہتری اور اپنے گھر والوں کےلئے صبح شام ،رات دن محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے کنبے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں وہ اس امید کے ساتھ مختلف کارخانوں، بازاروں، دکانوں فٹ پاتھوں پر حلال رزق کےلئے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں کہ گھر کے افراد کو تکلیف نہ ہو۔ اس کے برعکس نوجوانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جن میں حلال و حرام کا احساس تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ مختلف جرائم پیشہ افراد بھی انہیں استعمال کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ادب و آداب سے بے بہرہ ہوجاتے ہیں، انہیں پناہ گاہوں میں تحفظ مل جاتا ہے، اسی لیے وہ خوف، احساس اور انسانیت سے عاری ہو جاتےہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں جرائم کی شدت میں کافی اضافہ ہوا ہے، ان میں کثیر تعداد ا نوجوانوں کی ہے ۔ایسے نوجوانوں کی دہری شخصیت ہوتی ہےان کا اپنے گھر والوں کے ساتھ رویہ مختلف اور باہر کچھ اور ہوتا ہے جب ایسے نوجوان کسی جرم کی پاداش میں پکڑے جاتے ہیں یا کسی پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں تو گھر والے اپنے لخت جگر کو بے گناہ تصور کرتے ہیں لیکن جب صورتِ حال سے آگاہ ہوتے ہیں تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

ان حرکات اور مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے وہ نوجوان جو واقعی حقیقی معنوں میں علم کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں، جو دوستی، اعتماد اور کی رشتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، وہ اپنی ذات سے کسی کو تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے، وہ صرف علم حاصل کر کے اس معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی کےلئے نئی راہیں ہموار کرنا چاہتے ہیں، ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنا چاہتے ہیں لیکن آج وہ جرائم پیشہ نوجوانوں کی وجہ سے ایک ذہنی تنائو اور کرب میں مبتلا ہیں، کیونکہ لوگ ان کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم پیشہ، گروپ اور مافیا کے خلاف آپریشن کریں اور اس سلسلے میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لا کر فوری انصاف فراہم کریں۔ لیکن اب تک یہ ہوتا آرہا ہے کہ جو گرفتار ہوتے ہیں ان پر عائد مقدمات کو کسی نہ کسی طرح اتنا طول دے دیا جاتا ہے کہ ملزمان کو شک کا فائدہ یا گواہان کی غیر موجودگی کو جواز بنا کر ضمانت مل جاتی ہے یا باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ عرصے بعد دوبارہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر طبقہ فکر اورمختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلباء و طالبات کو ایک فورم پر جمع ہوں اور ایسے مجرمانہ ذہنیت کے افراد کی نشاندہی کریں جو اس زمرے میں آتے ہیں اس سلسلے میں تمام اداروں اور گھرانوں کو مکمل جانچ پڑتال کے بعد ملازمین کوبھی اپنے ادارے اور گھر میں کام کرنے کی اجازت دی جائےمختلف طبقات میں تقسیم نوجوان خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، زبان، قوم اور فرقے سے ہو بحیثیت پاکستانی اپنی نوجوان نسل کی اصلاح، تحفظ کے لئے مل کر کام کریں اور ان مجرمانہ ذہنیت کے حامل نوجوان اور دیگر افراد کو قانون کے حوالے کریں، جنہوں نے بے چینی کی فضا قائم کی ہوئی ہے تاکہ پرسکون ، صاف و شفاف ماحول قائم ہو اورمعیشت کا پہیہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے نیز وہ نوجوان جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں، ان پڑھ افراد کو بنیادی تعلیم کی طرف راغب کر سکیں تاکہ قوم آلودہ ماحول سے پاک ہو سکے۔
 
Top