حقوق نسواں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آگئی تھی، چنانچہ صنفِ نازک کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، تین سال، پانچ سال کی نوعمر بچیوں کو محض اسلئے پیوندخاک کردیتے تھے کہ ان کی ناک نہ کٹ جائے، کوئی ان کا داماد نہ کہلانے لگے، لیکن اسلام نے ”واذ المووٴدة سئلت بای ذنب قتلت“ کے جانفزا حکم کے ذریعہ اس فتنہٴ دختر کشی کا سدباب کردیا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا۔

”آئرینا میڈمکس“ (Women in Islam 1930) میں اسلام اورماقبلِ اسلام عورت کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ”محمد صلى الله عليه وسلم نے ان چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ہے، نماز، روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپ صلى الله عليه وسلم کے لئے قابل احترام تھی، معاشرہ میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کیا کرتے تھے، محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو جینے کا حق دیا“ (سنت نبوی اورجدید سائنس۲)

”جنرل گلپ پاشا“
نے حضور صلى الله عليه وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی ہے (The Life And Tims of Mohammad) وہ اس میں پہلے اسلامی حقوق وراثت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں: ”حضور صلى الله عليه وسلم نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کردیا“ (ایضاً)

”ریونڈجی ایم راڈویل“ ایک انتہائی متعصّب عیسائی ہے، مگراعترافِ حق سے اپنے آپ کو نہ روک سکا کہ قرآن نے خانہ بدوشوں کی دنیا بدل ڈالی، دخترکشی کو ختم کردیا،اور تعدد ازدواج کو محدود کرکے احسان عظیم کردیا، چنانچہ اس نے بے اختیار لکھ دیا ”قرآنی تعلیمات سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کردیا ہو، اولاد کشی ختم کرنا، توہمات کو دورکرنا، بیویوں کی تعداد گھٹاکر ایک حد مقرر کرنا، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لئے بلاشبہ برکت اور نزول حق تھیں، گوعیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے“ (فاران ستمبر ۱۹۷۶/ بحوالہ میری آخری کتاب)
 
Top